پاکستانی شوبز انڈسٹری کے فنکار اپنی حقیقت پسندانہ اداکاری اور سوشل میڈیا پر سنجیدہ تاثر قائم رکھنے کے باعث عوام میں بے حد مقبول ہیں، تاہم بعض اوقات وہ ایسے بیانات بھی دیتے ہیں جو تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ چار شادیوں کا موضوع انہی میں سے ایک ہے جس پر کئی مشہور شخصیات نے حیران کن اور متنازع آراء پیش کی ہیں۔

پاکستانی قانون کے مطابق کوئی مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتا، تاہم اسلام میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ یہی تضاد بحث اور ریٹنگ بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ حال ہی میں متعدد پاکستانی اسٹارز نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو خاصی توجہ کا مرکز بن گئے۔

4 شادی مرد کا حق ہے‘

اداکار دانش تیمور جو اپنے ڈراموں اور اہلیہ عائزہ خان کے ساتھ کامیاب ازدواجی زندگی کے باعث لاکھوں مداحوں کے محبوب ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 4 شادی کرنا مرد کا شرعی حق ہے۔ اگر کوئی مرد ایسا نہیں کرتا تو یہ اس کی ذاتی پسند ہے، مگر اسے اس حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بیان عائزہ خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیا گیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی اور دانش تیمور کئی دن تک ٹرینڈ کرتے رہے۔

’حرام تعلقات کے بجائے نکاح بہتر ہے

اداکارہ سائمہ قریشی نے حالیہ بیانات میں کہا کہ مردوں کو اگر دوسری شادی کی ضرورت محسوس ہو تو یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے مطابق آج کل معاشرے میں غیر ازدواجی تعلقات عام ہوچکے ہیں، اس لیے اگر کوئی مرد دوبارہ نکاح کرتا ہے تو یہ زیادہ بہتر اور حلال طریقہ ہے۔

’اگر مرد مالی طور پر مضبوط ہو تو چار شادیاں ٹھیک ہیں‘

اداکارہ حرا سومرو نے ایک پوڈکاسٹ میں کہا کہ اگر کوئی مرد جسمانی طور پر صحت مند ہے اور مالی طور پر چار بیویوں کی کفالت کرسکتا ہے، تو اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے شوہر دوبارہ شادی کرنا چاہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، بشرطیکہ وہ مالی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔

’بیوی اللہ کی نعمت ہے‘

سابق کرکٹر شاہد آفریدی، جو پانچ بیٹیوں اور دو نواسوں کے والد و دادا ہیں، سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ دوسری شادی کریں گے؟ ایک پرانے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کی شادی والدین نے طے کی تھی اور ابتدا میں وہ سوچتے تھے کہ اگر رشتہ نہ چلا تو وہ دوسری شادی کریں گے، مگر ان کی اہلیہ نادیہ آفریدی ان کے لیے نعمت ہیں، اس لیے اب ان کی کوئی خواہش نہیں کہ وہ دوبارہ نکاح کریں۔

’اسلام نے اجازت دی ہے، حکم نہیں‘

اداکارہ فزا علی نے ایک شو میں کہا کہ مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ضرور ہے، مگر یہ فرض نہیں۔ اسلام نے یہ اجازت اس لیے دی کہ بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مند عورتوں کو سہارا دیا جا سکے، لیکن آج کے مرد اکثر نئی دلچسپیوں کے باعث شادیاں کرتے ہیں، جو کہ انصاف کے منافی ہے۔ فزا نے کہا کہ اگر کوئی مرد دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے تاکہ وہ بھی آزاد زندگی گزار سکے۔

محبت ایک عورت سے، نظر دوسری پر کیوں؟‘

اداکار و میزبان یاسر حسین نے اس موضوع پر منفرد مؤقف دیا۔ ان کے مطابق انہوں نے ایک عورت سے محبت کی اور اسی سے شادی کی۔ “جب ایک عورت سے محبت ہے تو دوسری کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت؟” ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر کیسز میں دوسری شادی کرنے والی خواتین معاشی تحفظ کے لیے ایسا کرتی ہیں، محبت کی بنیاد پر نہیں۔

3 شادیاں کرنے والا، مگر دوسروں کو ایک پر قناعت کا مشورہ

اینکر اقرار الحسن، جن کی 3 شادیاں ہوچکی ہیں، اس موضوع پر اکثر سوالات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی 2 بیویاں قرت العین اقرار اور عروسہ اقرار ایک ہی گھر میں رہتی ہیں، جبکہ تیسری بیوی فرح اقرار الگ رہائش پذیر ہیں۔ اقرار کا کہنا ہے کہ ان کی ذاتی صورتحال عام نہیں، اس لیے وہ دوسروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایک شادی ہی کریں کیونکہ انصاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اسلام نے چار کی حد مقرر کی، آزادی نہیں‘

