حماس کا اسرائیلی قبضہ ختم ہونے کی شرط پر ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
حماس نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیلی فوج کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم ہو جائے تو وہ غزہ پٹی میں اپنے ہتھیار ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کو تیار ہے جو مکمل طور پر اس علاقے کی حکمرانی کرے۔
حماس کے غزہ چیف اور مذاکرات کار خلیل الحیہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہمارے ہتھیار قبضے اور جارحیت کی موجودگی سے مشروط ہیں۔ اگر قبضہ ختم ہو جائے تو یہ ہتھیار ریاست کے اختیار میں دے دیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ: اسرائیلی حملوں میں بچوں سمیت 24 فلسطینی شہید، حماس کی ثالثوں سے مداخلت کی اپیل
اے ایف پی کی جانب سے وضاحت طلب کرنے پر الحیہ کے دفتر نے بتایا کہ وہ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کی بات کر رہے تھے۔
الحیہ نے مزید کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی فورس کو سرحدوں کی نگرانی اور جنگ بندی پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے تعینات کرنے پر آمادہ ہیں، لیکن غزہ میں ایسی کسی بین الاقوامی فورس کو قبول نہیں کریں گے جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔
ماضی میں بھی خلیل الحیہ اس مؤقف کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ دو ریاستی حل صرف عارضی ہے اور فلسطینیوں کا تمام تاریخی فلسطینی سرزمین پر حق قائم ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اور ان کی حکومت 1967 کی جنگ میں قبضے میں لی گئی زمینوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس فلسطین.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
پاکستان سمیت مسلم ممالک کا فلسطینیوں کو بے دخل کرنے سے متعلق حالیہ اسرائیلی بیانات پر اظہار تشویش
سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ، مصر، اردن، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور قطر کے وزرائے خارجہ نے اسرائیلی حکام کی جانب سے جبری ہجرت اور غزہ کے رہائشیوں کو بے دخل کرنے سے متعلق حالیہ بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایسے بیانات نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ خطے کے امن اور انسانی اقدار کے منافی ہیں، فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کو یکسر مسترد کیا جائے گا، اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے عوام کی جبری نقل مکانی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے خطرناک ارادے، دفاع کے لیے 35 ارب ڈالر مختص کردیے
وزرا نے امریکی صدر کی جانب سے خطے میں امن کے قیام کے لیے کیے گئے مثبت اشاروں کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ کسی بھی سیاسی منصوبے کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام کے جائز حقوق اور مطالبات کو مکمل طور پر تسلیم کیا جائے۔
بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کی اپنے وطن پر واپسی، تعمیرِ نو اور پائیدار استحکام کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ فوری اور مکمل فائر بندی ناگزیر ہے، تاکہ غزہ میں انسانی بحران کم ہو، امداد بلا رکاوٹ متاثرہ علاقوں تک پہنچے، اور طبی و معاشرتی خدمات بحال ہو سکیں۔
وزرا نے تعمیرِ نو، ہنگامی امداد اور فلسطینی انتظامیہ کی واپسی کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں شہدا کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری
مشترکہ بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ خطے میں دیرپا امن اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی ریاست کو 1967 کی سرحدوں کے مطابق قائم کیا جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ وزرا نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 اور دیگر متعلقہ فیصلوں پر مکمل عملدرآمد پر زور دیا۔
اختتام پر وزرائے خارجہ نے اپنے ممالک کی جانب سے امریکا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خطے کو ایک نئے، پُرامن مرحلے میں داخل ہونا چاہیے جہاں انصاف، استحکام اور انسانی اقدار کو بنیاد بنایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل غزہ فلسطین مسلم ممالک