کیا ہم ایک بے بس، لاچار قوم ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
ہم نے بہت سی باتوں کو ایسے قبول کر لیا تھا کہ جیسے یہ ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔ ان میں نہ کسی تبدیلی کا امکان ہے نہ کسی طرح کا ردو بدل ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی ناکامیوں کو کبھی حالات کا نام دیتے رہے، کبھی مقدر کے نام سے پکارتے رہے اور کبھی اس کو قسمت کا دھندا قرار دیتے رہے۔ اس خود ساختہ مقدر سے لڑنے کا نہ کبھی ہمیں خیال آیا نہ ہم نے حالات کو بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ واقعات ہوئے جنہوں نے مجموعی یاسیت کے تصور کو ہی بدل دیا۔ قسمت کا ستارہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا اور مقدر کا اشارہ ہماری مرضی سے ہونے لگا۔
خواتین کے ساتھ سڑکوں گلیوں میں زیادتی کرنا، ان پر جملے کسنا، ان کو چھیڑ کر فرار ہو جانا ، ان کے جسم کو بنا ان کی مرضی کے ہاتھ لگانا ایسا خوفناک واقعہ تھا جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر بہن بیٹی والا شخص خوفزدہ رہتا تھا کہ ان کے جان کے ٹکڑے جب گلی میں نکلیں گے تو کتنے درندے انہیں بھنبھوڑںے کے لیے تیار بیٹھے ہوں گے۔ کتنے اپنے ناپاک ہاتھ ان سپارہ پڑھتی، اسکول جاتی ننھی معصوم بچیوں کو لگائیں گے۔ کتنی بچیاں اس خوف سے اسکول، کالج جانا چھوڑ دیں گی۔ کتنے بدبخت نازیبا وڈیو بنا کر لڑکیوں کو بلیک میل کریں گے۔ یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا تھا اور ہم قسمت کو کوسنے، سماج کو گالی دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہے تھے۔
پھر بھلا ہو پنجاب حکومت کا جس نے وڈیو فوٹیج سے ڈھونڈ کر ان شیطانوں کی وڈیوز نکالیں، ان کے چہرے پہچانے اور ان کے نیفے میں پستول چلنا شروع ہوئے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے سب کو پتہ کہ قانون کے تحت نہیں ہو رہا لیکن سب بچیوں والے خوش ہیں کہ جرم اگر یہ ہے تو پھر قانون بھی یہی ہے۔ حکومت نےکوشش کی اور ایک سنگین جرم دنوں میں کم ہونے لگا۔
شدت پسند مذہبی جماعتیں ایک مدت سے اس ملک میں خوف کی علامت رہی ہیں۔ یہ مذہب کی تعلیم کے بجائے بلیک میلنگ کے پریشر گروپس بن گئیں۔ ان کی زبان پر نام مذہب کا اور ہاتھوں میں چندے کی صندوقچی اور بغل میں نعرہ کفر کے فتوے کا ہوتا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو اپنی سڑیٹ پاور سے ڈرایا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان کے سامنے بولے۔ یہ کبھی معصوم مسلمانوں کو کافر قرار دیتے، کبھی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے اور کبھی پولیس والوں کو قتل کرتے۔ سب ان سے خوفزدہ تھے۔ پولیس، حکومت حتی کہ استیبلشمنٹ بھی ان سے ٹکرانے سے اجتناب کرتی۔ کیونکہ یہ مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے۔ کفر کے فتوے سے سب کی جان جاتی لیکن پھر پنجاب حکومت نے اپنی رٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔ انڈین کرنسی برامد کی۔ ان کے غنڈوں کو گرفتار کیا۔ پولیس پر تشدد کے حوالے سے ان پر مقدامات درج کروائے۔ نقصِ امن پر ایف آئی آرز کروائی گئیں۔ ان پر پابندی لگانے کی سفارشات کی گئی اور دنوں میں وفاقی حکومت نے ان پر پانندی لگا دی۔
ایک فتنہ ختم ہوا، مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ریت ختم ہوئی۔ کفر کے فتوے لگنے کی رسم بند ہوئی۔ ریاست نے فیصلہ کیا تو پھر نتائج آنے لگے۔ خوف زدگی کے حصار سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ قسمت کو دوش دینا بند کیا جائے اور واقعات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی جائے۔
