سوات کا فرمان علی خان جس نے جدہ میں اپنی جان دے کر 14 زندگیاں بچائیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
بارش کبھی کبھی صرف موسم نہیں ہوتی، تاریخ بن جاتی ہے۔ نومبر 2009 میں جدہ پر اترنے والی بارش نے اچانک شہر کو آزمائش میں ڈال دیا۔ گاڑیاں بہہ رہی تھیں، لوگ چیخ رہے تھے، پانی منہ زور تھا۔
اسی لمحے سوات کے ایک خاموش دلیر نوجوان نے ایک رسی اپنی کمر سے باندھی، لہروں میں چھلانگ لگائی اور انسانوں کو ایک ایک کر کے موت کے جبڑوں سے کھینچنا شروع کیا۔
وہ فرمان علی خان تھا جس نے 14 جانیں بچائیں اور 15ویں کو نکالنے کی کوشش میں خود پانی کی نذر ہو گیا۔ یہ کہانی جذبات سے زیادہ ایک اخلاقی مقدمہ ہے۔
ریاستیں جب اخلاقی اعتبار قائم کرتی ہیں تو وہ ایسے کرداروں کو فراموش نہیں کرتیں۔ اکتوبر 2011 میں خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے فرمان علی خان کو بعد از وفات سعودی عرب کا شاہ عبد العزیز کا اعلیٰ اعزاز (فرسٹ کلاس) عطا کرنے کی منظوری دی، یہ اعلان پیغام تھا کہ بہادری اور ایثار کی قدر سرحدوں سے ماورا ہے۔ اسی فیصلے کے ساتھ فرمان کے اہلِ خانہ کو شاہ کے مہمان کے طور پر حج کی میزبانی کا حکم دیا گیا۔
یہیں بات ختم نہیں ہوئی۔ مئی 2012 میں جدہ میونسپلٹی نے قوَیْزہ کے علاقے کی ایک مرکزی سڑک کو فرمان علی خان کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ شہر روزانہ اس قربانی کو یاد رکھے۔ یہ نام صرف ایک تختی نہیں، شہری حافظے کی تعمیر ہے۔
ریاستی سطح پر اعتراف کے ساتھ سفارتی سطح پر رشتہ بھی قائم رہا۔ سعودی سفیر نے اہلِ خانہ سے ملاقات کی، تعزیت اور قدر دانی کی زبان میں اس داستان کو زندہ رکھا اور میڈیا نے اسے اسلامی اخوت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔
وقت گزرا تو اعتراف نے ترقیاتی صورت بھی اختیار کی۔ فروری 2019 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خیبر پختونخوا میں فرمان علی خان کے نام سے ایک ہیلتھ کیئر سینٹر قائم کرنے کی ہدایت دی، ایثار کی قدر کو پائیدار خدمت میں بدلنے کی عملی مثال۔
اسی دوران عرب نیوز کی رپورٹس نے ایک بار پھر فرمان کی کہانی، اس کے عمل کی جزئیات اور اس کی بیٹیوں کی آوازوں کے ساتھ دنیا کو یاد دلایا کہ بہادری محض لمحہ نہیں، نسلوں کا نصاب ہے۔
پاکستان نے بھی اپنے بیٹے کو بھلایا نہیں، صدرِ پاکستان نے تمغۂ شجاعت عطا کیا اور اہلِ خانہ کی اعانت کے اعلانات ہوئے۔ لیکن اس سارے اعتراف میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ عوامی حافظہ ہے، وہ حافظہ جو پاکستانی برادری کے فخر اور سعودی معاشرے کی قدردانی سے بنا ہے، وہ حافظہ جو ہر بحران میں ہمیں بتاتا ہے کہ ایک فرد کی جرات پورے معاشرے کا معیار بدل دیتی ہے۔
فرمان علی خان کی کہانی کو محض رقت انگیز واقعہ سمجھ کر پڑھ لینا آسان ہے مگر اس میں ہمارے آج اور کل کے لیے واضح رہنمائی چھپی ہے۔
پہلی بات: پاکستانی محنت کش صرف افرادی قوت نہیں، وہ اقدار کے سفیر ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی محنت اور دلوں کی وفاداری نے 4 دہائیوں میں سعودی عرب کی معیشت اور سماج کی تعمیر میں حصہ ڈالا ہے؛ فرمان نے اسی اجتماعی کردار کو ایک فیصلہ کن لمحے میں مجسم کر دیا۔
دوسری بات: سعودی ریاست اور معاشرہ اس کردار کو پہچانتا اور اس کا وقار قائم کرتا ہے، اعزازات، شہری یادگاریں اور اہلِ خانہ کی خبرگیری اسی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔
تیسری بات: ایسے واقعات کو ادارہ جاتی یاد میں محفوظ کرنا ضروری ہے تاکہ جذبۂ خدمت حادثات کا محتاج نہ رہے بلکہ سماجی تربیت کا حصہ بنے۔ میڈیا کو چاہیے کہ فرمان جیسے کرداروں کی فہرست مرتب کرے، کیونکہ اجتماعی حافظہ منصوبہ بندی سے بنتا ہے، حادثاتی طور پر نہیں۔
