لبنانی وزیر خارجہ نے ایران کا اہم دورہ مؤخر کردیا، وجہ کیا بنی؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
لبنان کے وزیر خارجہ یوسف راجی نے کہا ہے کہ انہوں نے فی الحال ایران کا دورہ کرنے کی دعوت مؤخر کر دی ہے اور اس کے بجائے کسی باہمی طور پر طے شدہ غیر جانبدار تیسرے ملک میں ایران کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دی ہے۔
یوسف راجی نے دورۂ ایران نہ کرنے کی وجہ موجودہ حالات کو قرار دیا تاہم اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس فیصلے کا یہ مطلب نہیں کہ لبنان ایران کے ساتھ بات چیت سے انکار کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب، ایران اور چین کا بیجنگ معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے عزم کا اعادہ
واضح رہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے گزشتہ ہفتے لبنانی وزیر خارجہ کو دعوت دی تھی تاکہ دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کی جا سکے۔
لبنانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان ایران کے ساتھ تعمیری تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے تیار ہے، تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ تعلقات باہمی احترام، دونوں ممالک کی آزادی اور خودمختاری کے مکمل اعتراف اور کسی بھی بہانے سے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں پر قائم ہوں۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات کی طرف بظاہر اشارہ کرتے ہوئے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ایران کی اتحادی مسلح تنظیم ہے، یوسف راجی نے کہا کہ کوئی مضبوط ریاست اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک ہتھیار رکھنے کا مکمل اختیار صرف حکومت کے پاس نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ پر حملے تیز کرنے کی دھمکی دے دی
حزب اللہ، جو ایک عرصے تک لبنان میں ایک طاقتور سیاسی قوت اور ریاستی معاملات میں اثر و رسوخ رکھتی تھی، گزشتہ سال اسرائیلی حملوں کے باعث شدید طور پر کمزور ہو گئی تھی، جن کا اختتام امریکا کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر ہوا۔
اس کے بعد حزب اللہ پر اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کرے اور تمام اسلحہ ریاستی کنٹرول میں دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران دورہ لبنان وزیر خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران ایران کے حزب اللہ
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ "برستی آگ تلے مذاکرات" کسی صورت قابل قبول نہیں، ولید جنبلاط
لبنانی اسپیکر پارلیمنٹ کیساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے لبنانی دروزی رہنما نے "جنوبی لبنان میں طمع و لالچ" پر مبنی تل ابیب کے "قدیمی عزائم" پر خبردار کیا اور تاکید کی ہے کہ "برستی آگے تلے" اسرائیل کیساتھ مذاکرات کسی صورت قابل قبول نہیں! اسلام ٹائمز۔ لبنان کی ترقی پسند سوشلسٹ پارٹی کے سابق سربراہ و معروف دروزی رہنما ولید جنبلاط نے پارٹی کے موجودہ سربراہ تیمور جنبلاط کے ہمراہ عین التینا میں لبنانی اسپیکر پارلیمنٹ نبیہ بری کے ساتھ ملاقات کی ہے جس میں لبنان کے ساتھ ساتھ خطے بھر کی عمومی و سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ رأی الیوم کے مطابق اس ملاقات کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ولید جنبلاط کا کہنا تھا کہ ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں جبکہ مذاکرات کے بارے مَیں پہلے بھی اپنی ذاتی رائے دے چکا ہوں۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ مختلف شعبوں میں یا مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات جائز ہیں لیکن ہم اس بات کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے کہ ان مذاکرات کو "برستی آگ تلے" انجام دیا جائے۔
دروزی سیاسی رہنما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات کو منظم کرنے والا معاہدہ وہی جنگ بندی معاہدہ ہے کہ جس پر ہم عمل پیرا ہیں حالانکہ 1949 کی جنگ بندی کے حالات آج سے بہت زیادہ مختلف تھے کیونکہ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سیاسی، فوجی و الیکٹرانک پیشرفت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے لیکن پھر بھی ہم زمینی اصولوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ جب میں زمین کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب سطح اور اس کے نیچے کا حصہ ہے، اور حتی یہ کہ اگر آج کا موسم سرما "بلا بارش" بھی ہو تو بھی ہمیں "لیطانی کے پانیوں" اور "دیگر وسائل" سے متعلق "اسرائیل کے قدیمی طمع و لالچ" کو ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ اس "تاریخی حافظے" کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے جبکہ میں اپنے رہنما، دوست اور تاریخی اتحادی نبیہ بری کے ساتھ اس دوستانہ اور گرم ملاقات کے بعد "اسی بات" کا اظہار کرنا چاہتا ہوں!
اسرائیل کے دوستانہ و اقتصادی تعلقات کی استواری کے بارے مذاکرات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ولید حنبلاط نے کہا کہ دیکھیں، واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر نے دوستانہ تعلقات کے حوالے سے بات کی ہے.. اول تو ہم جنگ بندی پر پابند ہیں.. دوم ہم انہی اصولوں پر واپس پلٹتے ہیں کہ جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا.. یاد کریں کہ ہم نے سال 2002 کے بیروت عرب سربراہی اجلاس میں کیا کہا تھا؟.. یا عربوں نے کیا کہا تھا؟.. اور وہ ابھی اس لمحے تک کیا کہہ رہے ہیں؟.. "امن کے بدلے زمین"!!
ہتھیاروں پر لبنانی حکومت کی اجارہ داری اور اسرائیلی جارحیت کے تسلسل کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ولید جنبلاط نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم، لبنانی فوج کو مضبوط بنانے اور جنوب میں، دریائے لیطانی کے جنوب میں ہتھیاروں کو محدود کرنے اور جنوبی سرزمین پر حکومتی خودمختاری کو مستحکم کرنے کے لئے جو اقدامات چل رہے ہیں، سے متفق ہیں.. جس کے بعد بعد ان اقدامات کو پوری لبنانی سرزمین میں پھیلا دیا جانا چاہیئے! لبنانی سیاسی رہنما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مت بھولئے کہ لبنانی فوج کو کہاں سے مدد ملتی ہے، صرف واحد ملک کہ جو بہت ہی کم مالی امداد فراہم کرتا ہے قطر ہے.. ہمیں مزید فوجیوں کی بھرتی کے لئے مدد کی ضرورت ہے.. ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ مزید 1 سال کے بعد جنوبی لبنان عالمی فورسز سے خالی ہو جائے گا لہذا ہمیں مزید فوجیوں کی ضرورت ہے.. جنوبی سرزمین کے لئے.. لبنان - شام سرحد کے لئے یا اس کے دوسرے حصوں کے لئے..
امریکی ایلچی ٹام بارک کے اس بیان کہ حزب اللہ لبنان کو "غیر مسلح" کرنے کی "کوئی ضرورت ہی نہیں" بلکہ اس اسلحے کے استعمال کو روکنا ضروری ہے، کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ولید جنبلاط نے مزید کہا کہ فی الحال تو "شکل" کے بارے بات کی جا رہی ہے جبکہ "مواد" کے لحاظ سے 5 رکنی کمیٹی موجود ہے.. ہم بھی اسی کے بیانات و طریقہ کار پر اکتفاء کرتے ہیں!