بھارت میں معمول کی فوجی مشقوں کے دوران ایک اور بڑا حادثہ پیش آگیا ہے، جس نے بھارتی فوج کی تربیتی صلاحیت اور حفاظتی اقدامات پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست راجستھان میں فوجی مشق کے دوران ایک بکتر بند ٹینک اندرا گاندھی نہر میں ڈوب گیا۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ٹینک نہر پار کرنے کی مشق کر رہا تھا۔ واقعے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک جبکہ دو شدید زخمی ہوگئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جون 2024 میں لداخ میں اسی نوعیت کی مشق کے دوران ٹینک دریا میں بہہ گیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ فوجی اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔

اس سے قبل اکتوبر 2022 میں بھی فائرنگ کی مشق کے دوران ٹینک کی بیرل پھٹنے سے دو اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔

ماہرین کے مطابق بار بار پیش آنے والے یہ حادثات بھارتی فوج میں معیار، تربیت اور حفاظتی انتظامات کے سنگین مسائل کو ظاہر کرتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایک ٹینک معمولی نہر عبور نہ کر سکے تو حقیقی جنگی حالات میں اس کی کارکردگی پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں نے بھارتی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور تربیتی طریقہ کار پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے دوران

پڑھیں:

ایران میں پانی کا سنگین بحران

ایران کے دارالحکومت، تہران کی ایک مسجد میں اس ماہ کے شروع میں عبادت گزاروں کی قطاریں نظر آئیں۔ کچھ لوگ آسمان کی طرف منہ اٹھائے ہوئے تھے، جبکہ دوسرے سر جھکائے ہوئے دعا کر رہے تھے کہ بارش ہو جائے۔ ان کی دعائیں ایک بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت ہے۔

شہر ایک ایسے پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے جو اتنا شدید ہے کہ ایرانی صدر نے یہ تجویز کر دیا:شہر سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑ سکتی ہے۔ ہفتے گزرتے جا رہے ہیں، مگر بارش نہیں آ رہی۔خوف یہ ہے کہ اس وسیع اور پُر ہجوم شہر میں پانی بالکل ختم ہو جائے گا جس کے میٹروپولیٹن ایریا میں تقریباً ڈیرھ کروڑ لوگ بستے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں ایک تقریر میں صدر مسعود پزشکیاں نے کہا کہ اگر دسمبر تک تہران میں بارش نہیں ہوئی تو پانی کی تقسیم کی جائے گی۔’’ اگر بارش کی کمی جاری رہی تو رہائشیوں کو نقل مکانی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ نقل مکانی ممکن نہیں لیکن پزشکیاں کی تقریر ایران میں پانی کی نایابی کی سنگین حالت ظاہر کرتی ہے۔

تہران تو خبروں میں ہے، لیکن یہ بحران دارالحکومت سے کہیں آگے تک پھیل چکا ہے۔ ایران کے تقریباً 20 صوبوں میں ستمبر کے آخر میں بارشوں کے موسم کے آغاز سے اب تک ایک بوند بارش نہیں ہوئی، جیسا کہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈیوس کے پلانٹ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محسن بی مسگران بتاتے ہیں۔ رائٹرز کے مطابق ملک کے تقریباً 10 فیصد ڈیم اب مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں۔

ایران میں پانی کے مسائل کی جڑیں دنیا کے کئی دیگر حصوں میں موجود مسائل سے ملتی جلتی ہیں: دہائیوں تک پانی کی زیادہ مقدار نکالنا، پرانا اور لیک ہوتا انفراسٹرکچر، دریاوں پر بنائے گئے ڈیمز کی بہتات، بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات۔ ان سب میں موسمیاتی تبدیلی کا ٹانکہ بھی شامل ہے جو زیادہ گرم اور خشک موسم پیدا کر رہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ سال بہ سال خشک ہو جانے والے آبی ذخائر دوبارہ بھر نہیں پاتے۔

ایران کی موجودہ خشک سالی کم از کم پچھلے 40 سال میں سب سے بدترین ہے اور پانی کی سطحیں ایسے وقت سکڑ رہی ہیں جب عام طور پر آپ کو آبی ذخائر کی حالت بہتر ہوتی نظر آتی ہے، نہ کہ مزید گرتی ہوئی جیسا کہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، میں ماحولیاتی انجینئرنگ کے پروفیسر امیر آغا کوچک کہتے ہیں۔

