ٹی ایل پی پرپابندی کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر نہ کرنےکافیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کے معاملے میں سپریم کورٹ سے ریفرنس دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس سلسلے میں عدالتِ عظمیٰ سے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق، ٹی ایل پی پر پابندی انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت لگائی گئی ہے، اس لیے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں پر پابندی کے لیے درکار عدالتی ریفرنس کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ حکام کے مطابق، انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی تنظیم کو کالعدم قرار دے، اگر اس کے خلاف دہشتگرد سرگرمیوں یا عوامی امن و امان کے خلاف کارروائیوں کے ٹھوس شواہد موجود ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی تھی، جس کے بعد وزارت داخلہ نے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، وفاقی حکومت کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان دہشتگردی کے فروغ، اشتعال انگیزی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔
وزارت داخلہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11-بی کے تحت فرسٹ شیڈول میں شامل کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں تنظیم کی تمام سرگرمیاں، دفاتر، اور فنڈز منجمد تصور کیے جائیں گے۔
اس فیصلے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کو باضابطہ طور پر کالعدم جماعت قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی، امن عامہ کے تحفظ، اور شدت پسندانہ بیانیے کے خاتمے کے لیے ناگزیر تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پر پابندی ٹی ایل پی کے تحت
پڑھیں:
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مستقل جج سپریم کورٹ کا حلف اٹھا لیا
اسلام آباد:جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سپریم کورٹ کے مستقل جج کا حلف اٹھا لیا۔
حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ میں ہوئی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف لیا۔
حلف برداری کی تقریب میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق شریک ہوئے۔
حلف برداری کی تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز بھی شریک تھے۔