کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جس کی توقع نہ ہو یا جب آپ سامنے والے کو ہلکا سمجھ رہے ہوں، 90 کی دہائی میں ایک ایسا بدنام کردار وجود رکھتا تھا جس کی تلاش پولیس کے ساتھ عام شہریوں کو بھی تھی لیکن اس بدنام زمانہ ڈاکو کو پکڑنا مشکل تھا تبھی تو سندھ حکومت نے اس کے سر کی قیمت رکھی لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی ڈاکو نہیں تھا اسی لیے تو چوہدری اسلم جیسے پولیس آفیسر بھی اس کی چال نہ سمجھ سکے۔ یہ کردار اصل میں تھا کون اور اس نے گرفتار ہونے کے بجائے پولیس افسران کو کیسے جیل میں قید کرایا؟ آئیے جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: منگھوپیر کی رہائشی کالونی میں پولیس مقابلہ، 5 ڈاکو ہلاک

معشوق بروہی سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک بدنام زمانہ ڈاکو اور گینگسٹر کے طور پر مشہور تھا جو اغوا برائے تاوان اور قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھا۔ وہ قریباً 15 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا اور اس کی یہ سرگرمیاں صرف ایک علاقے تک محدود نہیں تھیں بلکہ سندھ کے اضلاع کراچی، بدین، دادو اور ٹھٹھہ کے علاوہ بلوچستان کے حب اور سکران تک پھیلی ہوئی تھیں۔

معشوق بروہی پر 200 سے زیادہ اغوا برائے تاوان، قتل اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور سندھ حکومت نے ان کی گرفتاری پر 25 لاکھ سے 30 لاکھ روپے انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔

’معشوق بروہی کا نام جعلی پولیس مقابلوں کے ایک بڑے تنازع میں بھی سامنے آیا‘

معشوق بروہی کا نام جعلی پولیس مقابلوں کے ایک بڑے تنازع میں بھی سامنے آیا، جولائی 2006 میں لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ ایس پی چوہدری اسلم نے کراچی کے گردونواح میں ایک پولیس مقابلے میں معشوق بروہی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ مقابلے میں مارا جانے والا شخص اصل میں معشوق بروہی نہیں تھا بلکہ سکرنڈ کا رہنے والا ایک بے گناہ مزدور غلام رسول بروہی تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ معشوق بروہی کے چکر میں غلام رسول کیوں مارا گیا؟ اس واقعے پر سندھ بھر میں شدید احتجاج ہوا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کا از خود نوٹس لیا، چوہدری اسلم اور دیگر پولیس افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور وہ کئی مہینوں تک جیل میں رہے۔

اس وقت ان واقعات پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی رجب علی نے وی نیوز کو بتایا کہ معشوق بروہی کا شمار بڑے گینگسٹرز میں ہوتا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب چھوٹے اغوا کار کسی کو اغوا کرنے کے بعد بڑے اغوا کاروں کو فروخت کردیا کرتے تھے اور معشوق بروہی ایسا ہی بڑا نام تھا جس کے پاس سندھ سے بلوچستان تک سیف ہاؤسز اور بڑی جگہیں ہوا کرتی تھی۔

’سندھ پولیس نے معشوق بروہی کے سر کی قیمت مقرر کی‘

رجب علی کے مطابق 2000 کے وسط میں سندھ حکومت نے اس کے سر کی قیمت مقرر کی، جنوری 2003 سے جون 2006 تک صرف سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق معشوق بروہی 14 اغوا برائے تاوان کے مقدمات میں نامزد تھا، جن میں 26 مغوی شامل تھے اور ان کی رہائی کے لیے مجموعی طور پر قریباً 5 کروڑ روپے تاوان حاصل کیا تھا۔

معشوق بروہی پر اغوا برائے تاوان کے علاوہ قتل کے 200 سے زیادہ سنگین مقدمات تھے وہ دہشت پھیلانے کے لیے اپنے مغویوں میں سے کچھ کو تاوان ادا نہ ہونے پر قتل کردیا کرتا تھا۔