ایران جو ایک زیادہ تر نیم خشک ملک ہے، پانی کی کمی سے نا آشنا نہیں ہے۔مگر اس کمی نے کبھی تہران کو اتنی زیادہ شدت سے متاثر نہیں کیا جو ملک کے زیادہ تر امیر اور طاقتور لوگوں کا گھر ہے۔شہر کو پانی فراہم کرنے والے مرکزی ذخائر صرف تقریباً 11 فیصد بھرے ہوئے ہیں، جیسا کہ تہران کے صوبائی واٹر اینڈ سیانٹیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محسن اردکانی نے اس ماہ کے شروع میں ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی مہر نیوز سے باتیں کرتے بتایا تھا۔

لاتیان ڈیم جو شہر سے تقریباً 15 میل دور ہے، صرف تقریباً 9 فیصد بھر چکا ہے۔ مئی سے یہ ذخیرہ، جو البرز پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، اتنا کم ہو چکا کہ اس نے ایک تقریباً خشک دریا کے بستر کو چھوڑ دیا ہے جس میں صرف چند بہتی ہوئی نالیاں ہیں۔

امیر کبیر ڈیم جو تہران سے تقریباً 40 میل شمال مغرب میں واقع ہے،وہ بھی انتہائی کم سطح پر ہے اور اس کی صلاحیت کا تقریباً 8 فیصد قابل استعمال ہے، جیسا کہ رائٹرز نے رپورٹ کیا۔

تہران سے باہر ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد کی صورت حال خراب ہے۔ تقریباً 30 لاکھ لوگوں کے گھر ،مشہد کو پانی فراہم کرنے والے آبی ذخائر بھی تقریباً 3 فیصد بھرے ہوئے ہیں، جیسا کہ مشہد کی واٹر اینڈ ویسٹ واٹر یوٹیلیٹی کمپنی کے سربراہ حسین اسماعیلین نے ایس این اے نیوز سے کہا۔

ایران کی صورتحال کوئی عارضی آفت نہیںہے، بلکہ ایک مسلسل طویل المدتی تباہی ہے جو ناقابل واپسی نقصان کا سبب بن رہی ہے۔یہ بات کاوہ مدنی کہتے ہیں جو اقوام متحدہ کی یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ فار واٹر، اینوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر ہیں اور ماضی میں ایران کے محکمہ ماحولیات کے نائب سربراہ رہ چکے ۔

انہوں نے ملک کو ’’پانی کی دیوالیہ پن‘‘ حالت میں قرار دیا، جو اپنے دریاوں، جھیلوں اور دلدلی علاقوں (جیسے چیکنگ اکاؤنٹ) سے پانی نکال رہا ہے اور اپنے زیر زمین آبی ذخائر سے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پانی نکال رہا ہے جتنا وہ دوبارہ بھر سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی غذاؤں میں خود کفالت حاصل کرنے کی پالیسی، جو جزوی طور پر مغربی پابندیوں کے جواب میں ہے، اس صورت حال کی بڑی وجہ ہے۔ ’’دہائیوں تک پھیلی سرکاری پالیسیوں نے خشک علاقوں میں آبپاشی والے زرعی رقبے کے پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘‘ آغا کوچک بتاتے ہیں۔

1979 ء کے بعد سے آبپاشی والی زمینوں میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے اور فصلیں پانی کی پیاسی ہیں، خاص طور پر چاول کی فصل جو ایرانیوں کا روایتی غذائی اناج ہے۔ ایران کے زیادہ تر پانی کا تقریباً 90 فیصد حصہ زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

شمال مغربی ایران میں واقع جھیل ارومیہ ایک واضح متاثرہ مثال ہے۔ یہ کبھی دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیلوں میں سے ایک تھی، لیکن گزشتہ دہائیوں میں اس کا حجم کافی کم ہو گیا ہے۔ خشک سالی نے اس میں حصہ ڈالا ہے لیکن سب سے بڑی وجہ وہ ڈیم اور کنوئیں ہیں جو یہاں کے کسانوں کو سہولت دینے کے لیے بنائے گئے تھے اور جنہوں نے جھیل تک پانی کی رسائی کو روک دیا ہے۔ ’’انہوں نے قدرتی آبی نظام کو اس کی حدود سے آگے دھکیل دیا ہے،" مسگران کا کہنا ہے۔

پانی کا زیادہ استعمال کرنے والی صنعتیں جیسے تیل اور گیس بھی ایران کے خشک اور نیم خشک علاقوں میں قائم کی گئی ہیں۔اس عمل نے پہلے ہی ان علاقوں میں مزید دباؤ بڑھا دیا ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں۔

