Jasarat News:
2025-12-12@03:34:47 GMT

چینی مافیا، حکومتی ایوانوں سے منڈیوں تک پھیلا منظم کھیل

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251027-03-3
پاکستان میں چینی ایک بار پھر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر دس روپے فی کلو اضافہ اس بات کا اعلان ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان کے پیچھے کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی ہے۔ چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے قیمتوں میں کمی کے تمام دعوے اور اقدامات ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو ہر دورِ حکومت میں عوام کے خون پسینے سے کماتے ہیں، اور ریاست ان کے سامنے بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں چینی بحران نے سر اٹھایا ہو۔ ہر چند سال بعد یہی کہانی نئے اور پرانے کرداروں کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔ کبھی کسی حکومت کے وزیر ِ خزانہ، کبھی کسی وزیر ِ صنعت، اور کبھی خود وزرائے اعلیٰ کے خاندان اس بحران کے تانے بانے میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں چینی مافیا صرف منڈیوں تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیں براہِ راست حکومتی ایوانوں، سیاسی جماعتوں اور اثر رسوخ رکھنے والے خاندانوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ نے اس بار ایک بار پھر اسی تلخ حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن، ہی اس بحران کی اصل ذمے دار ہے۔ رپورٹ کے مطابق مل مالکان نے منڈی میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا، چینی بیرونِ ملک برآمد کی، اور جب ملک میں قلت پیدا ہوئی تو وہی چینی زیادہ قیمتوں پر درآمد کر کے بیچی گئی۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں ایک طرف عوام کا استحصال کیا گیا اور دوسری جانب حکومتی پالیسیوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ چینی درآمد پر ٹیکس میں 48 فی صد سے کمی کر کے محض 0.

5 فی صد کر دیا گیا، مگر قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ بحران مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا، اور حکومت کے اندر موجود کچھ بااثر عناصر نے اس میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ یہ وہی مافیا ہے جس کا دائرہ شوگر ملز سے نکل کر پارلیمان، بیوروکریسی اور سرمایہ دارانہ نیٹ ورک تک پھیلا ہوا ہے۔ چینی مافیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومت نے اس کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا، نتیجہ یا تو محض بیانات کی حد تک محدود رہا یا پھر رپورٹیں دبادی گئیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں، مگر نتائج وہی رہتے ہیں۔ یہی مافیا اپنی دولت، رشتے داریوں اور سیاسی روابط کے بل پر ہر حکومت کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی حزبِ اقتدار میں ہو یا حزبِ اختلاف میں، چینی کے کارخانے اور ان کے منافع کے تحفظ پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں چینی صرف ایک روز مرہ کے استعمال کی چیز نہیں ہے بلکہ پاور گیم کا اہم ہتھیار بن چکی ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’چینی کا معاملہ صرف ایک کموڈیٹی نہیں، یہ پاور اور پالیسی کا کھیل ہے‘‘۔ جب تک حکومت اس کھیل کے قواعد نہیں بدلتی، عوام ہمیشہ اس کے مہرے بنے رہیں گے۔ چینی مافیا کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرمایہ دار نہیں بلکہ پالیسی ساز بھی ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمان میں بیٹھ کر اپنے لیے قوانین بناتا ہے، حکومت کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنی اجارہ داری کو قانونی تحفظ دلواتا ہے۔ پاکستان میں چینی بحران دراصل نظام کی اس کمزوری کا مظہر ہے جہاں احتساب کا نظام صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ اگر کوئی عام دکاندار ذخیرہ اندوزی کرے تو پولیس فوراً حرکت میں آتی ہے، مگر جب کوئی شوگر مل مالک ہزاروں ٹن چینی غائب کر دے تو پورا نظام خاموش ہو جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ملک میں انصاف کے فقدان اور عوامی اعتماد کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ چالیس ہزار میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ ہر وقت موجود رہنا چاہیے تاکہ بحران کی صورت میں عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ یہ ایک درست تجویز ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس ذخیرے کی نگرانی بھی انہی مافیا کے ہاتھ میں ہوگی جو آج قیمتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو یہ اقدام بھی صرف فائلوں میں رہ جائے گا۔ حکومت اگر واقعی چینی مافیا کے خلاف سنجیدہ ہے تو اسے محض بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ، ایف بی آر، اور وزارتِ صنعت میں موجود ان افراد کی نشاندہی کی جائے جو اس کھیل کے سہولت کار ہیں۔ ان ملوں کے مالکان کے مالی گوشوارے، برآمدی معاہدے اور سبسڈی کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ جب تک شفافیت نہیں ہوگی، اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام اس وقت مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چینی ہو، آٹا ہو، بجلی ہو یا پٹرول، ہر بحران کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک کام کرتا ہے جس کی رسی بالآخر انہی لوگوں سے ملتی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ یہی وہ ’’مافیا کلچر‘‘ ہے جس نے ریاست کے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو چینی کا بحران کل گندم، تیل اور ادویات کے بحران کی شکل میں پھر سر اٹھائے گا۔ قوم اب صرف تحقیقات نہیں بلکہ نتائج چاہتی ہے، ان لوگوں کے نام، ان کے احتساب، اور ان کے خلاف عملی کارروائی چاہتی ہے۔

سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان میں چینی چینی مافیا حکومت کے یہ ہے کہ

پڑھیں:

سہیل آفریدی کا سخت ردعمل: ’فیض حمید کی سزا ادارے کا کام—اصل کھیل تو بانی PTI کو مائنس کرنے کا ہے

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہےکہ فیض حمید ایک ادارےکے ملازم تھے، اگر کسی معاملے پر فیض حمیدکو سزا ہوئی ہے تو یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے آئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان اور اداروں کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں، صاحب اختیار لوگ اگر سمجھتے ہیں تو ہمارے ساتھ مذاکرات کریں، مذاکرات کا اختیار بانی نے محمود اچکزئی اور راجہ ناصر عباس کو دیا ہے، محمود خان اچکزئی کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ ایک وزیر اعلیٰ کو عدالتی احکامات کے باوجود ملنے نہیں دیا جارہا، پرسوں بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کے ساتھ جو ہوا وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے احکامات پر کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو ناحق قید رکھا گیا ہے، یہ لوگ تصدیق شدہ چور ہیں، جب ہماری حکومت آئےگی تو اس کا حساب کتاب کیا جائےگا۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال سے کوشش کی جارہی ہے مائنس بانی پی ٹی آئی کیا جائے، یہ 1947 سے ایک ہی نسخہ بار بار آزماتے ہیں، 9 اپریل 2022 سے ان کا واسطہ ایسی قوم سے پڑا ہے جو بانی پی ٹی آئی سے عشق کرتی ہے، ہم آزاد عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں، یہ کون ہوتے ہیں کہ ہمیں بتائیں کہ کس وقت تک بیٹھنا ہے اور کس وقت تک نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ نوجوان پاکستان سے بھاگ رہے ہیں، ساڑھے تین سال سے کیا جانے والا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • منظم جرائم ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں،جسٹس گل حسن
  • کھلی کچہر ی میں تاجر کیساتھ توہین آمیز رویہ، سائٹ ایسوسی ایشن کی مذمت
  • حکومتی زرعی پالیسی مکمل طورپر ناکام ہو چکی ‘ کسان بورڈپاکستان
  • سہیل آفریدی کا سخت ردعمل: ’فیض حمید کی سزا ادارے کا کام—اصل کھیل تو بانی PTI کو مائنس کرنے کا ہے
  • عوامی شکایات میں اضافہ حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے،جاوید قصوری
  • ہوائی بحران کی کریش لینڈنگ
  • حکومتی ٹیکسوں اور بجلی ٹیرف میں کمی لائی جائے‘ پاکستان بزنس فورم
  • باپ بیٹے کی شاندار جوڑی نے ’ہنگری ہنگری ہِپوز‘ سب سے کم وقت میں کلیئر کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا
  • ڈمپر و ٹینکر مافیا کو لوگوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے، کاشف سعید شیخ
  • قانون کی خلاف ورزی کے بعد کسی کی عمران سے ملاقات کا ایک فیصد امکان نہیں: عطاء تارڑ