’اپنے 7 سالہ بیٹے سے مجھے گالیاں دلوائیں‘، ڈکی بھائی نے تفتیشی افسر سرفراز چوہدری سے متعلق مزید کیا بتایا؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
معروف یوٹیوبر سعد الرحمن المعروف ڈکی بھائی جو غیرقانونی جوا ایپس کے فروغ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار تھے گذشتہ دنوں ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں۔ رہائی کے بعد اپنی تازہ یوٹیوب ویڈیو میں انہوں نے قومی سائبر کرائم ادارے این سی سی آئی کے بعض اہلکاروں پر تشدد، ہراسانی، بلیک میلنگ اور بھاری رقوم کے مطالبات جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
ڈکی بھائی کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران انہیں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئیں اور مبینہ طور پر ان کے کرپٹو اکاؤنٹس سے تقریباً 9 کروڑ روپے ایک اہلکار کے ذاتی والٹ میں منتقل کروائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: رہائی کے بعد یوٹیوبر ڈکی بھائی کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خصوصی شکریہ، وجہ کیا بنی؟
انہوں نے اپنے تفتیشی افسر ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری جو اس کیس میں زیرِ حراست ہیں پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات بھی لگائے۔ ڈکی بھائی نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ ڈائریکٹر نے ان کی اہلیہ پر مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے 60 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، جو ان کے اہل خانہ نے ادھار لے کر ادا کیے لیکن بعد ازاں مزید ڈیڑھ کروڑ روپے کا تقاضا کیا گیا بصورتِ دیگر ان کے خلاف مزید مقدمات درج کرنے کی دھمکی دی گئی۔
ڈکی بھائی نے بتایا کہ تفتیش کے دوران انہیں ہتھکڑی لگا کر ایڈیشنل ڈائریکٹر کے کمرے میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس ایپلی کیشن کے کنٹری ہیڈ ہو؟ میں نے کہا میں کسی ایپ کا کنٹری ہیڈ نہیں ہوں۔ انہوں نے مجھے گالی دیتے ہوئے پوچھا کہ تمہارے پاس پیسہ کدھر سے آتا ہے۔ میں نے کہا میں یوٹیوبر ہوں اس پر وہ کہتے ہیں تم وطن عزیز کے بچوں کو خراب کر رہے ہو اور اس کے بعد اس نے مسلسل مجھے ماں بہن کی گالیاں دیں اور مجھے اس وقت تک مجھے تھپڑ مارتا رہا جب تک اس کا دل بھر نہیں گیا۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوبر ڈکی بھائی نے خاموشی توڑ دی، قوم کے نام پیغام میں کیا کہا؟
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ایک 7 سالہ بچے کو ویڈیو کال کی گئی اور اس سے پوچھا گیا کیا تم اس کو جانتے ہو جس پر اس نے بتایا کہ وہ جانتا ہے اس کے بعد بچے سے مجھے گالیاں بھی نکلوائی گئیں۔
ڈکی بھائی کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جبکہ صارفین مبینہ تشدد اور کرپشن میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
خالد حسین تاج نے لکھا کہ این سی سی آئی اور اس کے کرپٹ افسران، جن کی سرفراز چوہدری جیسا کرپٹ ترین شخص کر رہا ہے ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ ان کو دیکھ کر دیگر سرکاری افسران بھی عبرت پکڑیں۔ انہوں نے محسن نقوی سے کہا کہ یہ ادارہ آپ کے ماتحت ہے امید ہے کہ آپ ڈکی بھائی کو انصاف دلائیں گے۔
یہ ٹویٹ زیادہ سے زیادہ ری ٹویٹ کریں تاکہ اربابِ اختیار تک بات پہنچ سکے۔
ڈکی بھائی کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کی یہ ویڈیو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ این سی سی آئی اور اس کے کرپٹ افسران، جن کی سرفراز چوہدری جیسا کرپٹ ترین شخص کر رہا ہے ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔… pic.
