پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور،پاکستان ڈٹ گیا، طالبان وفد کا تحریری معاہدے سے گریز
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
ہفتے کے روز 9 گھنٹے اور پھر اتوار کو 13 گھنٹے سے زائد طویل مذاکرات بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے تھے،تاحال طالبان کسی بھی قسم کا تحریری معاہدہ نہ کرنے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں
جنگ بندی میں توسیع، راستوں کو دوبارہ کھولنے، جذبہ خیر سگالی کے طور پر قیدیوں کی رہائی، اگلی ملاقات کی تاریخ اور مقام سمیت کئی دیگر امور کا احاطہ کیا جائے گا، افغان میڈیا نے دعوی
استبول میں پاک افغان مذاکرات تیسرے دور میں داخل ہوگیا لیکن تاحال طالبان کسی بھی قسم کا تحریری معاہدہ نہ کرنے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے غیر لچکدار اور غیر حقیقی رویے کے باعث یہ دور بھی نتیجہ خیز ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ طالبان وفد تحریری معاہدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ افغان میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ ان مذاکرات میںزیادہ تر معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور باقی ماندہ چند معاملات کو آج (پیر) کے آخر تک حتمی شکل دینے کی امید ہے۔ذرائع نے بتایا کہ آج کے مذاکرات بھی رات گئے تک جاری رہ سکتے ہیں۔ذرائع نے مزید بتایا کہ مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیے جانے کی توقع ہے جس میں جنگ بندی میں توسیع، راستوں کو دوبارہ کھولنے، جذبہ خیر سگالی کے طور پر قیدیوں کی رہائی، اگلی ملاقات کی تاریخ اور مقام سمیت کئی دیگر امور کا احاطہ کیا جائے گا ،تاہم پاکستان کی جانب سے ابھی اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا نہ ہی کوئی تصدیق ہوئی۔یاد رہے کہ ہفتے کے روز 9 گھنٹے اور پھر اتوار کو 13 گھنٹے سے زائد طویل مذاکرات بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے تھے۔آج امید کی جا رہی تھی کہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت ہوجائے گی لیکن اب تک کسی قسم کا تحریری معاہدہ طے نہیں پایا جا سکا ہے۔پاکستان کا اصولی مؤقف بدستور واضح ہے کہ دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی بند کی جائے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔یاد رہے کہ پاکستان نے افغانستان کی درخواست پر جنگ بندی میں توسیع بھی کی تھی اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے ہمیشہ مثبت رویہ اپنایا ہے۔مخالف فریق کے منفی رویے کے باوجود پاکستان، قطر اور ترکیہ خلوصِ نیت سے امن مذاکرات کی کامیان کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ طالبان نے امریکا سے معاہدے میں بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کی سلامتی اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تحریری معاہدہ کا تحریری
پڑھیں:
استنبول مذاکرات کا تیسرا دور: افغان طالبان کی ٹی ٹی پی معاملے پر ٹال مٹول جاری، ثالث معاہدہ یقینی بنانے کے لیے کوشاں
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تازہ ترین مذاکرات بھی تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور فریقین تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مستقبل پر متفق نہیں ہو سکے۔
استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کی براہِ راست کوریج کے لیے وہاں موجود پاکستانی صحافی انس ملک کے مطابق افغان طالبان ابھی تک ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور ثالث کوشش کررہے ہیں کہ دونوں فریقین کسی معاہدے پر رضا مند ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول: پاک افغان وفود کے درمیان جواب الجواب کے بعد ایک بار پھر مذاکرات شروع
انس ملک نے وی نیوز کے پروگرام ’صحافت اور سیاست‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں پاکستان نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ دہشتگرد گروہوں کے خلاف عملی کارروائی کے بغیر کسی بھی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا 7 رکنی وفد، جس میں سینیئر انٹیلیجنس، سیکیورٹی اور بیوروکریسی کے نمائندے شامل تھے، 25 اکتوبر کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوا۔
ان کے مطابق پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران ایک جامع پروپوزل پیش کیا، جس میں زور اس بات پر دیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
’پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران دوحہ معاہدے کا حوالہ دیا، جس کے تحت افغان طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دہشتگرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ اسی وعدے پر عملدرآمد موجودہ مذاکرات کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات میں مختلف تجاویز سامنے آئیں، جن میں ٹی ٹی پی کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے یا پاکستانی مہاجرین کو افغانستان میں بسانے کی تجویز شامل تھی، تاہم پاکستان نے ان تجاویز کو سختی سے مسترد کردیا۔
انس ملک کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان طالبان کی جانب سے بعض بیانات سے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی، خاص طور پر جب انہوں نے ’ایریٹنٹ پاکستانی ریفیوجیز‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
’پاکستان نے واضح کیاکہ وہ دہشتگرد گروہوں سے براہِ راست بات چیت نہیں کرے گا بلکہ صرف افغان حکومت سے ترک اور قطری ثالثوں کے ذریعے رابطہ رکھے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان نے رات گئے اپنا کاؤنٹر پروپوزل پیش کیا، جسے پاکستانی وفد نے فوری طور پر زیرِ غور لیا۔ ابتدائی دو دن کے دوران مذاکرات قریباً 32 گھنٹے تک جاری رہے۔ اس دوران پاکستانی وفد نے دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کے ٹھکانوں سے متعلق انٹیلیجنس کوآرڈینیٹس بھی فراہم کیے، اور ثالثوں سے درخواست کی کہ وہ سیٹلائٹ کے ذریعے ان معلومات کی تصدیق کریں۔
ایک موقع پر جب میڈیا میں یہ خبر سامنے آئی کہ دہشتگردوں کی ’کنسلٹیشن میٹنگ‘ کو روک دیا گیا ہے، تو پاکستانی وفد نے یہ معاملہ ثالثوں کے سامنے اٹھایا، جس پر ماحول مزید کشیدہ ہو گیا اور رات ایک بجے مذاکرات مؤخر کردیے گئے۔
انس ملک کے مطابق تیسرے راؤنڈ میں افغان طالبان کی جانب سے نسبتاً لچک دیکھی گئی اور وہ کسی فریم ورک آف ایگریمنٹ پر بات چیت کے لیے آمادہ نظر آئے۔ تاہم پاکستان کا مؤقف برقرار ہے کہ جب تک دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، کسی بھی معاہدے کی کوئی معنویت نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ممکنہ طور پر فریقین کسی محدود نوعیت کے فریم ورک پر متفق ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ایک مشترکہ بارڈر ورکنگ میکنزم، جس کے تحت پاکستان، ترکیہ اور قطر معلومات کا تبادلہ کریں گے۔
ریاض میں وزیراعظم شہباز شریف کے مجوزہ دورے سے متعلق بات کرتے ہوئے انس ملک نے بتایا کہ وزیراعظم فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کریں گے، جہاں ان کی چین، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وزیراعظم کا دورہ 27 سے 29 اکتوبر تک شیڈول ہے، اور وہ 28 اکتوبر کو کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ممکنہ طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کئی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط ہوسکتے ہیں، اگرچہ اس بارے میں حتمی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: میرا خیال ہے میں پاک افغان مسئلہ کے حل کے لیے کچھ کر سکتا ہوں، صدر ٹرمپ
انس ملک کے مطابق اس دورے کا ایک اہم مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں سلامتی کی صورتحال بھی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان طالبان پاکستان افغانستان مذاکرات پاکستانی مؤقف ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی وی نیوز