2006 کی بات ہے کہ لیاری ٹاسک فورس بڑے آب وتاب سے کام کررہی تھی، اس کے پاس لامحدود اختیارات تھے اور یہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں کارروائی کا اختیار رکھتی تھی، معشوق بروہی نے لیاری ٹاسک فورس کو اپنے جال میں پھنسایا اور اس کے نتیجے میں معشوق بروہی کی جگہ کوئی اور شخص پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

مارے جانے والے شخص غلام رسول کے اہل خانہ کا دعویٰ تھا کہ اسے سکرنڈ میں بس سے اتار کر اغوا کیا گیا اور پھر مار دیا گیا، اب پولیس کے مطابق معشوق بروہی مارا جا چکا تھا۔

’جب معشوق بروہی سمجھ کر ایک عام شخص کو مار دیا گیا‘

اس کے بعد جب ایف آئی آر سامنے آئی تو پروموشن کے لیے اس ایف آئی آر میں پولیس کارروائی کے احوال سے زیادہ افسران کے ناموں کی فہرست تھی جس میں تمام افسران یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ ہم نے اس مقابلے میں حصہ لیا، کسی افسر نے 6 تو کسی نے 4 گولیاں لکھوائیں تا کہ کوئی بھی حکومتی انعامات اور پروموشن سے رہ نا سکے۔

رجب علی کے مطابق اس ایف آئی آر میں لیاری ٹاسک فورس کے قریباً تمام افسران نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں جب شور ہوا کہ یہ تو معشوق بروہی نہیں بلکہ ایک مزدور کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا تو ایک طوفان آگیا۔

’احتجاج شروع ہوا اور یوں عدالت نے بھی اس پر نوٹس لے لیا۔ آئی جی سندھ کی سربراہی میں ایک انکوائری ہوئی جس میں ثابت ہوا کہ یہ جعلی پولیس مقابلہ تھا اور اس پر ایکشن لینے پر پتا چلا کہ لیاری ٹاسک فورس کا تو اب صفایا ہوگیا اور یہ وجہ بنی لیاری ٹاسک فورس کو ختم کرنے کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی پی ایل سی کے ریکارڈ میں معشوق علی کی تصویر بھی اصل معشوق علی کی نہیں تھی۔‘

اصلی معشوق علی نے 3 بار ایسا کام کیا کہ نقلی معشوق علی بھتہ وصول کرتا رہا، ایسے واقعات سامنے آئے کہ اپنے پیاروں کو بازیاب کرانے جو جاتے تھے، وہ غلام رسول کو رقم دے کر آجاتے تھے۔

اب جب یہ لوگ پولیس کے پاس بیان دینے جاتے تو پولیس انہیں تصاویر دکھاتی اور پوچھتی ان میں سے معشوق بروہی کون ہے تو یہ لوگ غلام رسول کی تصویر کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے، جبکہ نقلی معشوق بروہی کو اصلی معشوق علی اپنا نام دے کر آگے بھیجتا تھا اور نقلی معشوق علی پر کوئی کرمنل کیس نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس کے اہلکار کو قتل کرنے والا ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک، 2 ساتھی گرفتار

چوہدری محمد اسلم سمیت لیاری ٹاسک فورس کے دیگر ممبران قید کاٹ کر رہا ہو چکے تھے اور قید کے دوران ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اصلی معشوق بروہی کو بھی نہیں چھوڑنا، جیل سے باہر آکر اپنا نیٹ ورک بحال کیا اور دسمبر 2007 میں کراچی پولیس نے بلوچستان کے حب کے علاقے میں ایک اور مقابلے میں اصل معشوق بروہی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