شہری آبادیوں کے بڑھتے ہوئے حجم نے بھی پانی کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔ اس صورتحال کو پرانے انفراسٹرکچر نے مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ’’تخمینے کے مطابق30 فیصد تک صاف پیا جانے والا پانی پرانے لیک شدہ ڈسٹری بیوشن سسٹمز کے ذریعے ضائع ہو جاتا ہے اور پانی کے ری سائیکلنگ کی شرح بہت کم ہے۔‘‘ مسگران بتاتے ہیں۔

ان تمام مسائل کے اوپر موسمیاتی بحران بھی ہے۔ ’’گھر کی حالت پہلے ہی بدانتظامی کی وجہ سے جلی ہوئی تھی اور اب موسمیاتی تبدیلی اس میں تیل ڈال رہی ہے۔‘‘ مدنی کہتے ہیں۔ایران اس وقت چھٹے سالانہ خشک سالی کے دور سے گزر رہا ہے، جو اب اپنی شدت، پیمانے اور دورانیے کے لحاظ سے ’’موجودہ دور میں بے مثال ہے۔‘‘ مدنی نے کہا۔

اس کے پیچھے موجود وجوہ… کم بارش اور بلند درجہ حرارت انسانوں کی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر جنم لینا ممکن نہیں تھیں جیسا کہ ورلڈ ویدر اٹریبیوشن نیٹ ورک کے ایک حالیہ تجزیے میں بتایا گیا ہے۔

تہران میں لوگوں کے لیے بارش کا ہونا ایک بے چین انتظار ہے۔ امید تھی کہ خزاں میں بارشیں آئیں گی لیکن چند الگ تھلگ بارشوں کے سوا وہ ابھی تک اپنے پورے زور سے نہیں آئیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک رسمی طور پر پانی کی تقسیم نہیں کی گئی ہے لیکن رہائشیوں نے پانی کی دباؤ میں کمی کی شکایت کی ہے۔ بعض اوقات نلکے بھی کچھ وقت کے لیے خشک ہو جاتے ہیں۔

مدنی کے مطابق حکومت کی عوام سے بات چیت متضاد اور غیر منظم رہی ہے۔ جس کے باعث عوام میں شدید عدم اعتماد اور سازشی نظریات کا پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ان میں یہ نظریہ بھی شامل ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ایران کے موسم میں تبدیلی پیدا کر رہی ہیں اور بادل چوری کر رہی ہیں۔

ایرانی صدر کے بیانات کے باوجود نقل مکانی کا خیال ابھی ایک بعید امکان ہے۔ ’’لوگ کہاں جائیں گے؟‘‘ مسگران یہ اہم سوال کرتے ہیں۔ ’’ملک ایک بدترین اقتصادی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، اور زیادہ تر گھرانے ایسی نقل مکانی کا متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

زیادہ سے زیادہ عارضی نقل مکانی ممکن ہو سکتی ہے۔ گرمیوں میں حکام نے عوام کو شہر چھوڑنے کی ترغیب دینے کے لیے ایمرجنسی پبلک تعطیلات کا اعلان کیا تھا۔ ’’اگر آپ کے پاس صرف چند دن یا ہفتے کا پانی بچا ہو، تو صرف چند گھنٹے کے لیے بچا کر بھی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔‘‘ مدنی کہتے ہیں۔

حکومت نے بادلوں میں مائع پھیلانے (کلاوڈ سیڈنگ) کی کوشش بھی کی ہے، جس میں بادلوں میں کیمیائی ذرات ڈالتے ہیں تاکہ بارش ہو سکے یا ان سے برف پیدا کی جا سکے۔ تاہم اس کے اثرات پر سائنسی اتفاق رائے کم ہے۔ ’’یہ مایوس حکومتوں کے لیے ایک اچھا حل ہو سکتا ہے تاکہ وہ یہ دکھا سکیں ، وہ کچھ کر رہی ہیں،" مدنی کا کہنا ہے۔

طویل المدتی بحران سے نمٹنے کے لیے وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے جن میں پانی کی زیادہ ضرورت والے شعبوں جیسے کہ زراعت سے معیشت کو متنوع بنانا شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے، تاہم یہ تبدیلیاں انتہائی غیر مقبول ہو سکتی ہیں اور اس سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

