Jasarat News:
2025-12-12@10:16:33 GMT

یوم سیاہ کشمیر ہر سال

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

ستائیس اکتوبر کو اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ہم کشمیری عوام کے جائز حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ یہ دن اس تاریخی سانحے کی یاد دلاتا ہے جب انیس سو سینتالیس میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اُتار کر جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کی بنیاد رکھی۔ یہ قبضہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ انسانی ضمیر کے بھی منافی تھا۔ کشمیر جسے قدرت نے جنت نظیر بنا کر زمین پر اُتارا، اس جنت کو ظلم و درندگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر غلامی کے طوق کو قبول نہیں کیا۔ ستائیس اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی عوام سیاہ پرچم لہرا کر اس دن کو یوم احتجاج کے طور پر مناتے ہیں تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکے کہ وہ اس دیرینہ مسئلے پر اپنی خاموشی توڑے اور انصاف کی حمایت میں آواز بلند کرے۔

 

کشمیر کا مسئلہ برصغیر کی تقسیم کے وقت اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آیا اور اس کے حق میں قراردادیں منظور ہوئیں جن میں واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیری عوام اپنی مرضی سے فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ بھارت نے ان قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور طاقت کے زور پر وادی کو قید خانے میں بدل دیا۔ ہر گلی کوچے میں فوجی چوکیاں، ہر دروازے پر بندوق، ہر آنکھ میں خوف اور ہر دل میں امید کا دیا جلتا ہے کہ شاید ایک دن آزادی کی صبح طلوع ہو۔ بھارتی مظالم کی داستانیں وقت کے صفحات پر خون سے لکھی جا رہی ہیں۔ عصمت دری، جبری گمشدگیاں، اندھادھند فائرنگ، محاصرہ اور اظہار کی آزادی پر پابندیاں کشمیر کے روزمرہ کا المیہ بن چکے ہیں۔ دو ہزار انیس میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل تین سو ستر منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی، جس کے بعد وادی میں ایک اور سیاہ دور کا آغاز ہوا۔ ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، انٹرنیٹ بند کر دیا گیا، میڈیا کی زبان پر تالے لگا دیے گئے۔ مگر آزادی کے متوالے کشمیری نہ جھکے نہ رکے۔ انہوں نے اپنے خون سے عزم و استقلال کی ایسی تاریخ لکھی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

 

پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی ہے۔ ہر پاکستانی دل میں کشمیر کی دھڑکن سنتا ہے اور ہر پاکستانی زبان سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ یہ نعرہ صرف ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایمان کی علامت بن چکا ہے۔ یوم سیاہ کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر کوئی علاقائی تنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی اور عالمی طاقتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کروائے۔ کشمیری عوام سات دہائیوں سے اپنے حق کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کے شہیدوں کے جنازے خاموش چیخ بن کر دنیا سے انصاف مانگتے ہیں۔ ان ماؤں کی سسکیاں جن کے بیٹے لاپتا ہیں، ان بہنوں کے آنسو جو اپنے بھائیوں کی لاشیں پہچاننے سے قاصر ہیں، ان بوڑھوں کی دعائیں جو ہر اذان کے ساتھ اللہ سے آزادی کی صبح مانگتے ہیں، یہ سب انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ ستائیس اکتوبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ غلامی کے اندھیروں میں بھی امید کا چراغ بجھایا نہیں جا سکتا۔ یہ دن ہمیں اتحاد، یقین اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ کشمیر کے بچے آج بھی گولیوں کے سائے میں کھیلتے ہیں مگر ان کی آنکھوں میں آزادی کے خواب زندہ ہیں۔ یہ خواب کبھی نہیں مریں گے کیونکہ یہ خواب حق اور سچ پر مبنی ہیں۔ دنیا کی ہر طاقت ظلم سے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوں تو کوئی طاقت انہیں غلام نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کی وادیوں میں بہنے والا ہر نالہ، ہر چشمہ، ہر درخت اور ہر پتھر گواہ ہے کہ یہاں کے لوگ آزادی کے لیے جی رہے ہیں اور آزادی کے لیے مر رہے ہیں۔

 

یوم سیاہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے ہر فورم پر انصاف کا مطالبہ جاری رکھیں۔ جب تک ظلم کی زنجیریں ٹوٹ نہیں جاتیں، جب تک کشمیر کے آسمان پر پاکستان کا پرچم نہیں لہراتا، جب تک مظلوم کی فریاد کو انصاف نہیں ملتا، تب تک یہ دن ہمیں پکار پکار کر یاد دلاتا رہے گا کہ ایک قوم اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔ کشمیر کی آزادی اب صرف وقت کی بات ہے کیونکہ حق کی شمع جب بھڑک اٹھتی ہے تو باطل کی تمام دیواریں راکھ ہو جاتی ہیں۔