پہلی بار میں پولیس معشوق بروہی کے جال میں پھنسنے کے بعد بالآخر بدنام زمانہ ڈاکو کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اغوا برائے تاوان بدنام زمانہ ڈاکو پولیس افسران چوہدری اسلم گینگ وار ہلاک وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اغوا برائے تاوان بدنام زمانہ ڈاکو پولیس افسران چوہدری اسلم گینگ وار ہلاک وی نیوز اغوا برائے تاوان بدنام زمانہ ڈاکو معشوق بروہی کو پولیس افسران چوہدری اسلم مقابلے میں معشوق علی غلام رسول پولیس کے سے زیادہ کے مطابق پولیس ا میں ایک کا دعوی گیا اور کو ہلاک تھے اور اور اس کے لیے

پڑھیں:

اسلام آباد میں ٹریفک پولیس کا سخت کریک ڈاؤن‘ کئی افسران کے چالان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251201-08-15
اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)ٹریفک پولیس نے قوانین کی خلاف ورزی پر کریک ڈاؤن کی مہم شروع کردی ہے اور سرکاری گاڑیوں سمیت ٹریفک اور ضلعی پولیس افسران بھی اس کی زد میں آگئے ہیں جہاں ٹریفک پولیس نے ڈی ایس پی سمیت 21 سرکاری گاڑیوں کے چالان ٹکٹ جاری کردیے ہیں۔ شاہراؤں کو ٹریفک کے لیے محفوظ بنانے اور قوانین کی پابندی سب کے لیے مہم کے تحت راولپنڈی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سٹی ٹریفک پولیس نے کریک ڈاؤن کیا اور سرکاری گاڑیوں سمیت خود ٹریفک و ضلعی پولیس افسران بھی ریڈار پر آگئے ہیں۔را ولپنڈی میں ٹریفک قوانین کے پابندی نہ کرنے والے عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں شروع کر دیں گئیں‘ محض ایک دن میں سٹی ٹریفک پولیس، ضلعی پولیس اور اسلام آباد پولیس سمیت سرکاری محکموں کے افسران و اہلکار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گے۔چیف ٹریفک افسر فرحان اسلم کے احکامات پر کریک ڈاؤن کے دوران ڈی ایس پی ٹریفک کینٹ راولپنڈی کی سرکاری گاڑی بھی کالے شیشوں پر پکڑ میں آگئی، ڈی ایس پی ٹریفک کینٹ کی سرکاری گاڑی کا 500 روپے کا چالان ٹکٹ جاری کیا گیا اور کالے پیپر اتارے گئے۔چیف ٹریفک افسر فرحان اسلم نے ڈی ایس پی سے وضاحت طلب کرکے ڈی ایس پی کے سرکاری ڈرائیور کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا۔سی ٹی او راولپنڈی فرحان اسلم کا کہنا تھاکہ قانون سب کے لیے برابر ہے، سرکاری افسران اور عملہ بھی قانون کی پابندی کرے۔فرحان اسلم نے کہا کہ ٹریفک قوانین کی پابندی یقینی بنانے کے لیے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جارہا ہے، جو سرکاری ملازم بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل، بغیر نمبر پلیٹ گاڑی چلائے گا اس کا چالان ہو گا اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازم کو چالان کے ساتھ متعلقہ محکمے کو بھی محکمانہ کارروائی کے لیے لکھا جائے گا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا پولیس کو صرف کے پی میں ڈیوٹی کی ہدایت
  • پنجاب پولیس میں افسران و جوانوں کی ذہنی و جسمانی ہیلتھ اسکریننگ کا فیصلہ
  • سیسی کے تحت افسران کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد
  • اسلام آباد میں ٹریفک پولیس کا سخت کریک ڈاؤن‘ کئی افسران کے چالان
  • پنجاب کا بدنام زمانہ کار لفٹر کراچی میں مارا گیا
  • پاکستان مخالف بھارتی فلم ’دھریندر‘ ریلیز سے قبل ہی تنازعات کا شکار
  • بالی وڈ فلم دھرندھر کا ٹریلر،پاکستان میں شدید ردعمل
  • سندھ پولیس کا نیا سربراہ کون؟ افسران میں دوڑ شروع ہو گئی
  • چوہدری اسلم کی بیوہ شدید برہم، ’دھریندر‘ کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