فی الحال ایرانی حکام اپنی امیدیں بارش کے آنے پر مرکوز کر رہے ہیں اور اسی کے لیے دعا بھی کر رہے ہیں۔ ’’ماضی میں لوگ بارش کے لیے دعا کرنے کے لیے صحرا جاتے تھے۔‘‘ تہران کی سٹی کونسل کے سربراہ مہدی چمران نے ایک رپورٹ کے مطابق کہا جس میں سرکاری میڈیا کا حوالہ دیا گیا۔ ’’شاید ہمیں اس روایت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

تاہم صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ اگر بارشیں آ بھی جائیں، تب بھی یہ کافی نہیں ہوں گی۔ ’’قدرت اب سخت حدود عائد کر رہی ہے۔‘‘ آغا کوچک کہتے ہیں۔ وہ آبی ذخائر جو پہلے ہی خشک ہو چکے ہیں، وہ دوبارہ نہیں بھر پائیں گے اور جو ماحولیاتی نظام تباہ ہو چکے ہیں، انہیں تیزی سے بحال کرنا ممکن نہیں ہے۔

حکومت جتنی دیر تک مؤثر اصلاحات کرنے سے گریز کرتی ہے، اتنے ہی کم اختیارات باقی رہ جاتے ہیں، انہوں نے مزید کہا۔ ’’پانی کا بحران صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے؛ یہ ایران کے سماجی اور سیاسی مستقبل سے بھی جڑا ہوا ہے۔‘‘

اس دوران ماہ دسمبر شروع ہوتے ہی ایرانی حکام نے ملک کے سب سے بڑے ڈیموں میں سے ایک پر بجلی کی پیداوار کو روک دیا کیونکہ ذخیرہ شدہ پانی کی سطح میں واضح کمی آئی تھی۔ سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا۔

’’کارخہ ڈیم کے ذخیرے میں کمی کی وجہ سے اس کے پاور پلانٹ کی یونٹس کو پیداوار کے دائرے سے نکال دیا گیاہے۔‘‘ کارخہ ڈیم اور اس کے پاور پلانٹ کے سربراہ امیر محمودی نے بتایا جیسا کہ سرکاری نیوز ایجنسی، IRNA نے رپورٹ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پانی کو ڈیم کے نچلے والو سے نکال دیا گیا تاکہ نچلے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی آبی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت ڈیم کے پیچھے ذخیرہ شدہ پانی کا حجم تقریباً ایک ارب مکعب میٹر ہے اور "اس وقت پانی کی سطح 180 میٹر ہے جو کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے قدرتی آپریٹنگ سطح سے 40 میٹر کم ہے۔"

کارخہ ڈیم دنیا کے سب سے بڑے مٹی کے ڈیموں میں سے ایک ہے ۔یہ ایران اور مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔یہ ڈیم کارخہ دریا پر بنایا گیا ہے اور یہ خوزستان کے جنوب مغربی صوبے کے شہر اندیمشک سے 22 کلومیٹر (14 میل) شمال مغرب میں واقع ہے۔

یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب ملک گزشتہ چھ دہائیوں میں سے ایک سب سے شدید خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔ایرانی میڈیا نے گزشتہ ہفتوں میں رپورٹ کیا کہ اس سال بارشوں کی سطح طویل مدتی اوسط کے مقابلے میں تقریباً 90 فیصد کم ہوئی ہیں۔

 حالات اتنے سنگین کیسے ہو گئے؟

تہران میں پانی کا استعمال بہت زیادہ ہے، یہاں تک کہ دیگر شہروں کی نسبت بھی۔ مگر ایران کے پانی کے مسائل اس ریکارڈ توڑ خشک سالی سے کہیں گہرے ہیں۔

ملک منفرد طور پر الگ تھلگ ہے اور متعدد پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔یہ قومی معیشت کو برباد کر رہی ہیں اور ایران کے لیے جدید پانی کی ٹیکنالوجیز حاصل کرنا بہت مشکل بنا دیتی ہیں۔ یہ اپنے بہت سے ہمسایہ ممالک اور پانی کی صفا ئی کی ٹیکنالوجی میں ماہر علاقائی رہنماؤں جیسے اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ قربت نہیں رکھتا۔اسرائیل کا تو کٹر دشمن ہے۔ تاہم ایران کے سیاق و سباق میں نمکین پانی کو صاف کرنے کی ٹیکنالوجی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ یہ عموماً ماحولیاتی لحاظ سے بہت مہنگی پڑتی ہے۔