فرمان علی خان کی 3 بیٹیاں آج ایک ایسے نام کی وارث ہیں جو 2 ملکوں کے مابین ایک لطیف مگر مضبوط پل ہے۔ جب بھی جدہ میں اس کے نام کی سڑک سے لوگ گزریں گے تو انہیں یاد رہے گا کہ ایک پاکستانی نے زندگی دے کر ان کی زندگیاں بچائیں؛ جب بھی سوات میں اس کے نام کا مرکز صحت آبادی کی خدمت کرے گا تو لوگ جانیں گے کہ سعودی عرب نے اس ایثار کی لاج رکھی۔ یہ رشتہ جذبات سے شروع ہوا تھا لیکن ریاستی اعتراف، شہری یادگار اور سماجی مفاہمت نے اسے ادارہ بنا دیا ہے، یہی وہ بندھن ہے جو قوموں کو اخوات کے رشتے میں باندھتا ہے۔
فرمان کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ بہادری کبھی تنہا واقعہ نہیں ہوتی یہ معاشروں کے بیچ اعتماد کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس ایک کڑی کی حفاظت کی، اسے بڑھایا، تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف معاہدوں میں نہیں، شہری اخلاقیات اور مشترکہ خدمت کے اداروں میں بھی پڑھے جائیں گے۔
فرمان علی خان کی قربانی اسی مستقبل کی دستک ہے، ایک ایسی دستک جسے سننا، سمجھنا اور پالیسی میں ڈھالنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر طلحہ الکشمیری اقوام متحدہ، پاک عرب تعلقات، انسانی حقوق، جنوبی ایشیا اور پاکستان سے متعلق امور پر حقائق پر مبنی تجزیاتی اور محققانہ تحریریں قلم بند کرتے ہیں، اردو، اور عربی زبان و ادب کے ساتھ گہری مناسبت رکھتے ہیں۔
جدہ جدہ میں جانیں بچانے والا پاکستانی سعودی عرب سوات کا فرمان علی خان فرمان علی خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جدہ میں جانیں بچانے والا پاکستانی سوات کا فرمان علی خان فرمان علی خان فرمان علی خان کے ساتھ کے نام
پڑھیں:
اسپرے مہم شروع نہ ہونے سے حیدرآباد میں مچھروں کی بہتات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251023-8-3
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی ریحان راجپوت نے کہا ہے کہ حیدرآباد میں ڈینگی مچھر کے وار میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن سندھ حکومت کی کارکردگی زیرو ہے، محکمہ صحت نے تاحال ڈینگی مچھر سے بچاؤ کیلیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں اور عوام کو بے یارو مددگار مرنے کیلیے چھوڑ دیا ہے، انہوں نے کہاکہ ملیریا کنٹرول پروگرام اور ڈی جی ہیلتھ سمیت ڈی ایچ او کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کی صحت کے حوالے سے کارکردگی زیرو ہے، کروڑوں روپے کے بجٹ کے باوجود بھی کوئی انتظامات نہیں کئے گئے ہیں، نہ تو ملیریا کنٹرول پروگرام کے تحت عوام کو سہولیات فراہم کی جارہی ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ اور بلدیہ اس حوالے سے کوئی موثر اقدامات کررہی ہے ماسوائے کچھ علاقوں میں منتخب نمائندے اسپرے کرتے ہوئے فوٹو سیشن کرواکر سوشل میڈیا پر اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن عملاً حیدرآباد کے سب سے بڑے اسپتال سول ،شاہ بھٹائی ، کوہسار، پریٹ آباداور قاسم آباد اسپتال میں انتظامات تو دور کی بات وہاں ملیریا اور ڈینگی کے ٹیسٹ تک کی سہولت نہیں ہے مجبوراً اپنی جان بچانے کیلیے لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کررہے ہیں اور وہاں اپنی جمع پونجی لٹارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کروڑوں روپے کے بجٹ صرف سندھ حکومت ڈکارنے میں مصروف ہے اور عوام کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