ایک مدت سے پاکستان مِں دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہمارے بچے ذبح ہوئے۔ ہماری عورتیں بیوہ ہوئیں۔ ہمارے نمازی شہید ہوئے۔ ہماری بچیاں یتیم ہوئیں۔ ہمارے بزرگوں نے جوانوں کے جنازےاٹھائے مگر ہم اس سلسلے میں سوائے تعزیتی بیانوں کے کچھ نہیں کر پائے۔ دشمن کی کمر توڑنے کے دعوے تو کیے مگر دشمن نے ہر بار ہماری کمر توڑ دی، سب کو پتہ تھا یہ دہشتگردی افغانستان کے دہشتگرد گروپس کر رہے ہیں۔ سب کو پتہ تھا کہ خود کش بمبار کہاں سے آتے ہیں مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ بس! تعزیت کرنے اور ماتم کرنے کی سکت کے سوا ہم میں کچھ ہمت نہیں تھی۔
پھر ریاست نے فیصلہ کیا۔ بھائی بھائی کا نعرہ ترک کیا۔ ان احسان فراموش طالبان کے ساتھ وہ سلوک کرنا شروع کیا جس کا حق دار دشمن ہوتا ہے۔ ان کے گھر میں گھس کر ان کے دہشتگردوں کو سزا دی۔ غیر قانونی رہنے والوں کو دیس نکالا دیا۔ مذاکرات میں بھی عاجزی سے نہیں دلیری کا مظاہرہ کیا۔ تنبیہ بھی کی اور بدلہ بھی لیا۔ دنوں میں مایوسی کی کیفیت ختم ہوئی۔ جرات دکھا کر ہم نے وہ کام کیا جو دہائیوں کے بھائی چارے سے نہ ہو سکا۔
کچھ عرصہ پہلے کا ذکر تھا کہ بھارت اس خطے میں راج کرنے کے دعوے کرتا تھا۔ خطے کا چوہدری دنیا بھارت کو ہی سمجھتی تھی۔ امریکا بھی اسی سے بات کرتا تھا۔ چین کی تجارت کا دارو مدار بھی بھارت پر تھا۔ نیپال بھی اس سے تنگ تھا، سری لنکا میں بھی فسادات انہی کی وجہ سے ہو رہے تھے، کینیڈا میں دہشتگردی اسی کی وجہ سے تھی۔ کشمیر میں بھی اس نے کرفیو لگا رکھا تھا ۔ لیکن کوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کونکہ ہم نے ایک مایوس فرسودگی کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا تھا، پھر معرکہ بنیان المرصوص ہوا۔ 4، 5 دن میں خطے کی خود ساختہ طاقت دھڑام سے نیچے گر پڑی۔ غرور کا سر نیچا ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کا عَلم بلند ہوا۔ اگر وہ جنگ ہم نہ جیتتے تو دنیا اسی طرح بھارت کے قصیدے پڑھتی رہتی، اور کشمیر مِں ہونے والے مظالم کا ذکر کبھی بین الاقومی سطح پر نہ ہوتا۔
ان ساری مثالوں سے ایک بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مایوسی، یاسیت اور خود ترسی سے مملکت کے معاملات نہیں چلتے۔ اپنےحق میں ہاتھ اور ہتھیار دونوں اٹھانے پڑتے ہیں۔ عاجز، بے بس قوم سے ہارڈ اسٹیٹ بننا پڑتا ہے یہ اصول علاقائی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کچھ نہیں کر تھا کہ بھی اس
پڑھیں:
چین: فعال لائٹر شہری کے پیٹ سے 30 سال بعد برآمد
ایمرجنسی گیسٹرو اسکوپی کے بعد ڈاکٹروں نے اس شخص کے معدے میں مکعب شکل کی ایک چیز دیکھی جس کی ساخت کو معدے کے تیزاب نے بگاڑ دیا تھا۔
تاہم، اس کی ہموار اور چکنی سطح کی وجہ سے متعدد کوششوں کے باوجود نکالا نہیں جا سکا۔
طبی ٹیم نے اس شے کو نکالنے کے عمل کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اس سے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔
جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ کیا اس کو کچھ اندازہ ہے کہ اسکے پیٹ میں موجود یہ مستطیل شکل کی شے کیا ہو سکتی ہے تو اس کو 1990 کی دہائی کے شروع کا ایک واقعہ یاد آگیا جب اس نے دوستوں کے ساتھ شراب کے نشے میں شرط لگا کر پلاسٹک کا لائٹر نگل لیا تھا۔
انہوں نے اس متعلق اپنے خاندان والوں کو کبھی نہیں بتایا اور ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے جسم سے کافی عرصہ قبل نکل چکا ہے۔
اس موقع پر انہیں ماضی میں متعدد بار بغیر کسی وجہ کے ہونے والا پیٹ کا درد یاد آیا لیکن ان کے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا سبب وہ لائٹر ہوگا جو انہوں نے تین دہائیوں قبل نگل لیا تھا۔
لائٹر کی تصدیق ہونے کے بعد ٹیم نے اس کو نکالنے کی ترکیب پر غور کیا اور اس کے گرد گھیرا بنا کر اس کو باہر کھینچ لیا۔
اگرچہ، لائٹر کی بیرونی سطح تیزاب سے خراب ہوگئی تھی لیکن اس میں گیس موجود تھی اور ڈاکٹر یہ دیکھ کر رہ گئے کہ وہ لائٹر ابھی بھی جل رہا تھا۔