انکوائری رپورٹ میں ایس پی عدیل اکبر کی موت کی اصل وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
پولیس نے ایس پی عدیل اکبر کی موت کے حوالے سے انکوائری رپورٹ مرتب کر لی ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ایس پی عدیل اکبر نے خودکشی کی ہے۔ ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی نے عدیل اکبر کے آپریٹر اور ڈرائیور سمیت ڈاکٹرز کے بیانات قلمبند کر لیے، ڈاکٹر کے بیان کے مطابق عدیل اکبر ڈیپ روٹیڈ اسٹریس کا شکار تھے۔ ڈاکٹر کے مطابق ڈیپ روٹیڈ اسٹریس کے لیے کوئی اچانک حادثے ضروری نہیں، رپورٹ کے مطابق اسٹریس کا متاثرہ شخص ماضی کے حادثات کا پریشر ساتھ لے کر چلتا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس پی عدیل اکبر 8 اکتوبر کو اپنے ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گئے تھے، ڈاکٹر نے دفتری امور سے متعلق ذہنی تناؤ کا کہا تھا، عدیل اکبر نے ڈاکٹر کو بتایا کہ میں یہاں خوش ہوں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ عدیل اکبر نے خودکشی کے خیال کا متعدد بار ذکر کیا، عدیل اکبر اور اہل خانہ کو بلیڈ اور بلیڈ جیسی چیزوں سے دور رہنے کا کہا گیا، عدیل اکبر کے خلاف بلوچستان میں انکوائری رپورٹ ہوئی جو دو سال سے چل رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ پر اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی نے عدیل اکبر کو سزا بھی دی تھی، سزا کی وجہ سے عدیل اکبر کو دو مرتبہ ترقی نہیں دی گئی، عدیل اکبر کو ڈیڑھ ماہ قبل اسلام آباد تعینات کیا گیا تھا تاکہ پروموشن ہو سکے۔ رپورٹ کے مطابق عدیل اکبر کو ان کے کورس میٹ ایس پی خرم کی درخواست پر اسلام آباد تعینات کیا گیا تھا، سینئر اے ایس پی عدیل اکبر کو ایس پی انڈسٹریل ایریا کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ عدیل اکبر نے مریدکے آپریشن میں حصہ نہیں لیا، پولیس انکوائری کے مطابق حادثے سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل وہ 35 منٹ تک گاڑی میں گھومتے رہے، پھر گھر چلے گئے، عدیل نے تھوڑی دیر بعد ڈرائیور اور آپریٹر کو گھر بلایا اور ان کے ساتھ سیکرٹریٹ چلا گیا۔ رپورٹ کے مطابق عدیل اکبر نے سیکرٹریٹ میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکشن آفیسر سے ملاقات کرنی تھی، رپورٹ کے مطابق شام 4 بج کر 23 منٹ پر ایس او نے فون پر بتایا کہ وہ چلا گیا، عدیل اکبر یو ٹرن لے کر دفتر خارجہ چلے گئے، انہیں ایس پی صدر یاسر کا آخری فون آیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق آخری کال پر عدیل اکبر نے سبزی منڈی میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بات کی، کال کے کچھ ہی دیر بعد عدیل اکبر نے اپنے آپریٹر سے بندوق لے کر خودکشی کرلی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
طالبان کا صحافیوں پر وحشیانہ تشدد، عالمی اداروں کا سخت ردعمل سامنے آگیا
کابل: افغانستان میں طالبان کے سخت گیر اقدامات کے باعث صحافیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد، گرفتاریوں اور دھمکیوں نے اظہارِ رائے کی آزادی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے، جس پر عالمی اداروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
افغان میڈیا آمو ٹی وی کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے دن (10 دسمبر) سے قبل تمام صحافیوں کو رہا کیا جائے۔
سی پی جے کے مطابق 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں صحافتی آزادی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ طالبان اس وقت کم از کم دو افغان صحافیوں—مہدی انصاری اور حمید فرہادی—کو غیرقانونی حراست میں رکھے ہوئے ہیں، جبکہ ملک بھر میں صحافی بلاجواز گرفتاریوں، طویل قید، جسمانی تشدد اور مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
سی پی جے کے مطابق افغانستان میں درجنوں میڈیا ادارے بند ہوچکے ہیں اور خصوصاً خواتین صحافیوں پر انتہائی سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کی مسلسل قید و بند اور ہراسانی طالبان کی جانب سے آزادی اظہارِ رائے کے تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔
آمو ٹی وی کے مطابق دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے 1,500 سے زیادہ صحافیوں نے طالبان سے صحافیوں کی رہائی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ رپورٹس کے مطابق عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمرانہ پالیسیاں افغانستان کو انسانی حقوق کے لیے خطرناک خطہ بنا رہی ہیں۔