— Khalid Hussain Taj (@KhalidHusainTaj) December 7, 2025
معروف اینکر پرسن شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ کیا این سی سی آئی اے کےسابق افسر سرفراز چودھری جیسےلوگوں کا یہ کام ہےکہ وہ یوٹیوبرز کی مورل پولیسنگ کریں، اخلاقیات کا درس دیں اور خود رشوت لیں، اختیارات کاناجائز استعمال کریں؟
یوٹیوبر ڈکی بھائی کے دوران حراست تشدد اور غیرانسانی سلوک کے انکشافات۔ کیاNCCIAکےسابق افسر سرفراز چودھری جیسےلوگوں کا یہ کام ہےکہ وہ یوٹیوبرز کی مورل پولیسنگ کریں، اخلاقیات کا درس دیں اور خود ارشوت لیں،اختیارات کاناجائز استعمال کریں؟
pic.twitter.com/Tk4XTasj1L
— Shahzad Iqbal (@ShahzadIqbalGEO) December 7, 2025
سلمان حیدر نے کہا کہ آج واقعی لگ رہا ہے اس انسان کو کتنی اذیت دی گئی ہو گی کہ یہ اتنا مجبور ہو گیا کہ اس کو ویڈیو بنانا پڑ گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر کب تک یہ افسر شاہی چلتی رہے گی اور اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا؟
آج واقعی لگ رہا ہے اس انسان کو کتنی ازیت دی گئی ہو گی کہ یہ اتنا مجبور ہو گیا کہ اس کو ویڈیو بنانا پڑ گئی
آخر کب تک یہ افسر شاہی چلتی رہے گی اور اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا ؟
pic.twitter.com/MQp2EijpnZ
— Salman haider (@salmanhaider791) December 7, 2025
ایک صارف نے سوال کیا کہ ذرا سوچیں ابھی تو ڈکی کے پاس پیسہ تھا، شہرت تھی تب اس کے ساتھ ایف آئی اے کے افسروں نے برا حال کیا،عام بندے کے ساتھ یہ لوگ کیا کرتے ہوں گے۔
ذرا سوچیں ابھی تو ڈکی کے پاس پیسہ تھا ،شہرت تھی تب اس کے ساتھ ایف آئی اے کے خبیثوں نے برا حال کیا،عام بندے کے ساتھ یہ لوگ کیا کرتے ھونگے۔
— صحرانورد (@Aadiiroy2) December 7, 2025
ثاقب بشیر نے سوال کیا کہ این سی سی آئی اے کا سرفراز چوہدری آج کل کہاں ہوتا ہے؟
تو پھر این سی سی آئی اے کا سرفراز چوہدری آج کل کہاں ہوتا ہے ؟ https://t.co/jTm7tszXes
— Saqib Bashir (@saqibbashir156) December 7, 2025
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ سرفراز چوہدری کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
سرفراز چوہدری کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے ۔ https://t.co/EJuduD8UrT
— Laleena (@laleenayyyy) December 7, 2025
واضح رہے کہ ڈکی بھائی کو 17 اگست 2025 کو لاہور ایئرپورٹ پر جوا ایپس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی درخواست ضمانت منظور کی اور وہ 26 نومبر کو رہا ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈکی بھائی ڈکی بھائی وی لاگ سرفراز چوہدری عاصم منیر یو ٹیوبر ڈکی بھائیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈکی بھائی سرفراز چوہدری یو ٹیوبر ڈکی بھائی سرفراز چوہدری ڈکی بھائی نے انہوں نے کا کہنا کے ساتھ اور اس رہا ہے کے بعد کیا کہ آئی اے
پڑھیں:
بندگی ٔ بے غرض
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251206-03-6
میں: تم نے گزشتہ نشست میں اقبال کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بندگی کی غرض جنت کے انعام اور دوزخ کے عذاب کے ڈر سے ماورا ہونی چاہیے۔ لیکن یہ یقین دہانی تو خود اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے کرائی ہے کہ جس نے ایمان لانے کے بعد دنیا میں نیک عمل کیے اسے انعام میں جنت عطا کی جائے گی اور وہ دوزخ سے بچا لیا جائے گا۔ اور مجھے اس بات پورا یقین ہے کہ میں جو بھی نیک عمل کروں گا، تو انعام میں خدا مجھے وہ سب کچھ دے گا جس کا اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔
وہ: لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمہیں یہ یقین کیوں ہے؟
میں: اس لیے کہ اللہ اس ساری کائنات کا خالق ہے، ہمارا پروردگار ہے، پالن ہار ہے، اسی نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز اس کے حکم کی تابع وپابند ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہے سزاوار کبریائی کا
وہی مالک ہے کل خدائی کا
اور دوسرے یہ کہ میں خدا اور اس کی بنائی ہوئی ہر شہ کے آگے عاجز ہوں اسی لیے اس کائنات کی تمام چیزوں کی طرح بحیثیت انسان میں بھی اس کا حکم ماننے کا پابند ہوں۔
اور سب سے اہم چیز جو مجھے ہر دم بندگی کی روش پر قائم رکھتی ہے کہ نہ مجھے اپنی زندگی پرکوئی اختیار ہے نہ موت پر۔ یعنی جب خود اپنی تخلیق میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے تو مجھے اپنے وجود پر اختیار کیسے ہوسکتا ہے؟ …
وہ: مگر اس تمام بے اختیاری کے باوجود تمہیں اس زندگی میں اپنے عمل پر پورا اختیار ہے اور اس اختیار کی جواب دہی کے بعد آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہی وہ غرض ہے جو خدا کے مقام و مرتبے اور اس دنیا میں بندے کی حیثیت کی بنیاد پر اسے نیک عمل پر آمادہ اور برائی سے باز رکھتی ہے۔
