فلسطینی دھڑوں کا غزہ کا انتظام ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق، حماس کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
غزہ میں جاری جنگ کے بعد کے انتظامی معاملات کو لے کر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ حماس کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں شریک فلسطینی تنظیموں نے اتفاق کیا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کا انتظام ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا، جو روزمرہ امور اور تعمیرِ نو کے معاملات کی نگرانی کرے گی۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ حماس کے زیرِ اہتمام ہونے والے ایک اجلاس کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں سامنے آیا۔ تاہم اس اجلاس میں فلسطینی صدر محمود عباس یا ان کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام دھڑوں نے اس بات پر اصولی اتفاق کیا کہ جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کسی سیاسی گروہ کے بجائے ایک تکنیکی اور غیر جماعتی انتظامیہ کے پاس ہوگی، تاکہ علاقے میں استحکام اور بحالی کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جا سکے۔
تاہم بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ٹیکنوکریٹ کمیٹی میں کون لوگ شامل ہوں گے یا ان کے تقرر کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
اسرائیلی اور عرب ذرائع کے مطابق صدر محمود عباس نے اپنے معاونین کو اجلاس میں شرکت سے منع کر دیا تھا، کیونکہ فتح اور حماس کے درمیان اس معاملے پر اختلافات بدستور برقرار ہیں۔
دوسری جانب، امریکی حکام نے گزشتہ ہفتے عندیہ دیا تھا کہ غزہ کے لیے کسی عبوری انتظامیہ کی تشکیل اس وقت ان کی ترجیحات میں شامل نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ابھی اس نئے سیاسی یا انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل طے نہیں پایا۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں تباہ کن جنگ نے نہ صرف لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے بلکہ انتظامی ڈھانچے کو بھی مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ ایسے میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی تجویز کو بہت سے مبصرین علاقے میں استحکام اور بحالی کی طرف ایک ممکنہ پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ کو علیحدہ کرنے کا قانونی مسودہ انسپیکشن کمیٹی پہنچ گیا، اجلاس جمعہ کو طلب
سائنسی دنیا میں شہرت رکھنے والے کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آئی سی سی بی ایس کو جامعہ کراچی سے علیحدہ کرنے کا مجوزہ قانونی مسودہ سندھ ایچ ای سی پہنچ گیا ہے۔
سندھ اعلی تعلیمی کمیشن کے ذیلی ادارے چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی نے اس حوالے سے خصوصی اجلاس 12 دسمبر کو طلب کرلیا، جس میں اس مسودے میں موجود قانونی شقوں پر غور کیا جائے گا جبکہ چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی نے جمعہ کو ہونے والے اجلاس سے متعلق خطوط اراکین کو ارسال کردیے ہیں۔
چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کے ایک رکن نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ جو قانونی مسودہ کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے یہ وہی مسودہ ہے جو سوشل میڈیا پر پہلے ہی سفر کررہا ہے اور مسودے کی شقوں میں کئی متنازعہ نکات میں سے ایک شق یہ بھی ہے کہ جب آئی سی سی بی ایس کو خود مختار حیثیت دی جائے گی تو اس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے انتخاب اور تقرری کے لیے مسودے میں جس تلاش کمیٹی کا ذکر ہے۔
اس کی سربراہی وزیر اعلی سندھ کو کرنی ہے جبکہ وزیر اعلی صوبے کا سربراہ ہوتا ہے اور وہ تلاش کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیتا یے لیکن اس مسودے کے مطابق وزیر اعلی سندھ خود پہلے تلاش کمیٹی کے ذریعے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا انتخاب کریں گے یعنی امیدواروں کی اسکروٹنی کریں گے۔
ان کے انٹرویوز کرکے کسی معقول امیدوار کے نام کی سفارش کریں گے اور پھر بحیثیت کنٹرولنگ اتھارٹی خود اپنی بھجوائی ہوئی سفارشات کی منظوری بھی دیں گے جبکہ سندھ میں جامعات اور انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کے انتخاب کے لیے علیحدہ سے تلاش کمیٹی قائم ہے۔
چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے رکن نے مزید بتایا کہ مسودے میں لکھا ہے کہ یہ ادارہ ڈونرز کے عطیات سے قائم ہوا یے جبکہ دستیاب معلومات کے مطابق یہ ادارہ حکومتی فنڈز سے بنا تھا لہذا یہ بھی ایک متنازعہ شق ہے جس پر اجلاس میں بات ہوسکتی ہے۔
ادھر چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی اور سندھ ایچ ای سی کے کمیشن کے حوالے سے مزید ایک حقیقت سامنے آئی ہے کہ جن ڈونرز کا مسودے میں تذکرہ ہے ان میں سے ایک نادرہ پنجوانی ایچ ای سی کے کمیشن اور چارٹر کمیٹی کی رکن ہیں اور جس کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث آنا ہے وہ خود بحیثیت رکن اس فورم پر موجود ہونگی جو conflict of interest یا مفادات کا ٹکراو ہے.
لہذا اگر چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی اور سندھ ایچ ای سی کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تجویز یا فیصلہ متعلقہ ڈونر کی موجودگی میں کیا جاتا ہے تو اس کی حیثیت بھی متنازع ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ قانونی مسودہ قبل ازیں سندھ کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لیے چارٹر انسپیکشن کمیٹی اور سندھ ایچ ای سی کی سفارش کے بغیر ہی پیش کیا گیا تھا جبکہ جامعہ کراچی میں انجمن اساتذہ اور ملازمین کی جانب سے اس فیصلے کی مسلسل مخالفت سامنے آرہی ہے۔