26ویں ترمیم کیس: کان‘ آنکھ بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے‘ جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ سب وکلا فل کورٹ مانگ رہے ہیں مگر طریقہ کارکوئی نہیں بتارہا جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے ہم کان اور آنکھیں بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے وکیل خواجہ احمد احسن نے دلائل میں استدعا کی کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے والا 16 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگربینچ کیس سن نہیں سکتا توآرڈرکیسے دے سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191 اے میں کوئی قدغن نہیں ہے، یہ پروسیجرل آرٹیکلزہیں یہ آرٹیکل بینچز پر تو قدغن لگاتے ہیں، لیکن عدالت عظمیٰ پر نہیں، ہم ان آرٹیکلزکوایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ آرٹیکل مکمل طورپرقدغن لگاتے ہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ آپ اپنی درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ وکلا فل کورٹ سب مانگ رہے ہیں مگرطریقہ کارکوئی نہیں بتا رہا، بینچ میں مزیدججزشامل کرنے کا اختیارسپریم جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے، ہم ججزشامل نہیں کرسکتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے تاثر دیا جا رہا ہے ہم الگ ججز اور دوسرے والے الگ ججز ہیں، تمام ججز کو تسلیم کرنا پڑے گا، عدالت عظمیٰ کے ججز کا کام آئین کا تحفظ کرنا، آئین کا دفاع کرنا اور آئین کی تشریح کرنا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رہے ہیں
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: آپ فُل کورٹ کی بات نہ کریں، سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ سپریم کورٹ اور بینچ الگ الگ ہیں، تو قانون میں تو سپریم کورٹ کا اختیار لیا گیا ہے، بینچ کا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو آپ نے اچھی بات کی، بینچ کے اختیارات میں اضافہ کروا دیا۔
درخواست گزار کے وکیل شبر رضوی نے مؤقف اپنایا کہ نئے بینچ کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے اختیارات نہیں چھینے گئے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم ہوچکی ہے، اس کے مطابق آئینی بینچ بن چکا ہے۔ آپ چاہ رہے ہیں کہ پہلے ہم 26ویں آئینی ترمیم کو معطل کریں؟
انہوں نے مزید استفسار کیا کہ 191 اے کو کیسے بائی پاس کریں گے؟ وکیل شبر رضا رضوی نے جواب دیا کہ 191 اے کو آئین کی دیگر شقوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، اسے اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیے: گلگت بلتستان میں مقامی طور پر استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکسز عائد نہ کیے جائیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس
وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 191 اے کے نفاذ کے باوجود سپریم کورٹ کا 184(3) کا اختیار ختم نہیں ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا، آپ کہہ رہے ہیں کہ 184(3) آرٹیکل 191 اے سے مستثنیٰ ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت 184(3) کا اختیار آئینی بینچ کو منتقل ہوچکا ہے، اور اس بات کا واضح ذکر آئین میں موجود ہے کہ 184(3) کے اختیارات آئینی بینچ کو دیے گئے ہیں۔
وکیل شبر رضا رضوی نے کہا کہ میں نے اپنی استدعا پیش کردی ہے، اب میں دلائل کے اگلے حصے کی طرف بڑھنا چاہوں گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ عدالت 26 ترمیم