 

جمیل احمد خان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا زادی کے لیے کشمیری عوام کشمیر کی

پڑھیں:

خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے

عمران خان کی سیاست اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں سب سے زیادہ شور، شدت اور ٹکراؤ کا مرکز بنی ہوئی ہے، اور یہ ٹکراؤ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں نہ صرف ادارے، سیاست دان اور ریاستی طبقات ان سے فاصلہ اختیار کرچکے ہیں بلکہ ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی شدید دباؤ، انتشار اور مایوسی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

عمران خان نے پچھلے چند برسوں میں جس انداز سے ریاستی اداروں، بالخصوص فوج اور عدلیہ، کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے، وہ پاکستان کی چار دہائیوں کی سیاسی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ان کی سیاست کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے مفاہمت، مکالمہ اور سیاسی حکمت عملی جیسے بنیادی جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ٹکراؤ کو ہی سیاست کا اصل جوہر سمجھ لیا ہے۔

عمران خان اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ اگر وہ مسلسل سخت بیانیہ اختیار کریں گے، الزام تراشی کریں گے اور ریاستی اداروں کی خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے فضا بنائیں گے تو عوامی حمایت انہیں ہر قسم کی سیاسی اور قانونی مشکلات سے بچا لے گی۔ لیکن تاریخ، سیاسی حقیقت اور ریاستی ڈھانچے کی ساخت اس مفروضے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان میں کبھی بھی کوئی سیاسی رہنما اداروں سے مسلسل لڑائی کر کے کامیاب نہیں ہوا۔ نہ ذوالفقار علی بھٹو ریاستی طاقت کے سامنے کھڑے رہ سکے، نہ نواز شریف اداروں سے ٹکر لے کر حکومت چلا سکے، اور نہ ہی عمران خان کے لیے یہ راستہ کوئی سیاسی فتح لانے والا ثابت ہو سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں طاقت کے کئی مراکز موجود ہیں، وہاں ایک سیاست دان کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مکالمے، مفاہمت اور تدبر کی طرف لے جائے۔

عمران خان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ اداروں پر تنقید کرتے ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے تنقید کو ذاتی جنگ بنادیا ہے۔ ان کے بیانات میں وہ سنجیدگی، دلیل یا سیاسی بلوغت نہیں پائی جاتی جو ایک قومی رہنما کے اندر ہونا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سخت زبان، ذاتی حملے، طنزیہ تبصرے اور جذباتی بیانیہ سیاسی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتے بلکہ سیاست دان کو مزید تنہا کر دیتے ہیں، اور یہی ہوا۔
 
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ خان صاحب کے مسلسل حملوں نے نہ صرف ریاستی اداروں میں شدید ردعمل پیدا کیا بلکہ پارٹی کی اپنی پوزیشن بھی کمزور کردی۔ سوشل میڈیا کی تالیاں وقتی ہوتی ہیں، مگر ریاست ہمیشہ دیرپا ہوتی ہے، اور اس حقیقت کو نہ سمجھنا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی خامی تھی۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی خیالی تصورات پر رکھی، عملی سیاست کی حقیقتوں پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اردگرد وہی لوگ جمع ہو گئے جو انہیں وہی مشورے دیتے رہے جو وہ سننا چاہتے تھے، نہ کہ وہ جو سیاسی بقا کا تقاضا تھے۔ ایسا ہر سیاسی رہنما کے ساتھ ہوا ہے جو اپنی مقبولیت کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی ٹیم کو دلیل کے بجائے خوشامد پر کھڑا کر دیتا ہے۔

ریاست سے ٹکراؤ کی یہ روش عمران خان کے لیے بھی مہلک ثابت ہوئی کیونکہ انہوں نے کبھی یہ حقیقت تسلیم نہیں کی کہ پاکستان میں سیاست کا راستہ صرف مفاہمت، تدبر، آئینی دائرہ کار اور پارلیمانی عمل سے ہو کر گزرتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی جو ایک جمہوری رہنما دیتا ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران اپوزیشن سے مکمل دوری اختیار کی، اصلاحات کا عمل تعطل کا شکار کیا، پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کیا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ خود مشکل میں پڑے تو ان کے پاس کوئی سیاسی راستہ، کوئی پل، کوئی رابطہ باقی نہ بچا۔ سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنے مخالف کے لیے بھی دروازہ کھلا رکھے، مگر عمران خان نے ہر دروازہ اپنے ہاتھوں سے بند کیا۔ سیاست میں سخت بیانیہ وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر طویل المیعاد تباہی ثابت ہوتا ہے۔

