لبنان کینسر سے متاثر دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیروت (انٹرنیشنل ڈیسک) لبنان دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والے کینسر کے کیس و اموات کا حامل ملک بن گیا ۔ ایک مطالعے کے مطابق لبنان میں کینسر کے نئے کیسوں میں 1990 ء سے 2023 ء کے دوران تقریباً 162فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جبکہ اموات میں تقریباً 80فیصد اضافہ ہوا ہے۔لبنان نے مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں سب سے زیادہ کینسر کی شرح ظاہر کی ہیں مثلاً بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر اور مثانے کا کینسر وغیرہ۔ لبنان میں بریسٹ کینسر کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ پائی گئی ہے۔ اس کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن میں تماکْو نوشی کا بہت زیادہ رجحان، فضائی آلودگی، جنریٹرز کی زیادتی، زرعی کیمیکلز کا استعمال اور صحت عامہ کے نظام کی کمزوری وغیرہ۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے امریکی اہداف
اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔ تحریر: علی احمدی
شام اور لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے خطے کے تھانیدار کے طور پر ظاہر ہوتے ہوئے یہ دھمکی لگا دی ہے کہ اگر لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام نہ دیے گئے تو حزب اللہ لبنان کے ملٹری ونگ کو اس بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جس کا آغاز اسرائیل کرے گا۔ اس نے کہا: "اگر لبنان حکومت بدستور تذبذب کا شکار رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ اسرائیل یکطرفہ طور پر اقدام کرے اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا اسرائیل کے لیے اپنی شمالی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا معنی رکھتا ہے۔" جیسا کہ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی اس دھمکی سے واضح ہے اس کی نظر میں لبنان کی ریاست، قوم اور حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لہذا تھامس براک غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے۔ اس کی یہ بات کہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اسرائیل کی شمالی سرحدوں کا تحفظ ہے، ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ لبنان حکومت کو محض ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی یقینی بنانے کا محض ایک ذریعہ تصور کرتی ہے۔ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی جانب سے اس حد سے زیادہ ڈو مور کے مطالبے کے بارے میں تین نکات بہت اہم ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1)۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک جعلی، غاصب، قابض اور ناجائز رژیم ہے جس نے مقامی فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے گذشتہ 77 برس سے اسلامی سرزمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ 77 برس سے مغربی ایشیا خطے میں بسنے والی قوموں اور عرب ممالک کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور اس دوران اس نے جنگوں، قتل عام، تباہی و بربادی اور وسیع نقصان کے ذریعے خطے کی قوموں اور ممالک کو شدید نالاں کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ دو سال سے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم آئے دن مغربی کنارے پر جارحانہ حملے کرتی ہے، اس نے اب تک لبنان کے 4 ہزار شہریوں کو شہید کیا ہے، لبنان میں بڑی تعداد میں رہائشی عمارات کو تباہ کیا ہے، شام کے بڑے علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، شام کا فوجی انفرااسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس ملک کا ایک بڑا علاقہ جدا کرنے کے درپے ہے اور ایسے ہی بہت سے مجرمانہ اقدامات اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو نہ صرف کسی ملک کی حمایت اور شہہ حاصل نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام حکومتوں کو اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں اس پر سخت پابندیاں عائد کر کے اسے مزید مجرمانہ اقدامات سے روک دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت غاصب صیہونی رژیم کے حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں سزا سنا چکی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں لہذا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکنہ کوشش انجام دیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت نہ صرف اس قانونی ذمہ داری پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ پورے زور و شور سے مجرم صیہونی حکمرانوں کی مدد اور حمایت میں مصروف ہے اور یوں انہیں مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے لیے ضروری مالی اور فوجی وسائل مہیا کر رہی ہے۔ امریکہ کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
2)۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے کی حکومتوں کے معاملات خود ان سے ہی مربوط ہیں اور خطے کے سیکورٹی امور بھی انہی حکومتوں کو سنبھالنے چاہیئں۔ دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے امریکہ کو اس بات کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اور مثال کے طور پر لبنان حکومت کی ذمہ داریوں کا تعین کرے؟ یہ مداخلت لبنان کی حکومت اور قوم کی سب سے بڑی توہین ہے اور لبنان کی رائے عامہ بھی اپنے معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالف ہے۔ جیسا کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کے مخالف ہے اور انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو ان کے ادا کیے گئے ٹیکسز کو اسرائیل کو بم اور فوجی ہتھیار فراہم کرنے میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی یہ امریکی پالیسی غلط ہے۔
3)۔ امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