پاکستان کیخلاف وائٹ بال سیریز سے قبل جنوبی افریقی ٹیم کو بڑا دھچکا
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
جنوبی افریقی ٹیم کے کپتان سمیت دو اہم کھلاڑی پاکستان کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر ہوگئے۔
کرکٹ جنوبی افریقا کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ کپتان ڈیوڈ ملر اور فاسٹ بولر جیرالڈ کوئٹزے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر ہوگئے ہیں۔
ڈیوڈ ملر پاکستان کے دورے کے لیے ٹریننگ کے دوران انجری کا شکار ہوئے تھے جو ابھی ری ہیب کے عمل سے گزریں گے۔
دوسری جانب فاسٹ بولر جیرالڈ کوئٹزے نہ صرف ٹی ٹوئنٹی بلکہ ون ڈے سیریز میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔
کوئٹزے رواں ماہ کے آغاز میں نمیبیا کے خلاف میچ کے دوران انجری کا شکار ہوئے تھے۔
ڈیوڈ ملر کی غیر موجودگی میں ڈونوان فریرا ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت کریں گے جبکہ میتھیو بریٹزکے اور ٹونی ڈی زورزی کو ٹیم میں متبادل کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔
ون ڈے سیریز میں جیرالڈ کوئٹزے کی جگہ اوٹنیل بارٹمین کو شامل کیا گیا ہے۔
SQUAD UPDATE ????
The South African Men’s selection panel today confirmed that Proteas Men’s stand-in T20 International (T20I) captain David Miller and fast bowler Gerald Coetzee have been ruled out of the upcoming white-ball tour of Pakistan.
Miller, who was set to lead the T20I… pic.twitter.com/AVvb0ATfQI — Proteas Men (@ProteasMenCSA) October 23, 2025
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹی ٹوئنٹی
پڑھیں:
ایک اور افریقی ملک میں فوجی بغاوت؛ صدر کے باغی اور وفادار اہلکار آمنے سامنے
افریقی ممالک میں فوجی بغاوتوں کا بڑھتا ہوا سلسلہ ایک اور ملک بینن تک جا پہنچا جب کہ حال ہی میں مالی، برکینا فاسو، نائجر، گنی اور گزشتہ ہفتے گنی بساؤ میں بھی فوجی بغاوتوں کے ذریعے حکومتوں کا دھڑن تختہ ہوا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افریقی ملک بینن میں فوج کے باغی اہلکاروں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کرتے ہوئے حساس مقامات پر قبضے کی کوشش کی۔
باغی فوجی گروہ نے بینن کے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کر کے آئین معطل کرنے اور حکومت کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا۔
بغاوت کی قیادت لیفٹیننٹ کرنل پاسکل تیگری نے کی جنھوں نے صدر تالون کی پالیسیوں اور شمالی بینن کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتِ حال پر شدید تنقید کی۔
بینن کے صدر کے بقول فوجی بغاوت کو ملکی وفادار اہلکاروں نے ناکام بنایا تاہم آزاد ذرائع کا کہنا پے کہ دوپہر سے زوردار دھماکے سنے گئے تھے جنہیں فضائی حملے قرار دیا گیا۔
پروازوں کے ڈیٹا سے پتا چلا کہ یہ دھماکے کرنے نائیجیریا کے تین لڑاکا طیارے بینن کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
خود نائیجیریا نے بھی تصدیق کی کہ اس کے طیاروں نے بغاوت کرنے والے فوجیوں کو نشانہ بنایا اور انہیں سرکاری ٹی وی اسٹیشن سے ہٹانے کے لیے کارروائی کی۔
فوجی بغاوت پر ملکی فوج دو گروپس میں تقسیم ہوگئیں، پہلا گروپ بغاوت کا حامی اور صدر کو تختہ دار سے اتارنے کی مسلح کوشش کا حصہ تھے۔
دوسری جانب فوج میں صدر مملکت کے وفادار فوجی اہلکاروں کی تعداد بھی کم نہ تھی جنھوں نے بغاوت کی اس کوشش کو جھڑپوں کے بعد ناکام بنادیا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس ناکام فوجی بغاوت میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا اور ناکام بغاوت کرنے پر گرفتار کمانڈرز اب کہاں ہیں؟
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صدر کی رہائش گاہ کے قریب فائرنگ بھی سنی گئی اور کچھ گھنٹوں کے لیے سرکاری ٹی وی کے صحافیوں کو یرغمال بھی بنایا گیا۔
بینن کے صدر پیٹریس تالون نے قوم سے ٹیلی وژن پر خطاب میں اعلان کیا ہے کہ فوجی بغاوت کی کوشش کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا اور ملک کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔
صدر کا مزید کہنا تھا کہ ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تمام اہم مقامات کا وفادار فوجی دستوں نے دوبارہ کنٹرول میں لے لیا ہے اور مزاحمت کے آخری مراکز بھی صاف کر دیے گئے ہیں۔
بینن کے صدر کی وفادار فوج نے بتایا کہ ناکام فوجی بغاوت پر 14 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں زیادہ تر ٹی وی اسٹیشن پر حملہ کرنے والے فوجی اہلکار شامل ہیں۔
اس تمام معاملے سے واقف ایک باخبر صحافی نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں ایک ایسا فوجی بھی شامل ہے جسے پہلے برطرف کیا جا چکا تھا۔
ادھر ایکوواس اور افریقی یونین نے بغاوت کی کوشش کی شدید مذمت کی۔ ایکوواس نے اپنی اسٹینڈ بائی فورس بینن بھیجنے کا اعلان کیا ہے تاکہ آئینی حکومت کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
فرانس، روس اور امریکا نے اپنے شہریوں کو گھروں میں رہنے یا صدارتی محل کے علاقے سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔
یاد رہے کہ بینن کو برسوں تک مغربی افریقہ کی مستحکم جمہوریتوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں صدر تالون پر سیاسی مخالفت دبانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
آئندہ برس اپریل 2026 میں انتخابات ہونے والے ہیں جب کہ صدر تالون جو اپنے دوسرے اور آخری آئینی دورِ حکومت میں ہیں، وزیرِ خزانہ روموالڈ وڈاگنی کو اپنا جانشین نامزد کرچکے ہیں۔
علاوہ ازیں حال ہی میں آئینی ترامیم میں پارلیمانی مدت پانچ سے سات سال کر دی گئی لیکن صدارتی دو مدت کی حد برقرار رکھی گئی۔