پانی کے مسائل کے جرمن تجزیہ کار، نِک کووسر کے مطابق ایرانی ایک ’’پانی مافیا‘‘ کے زیر اثر ہیں … ایک خفیہ اور اچھی طرح جڑا ہوا نیٹ ورک جو پانی کے میگا پروجیکٹس کو اپنے مالی فائدے کے لیے چلا رہا ہے۔ ’’ایران پانی کی دیوالیہ پن کا سامنا کر رہا ہے، جہاں طلب فراہمی سے بہت زیادہ ہے۔‘‘کووسر نے ٹائم میگزین میں لکھا۔ ’’ایران میں پانی کی سلامتی کا سقوط دہائیوں سے ہو رہا ہے اور یہ ملک میگا پروجیکٹس … بند بنانے، گہرے کنوئیں اور پانی کی منتقلی کے منصوبوں کے جنون میں مبتلا ہے جو ہائیڈرو لوجی اور ماحولیاتی توازن کی بنیادی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔‘‘

ایران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے خاص طور پر حساس ہے: ملک کا 82 فیصد حصہ خشک یا نیم خشک ہے اور ایران قدرتی آفات کا شکار ہونے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ایران خشک فصلیں اگاتا ہے اور اس کی خوراک کی خود کفالت اور تحفظ کی تلاش پانی کے دیوالیہ پن کا ایک اہم سبب ہے۔

لیکن ایران کا ماحولیاتی بحران ملک کے اندر اور باہر کے جغرافیائی سیاسی تنازعات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پانی کبھی کبھار ایک علاقے سے دوسرے علاقے کو منتقل کیا جاتا ہے تاکہ وہاں اس کی فراہمی کی جا سکے۔اس سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کچھ نسلی گروہ جان بوجھ کر دوسرے گروہوں کی خاطر پانی سے محروم کیے جا رہے ہیں۔

ییل یونیورسٹی کے مورخ اور ایران کے ماہر ارش آذیزی دی اٹلانٹک کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پر جاری پابندیوں کی انسانیت سوز قیمت کے باوجود یہ بہت کم امکان ہے کہ پانی کے بحران کے جواب میں ان پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔

شہری زندگی کا مستقبل

تہران دنیا کے بہت سے دوسرے شہروں کی طرح ‘‘ڈے زیرو‘‘ کے قریب پہنچ چکا ہے اور یہ آخری نہیں ہوگا۔ برازیل کے شہر سان پاؤلو اور جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاؤن میں بھی ایسے ہی بحران آئے تھے جو بارش کے باعث ختم ہوئے۔ تاہم تہران شاید موسم کی پیش گوئی کے لحاظ سے اتنا خوش قسمت نہ ہو۔تو، آئیے تہران کو خالی کرنے کے خیال پر بات کرتے ہیں۔

یہ، یقیناً بے حد ناپسندیدہ خیال ہے۔ ایرانی صدر نے جب اس امکان کا ذکر کیا تو ایرانیوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی۔ تہران کے سابقہ میئر غلام حسین کرباسچی نے کہا ’’یہ ایک مذاق ہے… تہران کو خالی کرنا بالکل بے معنی ہے۔‘‘

آذیزی کے خیال میں یہ بہت کم ممکن ہے کہ ایران اپنے دارالحکومت کو جلد ہی منتقل کرے گا۔ زیادہ تر ملازمتیں تہران میں ہیں اور ایک شہر جس کی اپنی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہو، اسے خالی کرنا ایک ناقابل یقین لاجسٹک چیلنج ہوگا۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دوبارہ آبادکاری پانی تک رسائی کے فوری مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لیکن اس وقت کی حکمت عملی … پانی کی سپلائیز کا ٹرک کے ذریعے پہنچانا، پانی کی کمیابی دور کرنے کے لیے بارش کی دعا کرنا اور پانی کی راشن بندی کرنا… اس لمحے کا مقابلہ کرنے کے لیے نہایت ناکافی ہے۔

’’حقیقت میں گھریلو یا مخصوص محلوں کو پانی کی سپلائی بند کر دینا پانی کی کھپت عملاً کم کر دیتا ہے،" ڈیوڈ مائیکل کہتے ہیں جو سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پانی کی سلامتی کے سینئر فیلو ہیں۔’’لیکن بنیادی طور پر پانی کی طلب اب بھی موجود ہے۔"

تاہم تہران جیسے شہروں کے لیے کچھ اور حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ مائیکل کہتے ہیں کہ شہروں کو ایسے کاروباری ماڈلز کو ترجیح دینی ہوگی جو پانی کے نظام کو چلانے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور نئے صارفین کی خدمت کرنے کے لیے درکار وسائل اور آمدنی فراہم کریں۔