اداکار فیصل قریشی، جو مذہبی پہلوؤں پر مطالعہ رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کو جائز ضرور قرار دیا مگر ان پر سخت شرائط بھی لگائیں۔ اگر کوئی مرد انصاف اور برابری نہیں کرسکتا تو اسے ایک پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق یہ اجازت ایک “ذمہ داری” ہے، نہ کہ ایک “آزادی”۔

’ایک شادی کافی ہے‘

اداکار حمزہ علی عباسی نے چار شادیوں پر سب سے متوازن رائے دی۔ ان کے مطابق اسلام نے مخصوص حالات میں چار شادیوں کی اجازت دی، خصوصاً بیواؤں اور یتیموں کے سہارا دینے کے لیے۔ لیکن وہ خود ایک شادی کو کافی سمجھتے ہیں اور اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

4شادیاں we news پاکستانی سیلیبریٹیز حمزہ علی عباسی دانش تیمور شاہد آفریدی فضا علی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 4شادیاں پاکستانی سیلیبریٹیز حمزہ علی عباسی دانش تیمور شاہد ا فریدی فضا علی اگر کوئی مرد ان کے مطابق چار شادیوں میں کہا کہ اسلام نے کی اجازت کے لیے کہ اگر اس لیے نے ایک

پڑھیں:

احتجاجی تحریک کا ماحول

پاکستان میں ویسے تو حالات نارمل ہیں۔ ملک میں کوئی ہیجان نہیں ہے۔ سڑکیں پر امن ہیں۔ لوگ آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالات پر امن ہیں۔ سیاسی استحکام بھی ہے۔ سیاسی طور پر ریاست کو کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ پارلیمان کام کر رہی ہے۔ قانون سازی بھی ہو رہی ہے۔ آئین سازی بھی ہو رہی ہے۔ چاروں صوبائی حکومتیں بھی کام کر رہی اور مستحکم ہیں۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مستحکم حکومت ہے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنا وزیر اعلیٰ نہائت آرام سے تبدیل کیا ہے۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔ بلوچستان میں ویسے تو اسٹبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت ہی ہوتی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ سب کی مرضی کی حکومت ہے۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔

کیا پنجاب میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلنے کے امکانات ہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پنجاب سیاسی طور پر پر امن نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے عوام کسی بھی سیاسی عدم استحکام کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لوگ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ سندھ میں بھی امن ہے۔ کراچی میں بالخصوص کسی بھی سیاسی جماعت میں تحریک چلانے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ تحریک انصاف بھی کراچی میں احتجاج کرنے میں ناکام ہے۔

اگر دیکھا جائے تو کراچی سیاسی طور پر خاموش ہے۔ اس وقت کوئی سیاسی جماعت کراچی کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اس لیے کراچی جہاں سے احتجاج جنم لیتا تھا۔ پر امن ہے۔ وہاں کرائم ہے۔ لیکن کرائم کم بھی ہوا ہے۔ لیکن جب لاہور اور کراچی کا تقابلی جائزہ ہوتا ہے۔ تو لاہور آگے نظرآتا ہے۔ اس حوالے سے کراچی کے لوگ پریشان ضرور ہیں۔ وہ کراچی میں ترقی چاہتے ہیں۔مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لاہور سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کراچی میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلا سکے۔

کے پی میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وہاں کے لوگ امن چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی طور پر کے پی کسی سیاسی تحریک کے لیے تیار نہیں ہے۔ حال ہی میں 7دسمبر کو پشاور میں ہونے والا جلسہ بھی کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا۔ حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی وجہ دے دی تھی۔ لیکن لوگ باہر نہیں نکلے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو یہ پتہ چل گیا ہوگا کہ لوگ فوج کے خلاف باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ امن چاہتے ہیں۔ لوگ وہاں مزید بد امنی نہیں چاہتے ہیں۔

