قرآنی تلاوت اور دعاؤں نے ونیزہ احمد کو کینسر سے نجات دلائی
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
پاکستان کی معروف سابق ماڈل اور اداکارہ ونیزہ احمد نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کئی سال قبل ابتدائی درجے کے کینسر (لمفوما) میں مبتلا ہوئیں، لیکن دعاؤں، قرآن پاک کی تلاوت اور روحانی عبادات کے ذریعے مکمل طور پر صحت یاب ہو گئیں۔
ونیزہ احمد نے یہ بات ندا یاسر کے مارننگ شو میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ فیشن کیریئر کے عروج کے دوران مسلسل بیرون ملک سفر کی وجہ سے انہیں شدید سر درد رہنے لگا۔ ابتدا میں ڈاکٹروں نے انہیںمیننجائٹس کا خدشہ بتایا، لیکن بعد میں ٹیسٹ میںلمفوما کینسر کی تشخیص ہوئی۔
اداکارہ کے مطابق،مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ مجھے کینسر ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرز نے کہا یہ ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن میں خوفزدہ تھی۔ پھر میں ایک روحانی خاتون کے پاس گئی جنہوں نے مجھے قرآن پاک کی سورتیں پڑھنے اور دعا کرنے کا مشورہ دیا۔
ونیزہ احمد نے مزید کہا،میں نے کیموتھراپی یا آپریشن نہیں کروایا۔ میں نے صرف دعا، ذکر اور قرآن کی تلاوت پر یقین رکھا۔ چند ہفتوں میں میری رپورٹس مکمل طور پر صاف آئیں اور آج میں بالکل صحت مند زندگی گزار رہی ہوں۔
انہوں نے اپنی تجربے سے سبق دیتے ہوئے کہا کہ **ایمان، صبر اور دعا بیماریوں سے نجات کی سب سے بڑی دوا ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان سے کس طرح لاتعلقی کر سکتے ہیں؟
جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے حکام مذاکرات کا دوسرا دور مکمل کررہے ہیں جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ دونوں حکومتیں کس طرح سے مِل کر ایک ایسا نظام یا میکنزم ترتیب دے سکتی ہیں کہ پاک افغان سرحد سے دہشتگردوں کی دراندازی روکنے کے لیے ایک قابلِ بھروسہ نگرانی کا نظام تشکیل دیا جا سکے۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی جس کا صاف مطلب ہے کہ پاکستان اب دہشتگرد گروہوں کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔
’افغان وزیرِخارجہ کا دعوٰی جو ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا‘9 سے 16 اکتوبر دورہ بھارت کے دوران افغان قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان متقی نے بھارت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں، لیکن دوحہ مذاکرات میں افغانستان نے تسلیم کیاکہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں سے روکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں جاری، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف
افغان وزیرِ خارجہ نے بھارت ہی میں دوسرا دعوٰی یہ کیاکہ افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کو افغانستان سے شکایات نہیں صرف پاکستان ہی بار بار ایسی باتیں کرتا ہے۔ لیکن افغانستان کے پڑوسی وسط ایشیائی ممالک سے آنے والے بیانات افغان وزیرخارجہ کے بیان کی نفی کرتے ہیں۔
افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کارروائیوں کو روکے، پاکستان کا مستقل مؤقف15 اگست 2021 کو جب افغانستان میں طالبان حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو پاکستان میں اس حکومت کو خوش آئند قرار دیا گیا اور نومبر 2021 میں افغان قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان متقی کو اِسلام آباد مدعو کیا گیا۔ گوکہ پاکستان نے باقی اکثریتی ممالک کی طرح سے افغان طالبان حکومت کو ابھی تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن اِس سال 2025 میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ کیا اور ناظم الاُمور سے بڑھا کر وہاں سفیر تعینات کیا گیا، اور اِسی طرح افغانستان نے بھی پاکستان میں اپنے سفیر کو تعینات کیا۔
پاکستان کی توّقعات کے برعکس افغان طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں مسلسل اِضافہ دیکھنے میں آیا جس کا بڑا ذریعہ ٹی ٹی پی تھی جو دہشتگرد حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی رہی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے پچھلے 4 سال کے بیانات میں ایک چیز متواتر نظر آئے گی کہ افغانستان، پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روکے لیکن افغان حکومت مُصر رہی کہ پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں افغان سرزمین کا استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن بالآخر دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت نے یہ تسلیم کیا۔
افغان طالبان ٹی ٹی پی سے لاتعلق نہیں ہو سکتے، طاہر خانافغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی سے لاتعلق ہو جائیں کیوں کہ دونوں کے درمیان ماضی میں گہرا تعلق اور واسطہ رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دونوں میں ایک فرق ضرور ہے کہ ٹی ٹی پی والے افغانستان کو امارتِ اِسلامیہ، ان کے امیر کو امیر کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دونوں نے اکٹھے جنگ لڑی ہے لیکن افغانستان والے طالبان ایسا نہیں کہتے اُن کی پبلک پوزیشن ٹی ٹی پی سے مختلف ہے لیکن دونوں میں ایک تعلق تو ہے اور بڑا پُرانا تعلق ہے۔