"یہ چیلنج دنیا کے بہت سے شہری پانی کے نظاموں کو ایک بہت مشکل دائرے میں لے آیا ہے جہاں بہت سے پانی کے بلدیاتی نظاموں کی آمدنی آپریشنز اور دیکھ بھال کے اخراجات کو بھی پورا نہیں کرتی، پھر پانی کی فراہمی میں توسیع کی بات ہی الگ ہے۔‘‘ مائیکل کا کہنا ہے۔ اقتصادی ترغیبات جیسے کہ حجم کی بنیاد پر ٹیرف جہاں پانی کا خرچ اس کی مقدار کے تناسب سے ہوتا ہے، فائدے مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ پانی آپ استعمال کریں گے، اتنا ہی زیادہ قیمت ادا کرنی ہوگی، بنیادی طور پر اس امید کے ساتھ کہ اس سے پانی استعمال کرتے غریب ترین صارفین پر دباؤ کم ہو گا۔

تہران کو جلد از جلد راحت کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں بھی کیلیفورنیا اور جنوب مغربی امریکہ کے شہروں کو جہاں کا موسم خشک ہے اور پانی کی فراہمی کم ہو رہی ہے،ایرانی صورت حال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اور ہر کسی کو توجہ دینی چاہیے جب ایران کے صدر کہتے ہیں کہ ان کے دارالحکومت کے رہائشیوں کو چند مہینوں میں نقل مکانی کرنی پڑ سکتی ہے۔’’آپ اس کا نفسیاتی اثر تصّور کر سکتے ہیں۔ آذیزی کہتے ہیں ’’اور یہ دنیا کے ہر کونے کا مستقبل ہو سکتا ہے۔‘‘

ایران کے دارالحکومت میں راشننگ شروع ہو چکی اور تقریباً ایک کروڑ آبادی میں سے کچھ لوگ آدھی رات سے صبح پانچ بجے تک’’رات کے وقت پانی کے پریشر میں کمی‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ پورا ملک ایک بے مثال خشک سالی سے گزر رہا ہے اور گزشتہ تقریباً 60 برسوں کی سب سے خشک اور گرم خزاں کا سامنا کر رہا ہے۔

تہران پانی کی فراہمی کے لیے پانچ بڑے ذخائر پر انحصار کرتا ہے۔ ان میں سے ایک مکمل طور پر خشک ہو چکا جبکہ دوسرا اپنی گنجائش کے 8 فیصد سے بھی کم پر آ گیا ہے۔ تہران ریجنل واٹر اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے گزشتہ ہفتے سرکاری میڈیا کو بتایا تھا کہ کرج ڈیم میں صرف دو ہفتوں کا پینے کا پانی باقی رہ گیا ہے۔

لیکن اگر صورتحال نہ بدلی تو تہران جلد ہی "ڈے زیرو" کا سامنا کر سکتا ہے … یعنی وہ وقت جب کوئی شہر اپنے رہائشیوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے قابل نہیں رہتا اور نلکے خشک ہو جاتے ہیں۔ اکتوبر میں صدر مسعود پزشکیان نے دعویٰ کیا تھا کہ پانی کے بحران کی وجہ سے تہران اب ملک کا دارالحکومت نہیں رہ سکتا۔

اگرچہ یہ امکان کم ہے کہ شہر کو جلد خالی کرایا جائے، لیکن تہران میں پانی بحران سب کے لیے یکساں نہیں۔ جب نلکے خشک ہو جاتے ہیں تو امیر لوگ منرل واٹر خرید لیتے ہیں یا پانی کے ٹینکر استعمال کرتے ہیں جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مہنگا آپشن ہے۔ باقی لوگوں کو خیرات پر انحصار کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ پیاس سے مر جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار بے نقاب، انڈیگو ایئرلائن بحران نے بھارتی فضائی نظام ہلا کر رکھ دیا
  • ایران میں پانی کا سنگین بحران
  • قلات میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن: 12 دہشت گرد ہلاک، اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد
  • بھارتی دہشت گردی کے اقدامات تشدد کا باعث بنتے ہیں، اعجاز قادری
  • افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
  • اسرائیلی حملے جاری، مغربی کنارے میں فلسطینی شہید
  • ایران: پاسداران انقلاب کی خلیج میں مشقوں کے دوران امریکی جہاز کو وارننگ
  • امن معاہدہ کے باوجود صیہونی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری،غزہ میں مزید 7فلسطینی شہید
  • پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر