حماس کی جانب سے عالمی ادارہ انصاف کی مشاورتی رائے کا خیر مقدم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
حماس نے ایک اخباری بیان میں زور دیا کہ اس فیصلے نے غزہ پٹی میں ہمارے فلسطینی عوام کی امداد میں ایجنسی کے اہم انسانی کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جاری مشاورتی رائے کو سراہا ہے، جس نے فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے خلاف قابض اسرائیل ریاست کے باطل دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس نے ایک اخباری بیان میں زور دیا کہ اس فیصلے نے غزہ پٹی میں ہمارے فلسطینی عوام کی امداد میں ایجنسی کے اہم انسانی کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ تحریک نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کا بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے اصول پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قابض اسرائیل، جو جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا رکھ رہا ہے، وہ ایک طرح کی نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ قابض اسرائیل کو ایک قابض طاقت کے طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اپنے قوانین کو نافذ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ حماس نے اس بات پر زور دیا کہ یہ فیصلہ آبادکاری کو قانونی حیثیت دینے یا طاقت کے ذریعے حقائق مسلط کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بناتا ہے۔ حماس نے نشاندہی کی کہ عدالت کی جانب سے قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینی عوام کی فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے عزم کی ضرورت پر زور دینا، عالمی برادری کے لیے ایک واضح پکار ہے کہ وہ فوری طور پر حرکت میں آئے تاکہ انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جا سکے اور قابض اسرائیل کو اسے سیاست زدہ کرنے یا دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قابض اسرائیل
پڑھیں:
قابض صیہونی رژیم کی نئی شرارت کے بارے پاکستان سمیت 8 اسلامی ممالک کا انتباہ
اپنے ایک مشترکہ بیان میں 8 عرب و اسلامی ممالک نے رفح بارڈر کراسنگ کے "یکطرفہ طور پر کھولے جانے" کے بارے خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد غزہ کے لوگوں کو "جبری نقل مکانی" پر مجبور کرنا ہے اسلام ٹائمز۔ 8 عرب و اسلامی ممالک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں غزہ کی پٹی کے مکینوں کو مصر منتقل کرنے کے لئے رفح بارڈر کراسنگ کو "یکطرفہ طور پر کھولنے" کے بارے اسرائیل کے حالیہ بیانات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس بیان میں مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، اردن، پاکستان، ترکی اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے تاکید کی کہ فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے "جبری نقل مکانی" پر مجبور کرنے سے متعلق کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر مسترد کیا جاتا ہے نیز یہ کہ کسی بھی فریق کو غزہ کی آبادی کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرنے کا حق حاصل نہیں۔
اپنے مشترکہ بیان کے ایک دوسرے حصے میں مذکورہ ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر "مکمل عملدرآمد" کی ضرورت پر زور دیا کہ جس میں رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنے، غزہ کے باشندوں کے لئے نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت، علاقے سے کسی بھی "جبری نقل مکانی" پر پابندی اور لوگوں کے لئے غزہ میں باقی رہنے نیز مستقبل کی تعمیر نو میں حصہ لینے کے لئے موزوں حالات پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ 8 ممالک کے وزرائے خارجہ نے "خطے میں امن کے قیام کے لئے ٹرمپ کے عزم" کو بھی سراہا اور "ٹرمپ منصوبے کی تمام شقوں کے بلا تاخیر یا رکاوٹ نفاذ" پر بھی زور دیا کہ جو ان کے بقول، "خطے میں امن و سلامتی" کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
اس بیان میں غزہ کی پٹی میں سنگین انسانی حالات کا بھی حوالہ دیا گیا اور جنگ بندی کے مکمل استحکام، شہریوں کی تکالیف کا خاتمہ اور انسانی امداد کے غیر مشروط داخلے پر بھی زور دیا گیا۔ آٹھوں وزرائے خارجہ نے جلد از جلد تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے لئے کوششیں شروع کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فلسطینی علاقوں میں دیرپا استحکام پیدا کرنے کے عمل کے ایک حصے کے طور پر "فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے غزہ کے انتظام و انصرام کے لئے حالات پیدا کرنے" کو بھی ضروری قرار دیا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک امریکہ کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ علاقائی و بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ بھی تعاون و ہم آہنگی جاری رکھنے کو تیار ہیں کہ جس کا مقصد سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 اور دیگر متعلقہ قراردادوں پر مکمل عملدرآمد اور "منصفانہ، جامع و پائیدار امن" کے حصول کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس حل کے مطابق، 4 جون 1967 کی سرحدوں پر ایک "آزاد فلسطینی ریاست" قائم کی جائے گی، جس میں غزہ اور مغربی کنارہ بھی شامل ہو گا اور اس کا دارالحکومت "مشرقی بیت المقدس" قرار پائے گا۔