’2001 میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو تمام طالبان بھاگ کر پاکستان ہی آئے تھے۔ اُس وقت بارڈر پر باڑ نہیں لگی تھی۔ سرحدیں کُھلی تھیں اور آسانی سے آیا اور جایا جا سکتا تھا۔ جب افغان طالبان آئے تو یہاں کے لوگوں نے اُنہیں پناہ دی، اُن کی مہمان نوازی کی۔‘
انہوں نے کہاکہ پاکستان طویل عرصے سے افغان طالبان سے کہتا چلا آیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں جو وہ نہیں کر رہے تھے لیکن اب صورتحال مختلف ہو گئی ہے۔ اب قطر اور ترکیہ ان مذاکرات میں شامل ہو گئے ہیں۔ پہلے دوحہ میں مذاکرات ہوئے اور اب استنبول میں ہو رہے ہیں تو دو ملکوں کی گارنٹیز جب اِس عمل میں شامل ہو جائیں گی تو طالبان کو ماننا پڑے گا۔
طاہر خان نے کہاکہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے قطع تعلقی تو نہیں کر سکتے لیکن اُن کو پاکستان میں دہشتگردی سے روک سکتے ہیں اور اِسی چیز کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں مذاکرات ہو رہے ہیں جہاں پاکستان کا افغان طالبان سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو روکا جائے اور طالبان حکومت اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔
افغان طالبان کے لیے مسلح گروہوں سے جان چھڑانا ناممکن ہے، فخرکاکاخیلمعروف صحافی اور افغان امور کے ماہر فخر کاکاخیل نے اپنے ایک حالیہ میڈیا انٹرویو میں کہاکہ افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی، ایسٹ ترکستان موومنٹ، جماعتِ انصار اللہ، جیش العدل اور القاعدہ کے لوگوں سے پیچھا چھڑانا قریباً ناممکن ہے، کیونکہ یہ تنظمیں تحریک طالبان پاکستان سے متاثر اور اپنے اپنے ٹارگٹ علاقوں میں طالبان طرز کا اِسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ لوگ افغان طالبان سے کہتے ہیں کہ ہم نے آپ لوگوں کے قربانیاں دی ہیں، آپ لوگوں کے ساتھ مِل کر لڑے ہیں، اب آپ ہمارے ساتھ مل کر لڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اِس حوالے سے مکمل واضح پوزیشن ہے، تاہم اصل مسئلہ سیاسی اونرشپ کا ہے۔
’سیکیورٹی آپریشنز کا کامیاب ماڈل سوات آپریشن تھا‘’سیکیورٹی آپریشنز کا کامیاب ماڈل سوات آپریشن تھا کیونکہ اُس وقت خیبرپُختونخوا کی حکمران جماعت اے این پی اور وفاق میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی دونوں فوج کے ساتھ مِل گئی تھیں۔‘
وی نیوز کے ساتھ اپنے ایک گزشتہ خصوصی انٹرویو میں فخر کاکا خیل کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جس طرح ہمارے لیے مسئلہ ہے بالکل ویسے ہی تاجک طالبان، تاجکستان کے لیے مسئلہ ہیں، لیکن تاجکستان میں بڑی سخت آمریت ہے، جبکہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر لمبی سرحد ہے جس کی مکمل نگرانی ممکن نہیں۔
انہوں نے کہاکہ افغان طالبان کا ایجنڈا گلوبل نہیں لیکن ٹی ٹی پی میں کچھ عناصر ایسے ہیں جن کا ایجنڈا گلوبل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح سے لڑ کر افغان طالبان نے افغانستان میں شریعت نافذ کی اسی طرح سے پاکستان میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
’ایسا نہیں ہے کہ افغان طالبان نے انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کی، افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالیں گے تو وہ داعش میں جاسکتے ہیں۔ اگر افغان طالبان کا وفد ایران جاتا ہے تو داعش اس چیز کو بطور پروپیگنڈا استعمال کرتی ہے کہ یہ امریکا کے لائے ہوئے لوگ ہیں، افغان طالبان کو زیادہ خطرہ اسی کے کچھ سرحدی علاقوں سے ہے۔‘
افغان طالبان کی امن کی خواہش پر شک کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، سفارتکار جاوید حفیظپاکستان کے سابق سفیر جاوید حفیظ نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے چار سال جس طرح سے ہمارا افغان طالبان رجیم کے ساتھ تعلق رہا، اُس سے اُمید کم ہی رکھی جا سکتی ہے کہ افغان طالبان حکومت امن کی خواہش رکھتی ہو لیکن اس بار ہم دیکھتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم نے جو وعدے کیے ہیں آیا وہ اُن پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، اس بار اُنہوں نے امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ہمیں اِس پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
جاوید حفیظ نے کہاکہ غیر مُلکی عناصر پاک افغان جنگ بندی معاہدے کے خلاف کام کر سکتے ہیں اور اِسے ختم کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں جن میں سب سے پہلے ہمارا مشرقی ہمسایہ بھارت ہے جو اِس معاہدے کو ختم کرانے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ بھارت نہ صرف افغان طالبان بلکہ دہشتگردی کے لیے ٹی ٹی پی سے بھی براہِ راست رابطے کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews استنبول مذاکرات افغان بارڈر افغان طالبان ٹی ٹی پی دہشتگردی دوحہ معاہدہ وی نیوز