میں: لیکن وہ ابتدائی سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ کسی غرض کے بغیر بندگی کے لیے انسان کی آمادگی کیوں کر ممکن ہے؟
وہ: اصل میں بندگی مکمل سپردگی یعنی Complete Surrender اور سراپا عقیدت کا نام ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب بندے کو اس کائنات اور اس کے بنانے والے کی مقتدرت، خلاقیت، اور کاریگری کا مکمل ادراک ہوگا۔ بقول اسمٰعیل میرٹھی ؔ
ہر چیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا
اور مشکل یہ ہے کہ آج کے انسان کے پاس اس خلاقی اور کاریگری کو دیکھنے، سمجھنے، غورو فکر کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ وہ اقبال نے کہا ہے نا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسان صرف اس کائنات میں موجود اشیاء و عناصر، چرند پرند، ہوا، اشجار، دریا، پہاڑ، آسمان اور بادل اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ فقط ان کو ہی اپنے مشاہدے میں لا کر عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کرے تو شاید اس کے سامنے خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں موجود کیمیا گری اور حکمت کا کوئی راز افشا ہوجائے۔ پھر وہ اس تخلیق کے سامنے خود کو عاجز سمجھتے ہوئے بندگی کا فریضہ بجالائے؟
وہ: لیکن ذرا تم ہی بتائو تمہاری اور میری زندگیوں میں یہ مرحلہ ٔ حیرانی کتنی بار آیا ہے؟
میں: شاید ایک بار بھی نہیں بقول میرؔ
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
مگر تمہاری اس بات سے میرے ذہن میں ایک اور بات آرہی ہے، کیا اس کی وجہ وہ نظام ِفکر اور طریقۂ علم ہے جو بہت کچھ پڑھنے اور سیکھ جانے کے بعد بھی مجھے حیران نہیں کررہا ہے، میری نیندیں نہیں اڑا رہا، مجھے بے کل نہیں کررہا، میری کسی ایسے لمحہ ٔ فکر کی طرف رہنمائی نہیں کررہا جہاں سے میں اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی جستجو خود سے کرسکوں۔
وہ: تمہاری بات درست ہے کیوںکہ آج کا ہر شعبۂ علم فرد میں صرف ڈگری کے حصول کی جوت جگاتا ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا اس کی آخری منزل قرار پاتا ہے۔ یعنی آج کی درس گاہیں ایک جیسی اُن مختلف فیکٹریوں کی طرح ہیں جہاں سے انسان کی شکل میں لاتعداد مشینیں ہرسال ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بن کرنکل رہی ہیں جو سوچنے سمجھنے سے عاری، خود کو خدا کا بندہ سمجھنے اور ماننے سے انکاری اور اپنے مقصد ِ وجود کو جاننے سے قاصر ہیں۔ بقول اقبالؔ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ انسان کو اپنے علم اور شعور کے ذریعے خدا کی قدرت اور اپنی کم مائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے کسی غرض اور لالچ کے بغیر بندگی کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان غرض کا بندہ ہے اور خدا نے اسی سرشت پر اسے تخلیق کیا ہے۔ اسی لیے نفس کو مرغوب اشیا کے ذریعے اسے نیک عمل کی ترغیب دلائی اور آگ میں جلنے اور سزا کا خوف دلا کر برائی سے رکنے کا درس دیا۔ تو پھر اگر میں انعام کی لالچ اور آگ کی لپٹ سے بچنے کے لیے ربّ کی بندگی کررہا ہوں تو اس میں حر َج کیا ہے؟ جبکہ آج کے انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ کسی غرض کے لیے بھی بندگی کا روادار نہیں ہے اور تم بے غرض بندگی کی بات کررہے ہو۔
وہ: میں نے کب کہا کہ اس میں کوئی حر َج ہے یا ایسا کرنا کسی ضرر کا باعث ہے، بندگی کے انعام میں جنت میں گھر تو سراسر منافع کا سودا ہے۔ اور رہی بات آج کے انسان کی تو وہ تو خود کو خدا کا بندہ ہی ماننے سے انکاری ہے توکیا غرض اور کیا بے غرض بندگی۔ اگر غور کرو تو یہ fan following کا دور ہے۔ آج کا انسان خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی سوشل میڈیا کی دنیا میں رہ رہا ہے اور وہ اس دنیا میں کسی بھی فرد کے اچھے کاموں یا اکثر مواقع پر خرافات سے متاثر ہو کر اپنی کسی ذاتی غرض اور فائدے کے بغیر اس کا فین بن جاتا ہے۔ میں چوبیس گھنٹے اس خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں آزادی سے سانس لے رہا ہوں، انواع واقسام کی اشیا سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی آسان سے آسان بنا رہا ہوں، مگر میں خدا کو ایک لمحے کے لیے بھی اپنے شب وروز میں شامل کرنے، اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اور بات وہیں آکر ختم ہوجاتی ہے، اصل میں آج کا سماج، آج کی تعلیم، آج کی اقدار مجھے اللہ میاں کا فین نہیں بنارہی بلکہ انسان کو خود اسی کا فین بنانے کی طرف مائل کررہی ہے۔ کیوں کہ اللہ میاں کا فین بننے کے لیے اس کا بندہ بننا پڑے گا اور یہ کام تو نفس پر بڑاں گراںگزرتا ہے۔ بقول مولانا حالیؔ
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