دم نکل گیا تو پولیس والوں نے لاش پر بھی ڈنڈے مارے ، پولیس حراست میں نوجوان کے قتل میں نئے انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
دم نکل گیا تو پولیس والوں نے لاش پر بھی ڈنڈے مارے ، پولیس حراست میں نوجوان کے قتل میں نئے انکشافات WhatsAppFacebookTwitter 0 26 October, 2025 سب نیوز
کراچی (آئی پی ایس) کراچی میں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کی مبینہ حراست میں جاں بحق بہاولپور کے نوجوان عرفان بلوچ کے کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، پولیس نے مقدمے میں نامزد دو اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ واقعے کے خلاف مقتول کے لواحقین نے سہراب گوٹھ پر تابوت اٹھا کر شدید احتجاج کیا جو سات گھنٹے بعد ختم ہوا۔
تفصیلات کے مطابق 22 اکتوبر کو کراچی میں ایس آئی یو پولیس کی حراست میں نوجوان عرفان مبینہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ پولیس سرجن کی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ عرفان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔
ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا کے مطابق دو اہلکار اے ایس آئی عابد شاہ اور کانسٹیبل آصف علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شواہد ملے تو کیس کو دفعہ 302 (ارادتاً قتل) کے تحت تبدیل کیا جا سکتا ہے، جبکہ مزید اہلکار ملوث نکلے تو انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔
پولیس نے سول لائنز تھانے میں ریاست کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں قتلِ خطا (دفعہ 319) اور مشترکہ نیت (دفعہ 34) کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے میں اے ایس آئی عابد، سرفراز، آصف علی، وقار، ہمایوں بیگ اور فیاض علی نامزد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق 22 اکتوبر کو عرفان سمیت چار افراد کو ایس آئی یو نے کینٹ اسٹیشن کے قریب لِلّی برج سے گرفتار کیا۔ بعد ازاں دوران تفتیش عرفان کی حالت بگڑ گئی، اور اسے اطلاع دیے بغیر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ دم توڑ گیا۔
تاہم لواحقین کا الزام ہے کہ پولیس نے عرفان کو رات بھر موبائل وین میں گھمایا، پھر تھانے میں بدترین تشدد کیا۔ عرفان کے چچا اظہر ضیا محمد نے آنکھوں میں آنسو لیے بتایا کہ ”پولیس اہلکاروں نے اسے انسان نہیں جانور سمجھ کر مارا، حتیٰ کہ جب وہ مر گیا تو لاش پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔“
عرفان کے ساتھی نے بھی تصدیق کی کہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اذیت دے کر قتل کیا گیا۔
واقعے کے بعد مقتول کے لواحقین اور علاقہ مکینوں نے سہراب گوٹھ ایدھی سردخانے کے باہر تابوت اٹھا کر دھرنا دیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ احتجاج سات گھنٹے جاری رہا، جس کے باعث مرکزی سڑک بند رہی۔ بعد ازاں پولیس اور لواحقین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے اور دھرنا ختم کر دیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ مقدمہ قاتلوں کی شکایت پر درج کیا گیا ہے، جبکہ ورثا کی درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
ادھر پولیس حکام کا مؤقف ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور کسی اہلکار کو رعایت نہیں دی جائے گی۔ تاہم مقتول کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ کیس کو ’قتلِ خطا‘ کے بجائے ’قتل عمد‘ قرار دینے اور تمام ملوث اہلکاروں کی گرفتاری تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
عرفان بلوچ کی میت بعد ازاں آبائی علاقے بہاولپور روانہ کر دی گئی، جہاں آج اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ کراچی میں پولیس تشدد سے ایک اور بے گناہ جان کے ضیاع نے شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشہید صحافی ارشد شریف کی والدہ انتقال کر گئیں شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ انتقال کر گئیں آزاد کشمیر میں حکومت سازی کیلئے پیپلزپارٹی متحرک، صدر زرداری کا وزیراعظم سے رابطہ چوہدری سالک حسین کے ایک سالہ پرانے کلپ کو توڑ موڑ کر پیش کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے ۔ مصطفیٰ ملک پنجاب پولیس کے ایک اور سب انسپکٹر کی سی ایس ایس امتحان میں کامیابی مودی اڈانی گٹھ جوڑ نے بھارت کو کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا، واشنگٹن پوسٹ کا انکشاف ہنگو حملہ: شہید ایس پی اسد زبیر کے پاس حساس مقام پر جانے کیلئے بلٹ پروف گاڑی نہیں تھیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ڈکی بھائی کی دوران حراست کن دو شخصیات سے ملاقات ہوئی؟ پہلی بار نام سامنے آگئے
پاکستان کے سب سے بڑے یوٹیوبر سعد الرحمان المعروف ڈکی بھائی نے دوران حراست کچھ شخصیات سے ملاقاتوں کا انکشاف کرتے ہوئے اُن کے نام بتا دیے۔
ڈکی بھائی نے اپنے تفصیلی وی لاگ کے بعد اب ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے پلیٹ فارم پر میزبان یاسر شامی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اہم انکشافات کیے۔
یوٹیوبر نے اعتراف کیا کہ اُن کی حراست کے دوران ارشاد بھٹی اور ڈاکٹر عمر عادل سے ملاقات ہوئی تھی۔
سعد الرحمان نے بتایا کہ ارشاد بھٹی نے ایک بار جیل کا دورہ کیا اور میرے بارے میں پوچھ گچھ کی، اُس دوران مجھے ہتھکڑیاں لگا کر سامنے لایا گیا اور مجھے جیل افسر نے کہا تھا کہ یہاں کوئی تمھارا دوست نہیں اور تمھارے مسائل کو صرف سرفراز چوہدری حل کرسکتے ہیں۔
ڈکی بھائی کے مطابق مجھے حوالات سے نکال کر سرفراز چوہدری کے کمرے میں لایا گیا تو انہوں نے فورا میری ہتھکڑی کھلوائی اور ارشاد بھٹی کے سامنے اچھا تاثر دینے کا پیش کیا اور پھر مجھ سے پوچھا بھی کہ کیا دوران حراست تشدد ہوا مگر میں نے انکار کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایک یوٹیوبر کی موجودگی میں ڈکی بھائی سے دوران حراست پوچھ گچھ کی ویڈیو سامنے آگئی
یوٹیوبر کے مطابق اس کے علاوہ ڈاکٹر عمر عادل سے بھی دوران حراست ملاقات ہوئی اور وہ خود قید کاٹ رہے تھے۔ انہوں نے خود مجھ پر ہونے والا تشدد دیکھا اور وہ اس کے عینی شاہد ہیں۔
سعد الرحمان کے مطابق قیدیوں کی شرٹ اتروا کر اُن کی تلاشی لی جاتی تھی اور عمر عادل نے بھی اس کا سامنا کیا جبکہ انہوں نے احتجاج کیا تھا کہ میرا تعلق آرائیں برادری سے ہے۔