پشاور پر امن ہے۔ وہاں کوئی سیاسی تحریک نظر نہیں آرہی جن علاقوں میں دہشت گردی کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں امن ہے۔ یہ امن تحریک انصاف کی سیاست کے لیے پیغام ہے کہ لوگ کسی سیاسی جماعت کے لیے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ چند دن پہلے ایک احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ صوابی انٹر چینج پر لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ لیکن کتنے لوگ تھے، چند سو۔ بڑی تعداد میں لوگ تب بھی باہر نہیں نکلے۔ بات سمجھیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ سیاسی اجتماعات اور احتجاج کے لیے سرکاری وسائل استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی احتجاجی طاقت کافی کم ہوگئی ہے۔ اسی لیے سات دسمبر کے جلسہ میں کوئی اگلا لائحہ عمل نظر نہیں آیا ہے۔ ایک خاموشی ہے۔

بلوچستان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ لیکن سیاسی طورپر بلوچستان پر امن نظر آتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ وہاں احتجاجی تحریک کے حالات ہی نہیں ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں بلوچستان یکجہتی کونسل جن کو دہشت گرد جماعتوں کا سیاسی ونگ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی کوئی سیاسی احتجاج نہیں کر سکی ہیں۔ ماہ رنگ کی گرفتاری پر بھی کوئی بڑاحتجاج نہیں ہوا ہے۔

مینگل صاحب کے دھرنے میں بھی کوئی ہزاروں لوگ نہیں آئے تھے۔ حالانکہ وہ ماہ رنگ کے حق میں تھا۔ اس لیے بلوچستان میں تحریک انصاف تو شاید اپنا جود ختم کر چکی ہے۔ وہاں تحریک انصا ف کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی بھی بلوچستان کی کوئی بڑی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ اپنی سیٹ بڑی مشکل سے جیتتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں بلوچستان ان کی ہوم گراؤنڈ تھی۔ لیکن انھیں بلوچستان سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا۔ وہ فوج کے خلاف ہیں۔ لیکن انھیں کوئی عوامی حمائت حاصل نہیں۔ وہ لوگوں کو باہر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

یہ سارا منظر نامہ لکھنے کا مقصد اپنے ان نادان دوستوں کو بتانا ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے۔ عوام پر امن ہیں، کسی سیاسی جماعت کے لیے لوگ سڑکوں پر نہیں ہیں۔ کوئی ہزاروں لوگ اڈیالہ نہیں آتے۔ اس لیے یہ منطق کے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ غلط ہے۔ سیاسی عدم استحکام کب ہوتا ہے۔جب لوگ سڑکوں پر ہوں۔ احتجاج کر رہے ہوں۔ جب پارلیمان کام نہ کر رہی ہو، پارلیمان فعال نہ ہو۔ ایسا کچھ نہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی جو طوفان ہے۔ وہ پاکستان کی سڑکوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہے۔ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام ہیں۔ ُ

ٹرینڈ کے نتیجے میں بھی چند ہزار لوگ بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی اثر نہیں۔ باہر سے شروع ہوتے ہیں۔ باہر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ شاید لوگ تفریح کے لیے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن اثر نہیں لیتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوستوں کی رائے کہ خوف ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں پنجاب میں خوف ہے۔ کے پی کا بتائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کے پی میں بہت غصہ ہے۔ لیکن وہ غصہ کہیں نظر نہیں آیا۔

مجھے پاکستان میں اس وقت کوئی بڑی احتجاجی سیاسی تحریک چلتی نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بتدریج اپنی احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کی طاقت کم کر لی ہے۔ انھوں نے طاقت کو بے جا استعمال کیا ہے۔ جس کا اب انھیں نقصان ہو رہا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ سے ڈی پورٹ ہونے والے رجب بٹ اور ندیم نانی والا کے لیے پاکستانی عدالت کا اہم فیصلہ
  • بانی اور بہنوں کے متنازع بیان سے پی ٹی آئی کا اظہارِ لاتعلقی، ذاتی رائے قرار دے دیا
  • نئے صوبے بنانے کیلئے قومی اسمبلی میں اتفاق رائے موجود ہے، بلاول
  • نئے صوبے بنانے کیلئے قومی اسمبلی میں اتفاق رائے موجود ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • یورپی ملک میں مردوں کی آبادی میں کمی؛ خواتین نے ’کرائے پر شوہر‘ حاصل کرلیے
  • اب کوئی بات نئی بات نہیں
  • احتجاجی تحریک کا ماحول
  • اسلام آبادمیں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کیخلاف جماعت اسلامی سراپا احتجاج‘ تحریک کا آغاز
  • سوشل میڈیا کے کرشمے
  • خواتین میں ڈپریشن کے زیادہ جینیاتی خطرات کا انکشاف