اس پورے منظر میں ایک بنیادی غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے، عمران خان خود کو انقلابی سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچوں کے خلاف انقلابی جنگیں اس ملک میں ممکن ہی نہیں۔ پاکستان کا انتظامی، عسکری اور عدالتی ڈھانچہ کسی انقلابی عمل کو اپنی جڑیں ہلانے نہیں دیتا۔ لہٰذا عمران خان کا یہ خیال کہ وہ بیانیے کے زور پر اس پوری ساخت کو بدل دیں گے، سیاسی ناپختگی اور طاقت کی حقیقی ڈائنامکس کو نہ سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ اگر وہ واقعی تبدیلی کے خواہاں تھے تو انہیں پارلیمنٹ، قانونی عمل اور ادارہ جاتی اصلاحات کے راستے پر چلنا چاہیے تھا، مگر انہوں نے ہر بار شارٹ کٹ لیا۔ احتجاج، لانگ مارچ، دھرنے، جلسے یہ سب سیاسی دباؤ پیدا تو کرتے ہیں مگر ریاستی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرتے۔ اب جبکہ وہ شدید سیاسی، قانونی اور سماجی دباؤ کا شکار ہیں، انہیں خود بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ راستے جو وہ نے اکھاڑے تھے، وہی اب ان کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بقا کا واحد راستہ مفاہمت ہے، اور مفاہمت کمزوری نہیں بلکہ حکمت ہوتی ہے۔ اگر عمران خان واقعی ایک بڑے لیڈر کے طور پر اپنا کردار برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں انا، غصے، ضد، الزام تراشی اور اداروں سے جنگ جیسے بیانیے کو ترک کرنا ہوگا۔ ایک ایسا رہنما جو ریاستی اداروں سے دشمنی مول لے، وہ کبھی بھی قومی سطح پر مضبوط کردار ادا نہیں کر سکتا۔ سیاست ملک کو جوڑنے کا نام ہے، ریاستی دائروں کو توڑنے کا نام نہیں۔

عمران خان کو اب اپنی سیاست کو انتقام، جذباتیت اور ذاتی رنجشوں سے نکال کر ویژن، سیاست، مکالمے اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہوگا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اداروں سے محاذ آرائی، بیانیوں کے ذریعے ریاست کو چیلنج کرنا اور سیاسی مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی خواہش صرف انتشار پیدا کرتی ہے، مسائل حل نہیں کرتی۔ پاکستان میں نہ کوئی سیاست دان اکیلے تبدیلی لا سکتا ہے، نہ کوئی ادارہ اکیلے نظام چلا سکتا ہے۔ یہاں ہر سیاسی قوت کو کسی نہ کسی مقام پر دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر چلنا پڑتا ہے۔ اسی حقیقت کو قبول کرنا عمران خان کی سیاسی بقا کی پہلی شرط ہے۔

اگر وہ اپنی انا سے اوپر اٹھ جائیں، مفاہمت کو اپنائیں، اداروں کے ساتھ کشیدگی کم کریں، سیاسی قوتوں سے مکالمہ بحال کریں اور قومی سطح پر ایک ذمے دار رہنما کے طور پر ابھریں تو وہ اب بھی پاکستان کے سیاسی مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اسی ٹکراؤ، اسی لڑائی، اسی سخت بیانیے پر قائم رہے تو وہ اپنی مقبولیت کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جگہ بھی محدود کر بیٹھیں گے۔ پاکستان کو اس وقت ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو تقسیم نہیں کرے بلکہ جوڑنے والا ہو، جو محاذ آرائی نہیں بلکہ حل دے، جو جذباتی نہیں بلکہ بالغ سیاسی فیصلہ سازی کرے۔ عمران خان کو بھی یہی سمجھنا ہوگا کہ سیاست جنگ نہیں، حکمت ہے اور مفاہمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو ریاست، سیاست اور عوام تینوں کو آگے لے کر چل سکتا ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے
  • پہاڑون کا عالمی دن اور کشمیر کی سیاحت
  • کوٹلی، حریت کانفرنس کے زیر اہتمام عظیم الشان ریلی
  • بھارت ظلم و تشدد سے کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبا نہیں سکتا، امیر مقام
  • معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے، وفاقی وزیر
  • خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے
  • جیکب آباد،سیاہ کاری کے الزام میں ایک شخص قتل
  • ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان
  • کشمیریوں کے حق خودارادیت سے انکار انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے، محمد صفی