قومی ایئرلائن اور کرپشن کی ایک ہی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ کہانی دراصل ہماری قومی ایئرلائن کی بربادی کی ہے، لیکن حقیقت میں یہ صرف ایک ادارے کی داستان نہیں بلکہ اس سوچ کی عکاسی ہے جس نے پورے ملک کو قرضوں اور ناکامی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ کبھی یہ ایئرلائن ایشیا کی بہترین ایئر لائن سمجھی جاتی تھی، آج یہ کرپشن اور نااہلی کی علامت ہے۔نواز شریف کے دور میں ہزاروں غیر ضروری سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔ ایسے لوگ شامل کیے گئے جنہیں ایوی ایشن کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ کئی بار جہاز کم اور ملازمین زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ اسی دور میں مہنگی لیز پر جہاز لائے گئے جن کے معاہدوں میں کمیشن کی بازگشت عام تھی۔آصف زرداری کے دور میں ادارہ مزید دباؤ کا شکار ہوا۔ فنڈز ادارے پر لگنے کے بجائے مخصوص جیبوں میں جاتے رہے۔ پرانے جہاز کھڑے کھڑے زنگ آلود ہوتے گئے لیکن کاغذوں میں سب کچھ درست دکھایا جاتا رہا۔ کئی روٹس پر سیاسی دباؤ ڈال کر وہ فلائٹس چلائی گئیں جو سراسر خسارے کا سودا تھیں اور فائدے کے روٹس کمیشن اور کک بیک پر اونے پونے بیچ دیے گئے۔پرویز مشرف کے زمانے میں بھی ایئرلائن کو بیوروکریسی اور طاقتور حلقوں نے اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ مفت ٹکٹوں اور رعایتی سہولتوں کا ڈھیر لگا، اور جو واجبات ادا کرنے تھے وہ آج تک بقایا ہیں۔ آڈیٹرز نے بار بار اربوں روپے کے بقایا جات رپورٹ کیے، مگر ادارہ وہ رقوم وصول نہ کر سکا۔
عمران خان کے دور میں شفافیت کی امید کی گئی، لیکن یہاں بھی من پسند افسران اور مشیروں کو نوازا گیا۔ ری اسٹرکچرنگ کے بڑے بڑے دعوے ہوئے مگر عملی طور پر ادارہ مزید دباؤ میں آگیا۔ بعض فیصلے انا اور ضد پر کیے گئے جن کا خمیازہ ادارے کو بھگتنا پڑا۔موجودہ حکومت نے ’’ہولڈ کو‘‘ اور ’’ٹاپ کو‘‘ بنا کر یہ تاثر دیا کہ خسارہ کہیں اور منتقل کر کے مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اربوں کا خسارہ صرف کاغذوں پر نئی کمپنیاں بنا لینے سے مٹ سکتا ہے؟ قرض وہی ہے، سود وہی ہے بلکہ سود پر سود بڑھ رہا ہے۔ حقیقت بدلی نہیں، یہ صرف اعداد و شمار کی جادوگری ہے جس کا بوجھ آخرکار عوام ہی کے کندھوں پر آتا ہے۔اسی دوران ایک اور ادارے کی مثال سامنے آتی ہے۔ پریسیشن انجینئرنگ کمپلیکس (PEC) جو برسوں تک قومی اثاثہ رہا، اسے بھی طاقتور حلقوں کو ’’شفاف طریقے‘‘ کے نام پر بیچنے کا عمل شروع ہوا۔ اصل شفافیت یہ تھی کہ ملازمین کو اعتماد میں لیے بغیر اور قومی اثاثے کی اصل مالیت ظاہر کیے بغیر، ایک ایسے ڈھانچے میں بدل دیا گیا جس میں طاقتور لوگ فائدے میں اور ادارہ و اس کے ملازمین نقصان میں چلے گئے۔ اربوں روپے مالیت کا یہ ادارہ ’’ریفارمز‘‘ اور ’’نجکاری‘‘ کے نام پر منتقل کر دیا گیا۔ یہ بھی وہی پرانی کہانی تھی کہ اصل ملکیت عوام کی تھی مگر اس پر قبضہ خاص حلقوں کا ہو گیا۔یہ سب ہمیں ایک تلخ حقیقت بتاتا ہے۔ دنیا میں اگر موازنہ کرنا ہو تو امریکی صدر جو بائیڈن کی مثال سامنے آتی ہے۔ اپنے بیٹے کے علاج کے لیے وہ اپنا واحد گھر بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کے پاس کوئی آف شور کمپنی، بیرون ملک محلات یا اربوں کے اثاثے نہ تھے۔ بائیڈن نے کہا تھا:’’No taxpayer’s money should ever be wasted‘‘ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ حکمران اپنی جاگیر سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔ قومی ایئرلائن اور پریسیشن انجینئرنگ کی کہانی اصل می پورے ملک کی تصویر ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
چیف آف ڈیفنس فورسز کا ایک نیا ادارہ بننے جا رہا ہے وہ بہت اہم ادارہ ہوگا، رانا ثناء اللّٰہ
فوٹو: سوشل میڈیا۔قومی اسمبلیوزیراعظم کے مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کا ایک نیا ادارہ بننے جا رہا ہے وہ بہت اہم ادارہ ہوگا، ان ہی معاملات کو پوری طرح سے دیکھتے ہوئے نوٹیفکیشن عجلت میں نہیں ہونا چاہیے نہ عجلت میں ہوگا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء نے کہا کہ وزیراعظم کی واپسی کے بعد جتنا بھی ٹائم اس کیلئے ضروری ہے، اس کے مطابق نوٹیفکیشن ہوگا، آئین کے بعد لاء اور لاء کے بعد پھر رولز فریم ہوتے ہیں، یہ ساری چیزیں احتیاط سے کی جانے والی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن پر مزید کسی طرح کی قیاس آرائیوں کی گنجائش نہیں۔
رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ کسی بھی چیز کے زیر غور ہونے میں اور فیصلہ ہونے میں فرق ہوتا ہے، مختلف آپشن مختلف اوقات میں زیرغور ہوتے ہیں، جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو ان پر آپ کوئی حتمی بات نہیں کر سکتے، جو آئینی ترمیم ہوئی ہے، اس کے مطابق جس دن نوٹیفکیشن ہوگا اس دن سے اس مدت کا تعین ہوگا، نوٹیفکیشن کے بعد اس کی مدت 5 سال ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف سی ڈی ایف کے نوٹیفکیشن میں رکاوٹ نہیں، یہ تاثر غلط ہے، نواز شریف نے کبھی سی ڈی ایف کے بارے میں اس قسم کے خیال کا اظہار نہیں کیا، نواز شریف کی گفتگو کو خوامخواہ اس معاملے سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کی گفتگو کسی اور حوالے سے ہوئی تھی، نواز شریف نے اس دن جو بات کی اس کا پس منظر کچھ اور تھا۔
مشیر وزیر اعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کا وفد اسپیکر کے پاس آیا تھا، میں بھی وہاں موجود تھا، ہم نے انہیں کہا تھا وزیراعظم کو آنے دیں پھر ہم یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھیں گے، پی ٹی آئی کا وفد ہمارے پاس سے گیا ہی تھا کہ وزیراعلیٰ کی دھمکی آگئی، ان کاموں کیلئے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو وہ کرتے آئے ہیں یا کر رہے ہیں۔