او آئی سی وزرائے آب کانفرنس، پانی کے انتظام میں تعاون بڑھانے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے رکن ممالک میں پانی کی قلت سے نمٹنے اور پانی کے بہتر انتظام کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق او آئی سی نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ رکن ممالک کو پانی صاف کرنے (ڈی سیلینیشن) کی صلاحیتوں میں اضافہ، زیرِ زمین پانی کے بہتر انتظام، اور قابلِ تجدید وسائل کے استعمال پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:عرب اسلامی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مضبوط فیصلے کیے جائیں، سیکریٹری جنرل او آئی سی
یہ بیان جدہ میں حال ہی میں منعقد ہونے والی ’او آئی سی وزرائے پانی کانفرنس‘ کے دوران دیا گیا، جس کا موضوع ’ویژن سے اثر تک‘ تھا۔
پانی کی سلامتی اور تعاون کی حکمتِ عملی پر غور
کانفرنس میں وزراء، نمائندگان اور متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اسلامی دنیا میں پانی کی سلامتی کو مضبوط بنانے اور رکن ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ کے حوالے سے او آئی سی اجلاس میں سعودی عرب کا کردار لائق تحسین ہے: فلسطینی سفیر ڈاکٹر زہیر زید
تکنیکی اشتراک اور جدید حل کی ضرورت
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ او آئی سی کے وژن کے تحت پانی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، معلومات کے تبادلے، اور مشترکہ منصوبہ بندی کے نظام کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی کانفرنس او آئی سی سعودی پریس ایجنسی سعودی عرب وزرائے آب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی کانفرنس او ا ئی سی سعودی پریس ایجنسی او ا ئی سی پانی کی
پڑھیں:
اسرائیل نے عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑا دیں، متنازع اقدامات پر اسلامی ممالک کی شدید مذمت
اسلامی دنیا نے اسرائیل کے دو نئے متنازع مسودہ قوانین پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے انہیں ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ان قوانین کا مقصد مقبوضہ مغربی کنارے پر نام نہاد اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنا اور وہاں غیر قانونی یہودی بستیاں قائم کرنا ہے، جسے اسلامی ممالک نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔
اسلامی ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پارلیمان کی یہ کارروائی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، خصوصاً قرارداد 2334، کے برخلاف ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 1967 سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی یروشلم میں کسی بھی قسم کی آبادیاتی یا جغرافیائی تبدیلی غیر قانونی ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے بھی اپنی مشاورتی رائے میں اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مغربی کنارے میں بستیوں کے قیام اور الحاق کے منصوبوں کو جرم قرار دیا ہے۔
اعلامیے پر دستخط کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ، قطر، فلسطین، اردن، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، کویت، عمان، لیبیا، نائیجیریا، گیمبیا، جبوتی، عرب لیگ اور تنظیمِ تعاونِ اسلامی شامل ہیں۔
تمام ممالک نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی 22 اکتوبر 2025 کی رائے کا خیرمقدم کیا، جس میں اسرائیل کو پابند کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت مقبوضہ علاقوں خصوصاً غزہ کے عوام کو خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائے۔
اسلامی ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنا اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا انسانیت سوز جرم اور عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اعلامیے میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرے، اسرائیل کو فوری طور پر غیر قانونی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کرے اور فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت و آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کرے۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ اسرائیل کی یکطرفہ اور جارحانہ پالیسیوں کے تسلسل سے نہ صرف خطے کا امن بلکہ عالمی استحکام بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسلامی ممالک نے کہا ہے کہ ایک منصفانہ اور پائیدار امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں کے مطابق قائم ہو اور القدس اس کا دارالحکومت قرار دیا جائے۔