انسانیت معدوم ، رواں برس بھی کچرا کنڈیوں سے 121بچوں کی لاشیں ملی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (تحقیقی رپورٹ: محمد علی فاروق) شہر قائد میں دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت پیش آیا جب کورنگی مہران ٹاؤن، شیطان چوک کے قریب نوزائیدہ بچے کی لاش ملی۔ اہلِ علاقہ نے جب اس معصوم جسم کو کچرے کے ڈھیر پر دیکھا تو ہر آنکھ اشکبار ہوگئی مگر یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ پچھلے چند برسوں سے کراچی میں اس طرح کے انسانیت سوز واقعات تشویشناک تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ ریسکیو اداروں کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال (2024) کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں سے 170 سے زائد نومولود بچوں کی لاشیں برآمد کی گئیں جبکہ رواںبرس اب تک 121نومولود بچوںکی لاشیں ملی ہیں، جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی تھی۔ ان بچوں کو یا تو کوڑے دان میں پھینک دیا گیا یا ندی نالوں کے قریب یا گلی محلّوں کے ویران کونوں میں اور یہ سب اس سماجی انحطاط کی نشاندہی ہے جس نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ایڈھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف اْن کے ادارے کے جھولوں میں 2024ء کے دوران 250 سے زائد زندہ نومولود بچے محفوظ طریقے سے جمع کروائے گئے لیکن اس کے ساتھ ہی درجنوں بے گناہ معصوموں کی لاشیں مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں، جنہیں یا تو کسی “گناہ” کے بوجھ کو چھپانے کے لیے مار دیا گیا یا غفلت سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ کورنگی کے حالیہ واقعے میں ملنے والے نومولود کی لاش کو جانوروں نے نوچ رکھا تھا، یہ منظر جو ناصرف سماج کی بے حسی بلکہ انسانی قدروں کے زوال کا آئینہ دار ہے۔ پولیس نے واقعہ کی تفتیش شروع کردی ہے، مگر ایسے واقعات کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں وہ جڑیں جن کا تعلق غربت، سماجی دباؤ، غیرت کے نام پر خوف اور مذہبی و اخلاقی تربیت کی کمی سے جڑی ہیں۔ پاکستان میں ’’نیشنل چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016ء‘‘ بچوں کے تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔اس قانون کے تحت کسی بھی بچے کوغفلت، ترکِ نگہداشت یا جسمانی و نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانا ایک سنگین جرم ہے، جس کی سزا قید اور جرمانہ دونوں ہیں۔اسی طرح’’سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی‘‘ کو صوبے میں ایسے تمام معاملات کی نگرانی اور روک تھام کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ماہر ین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ایسے جرائم صرف غربت یا لاعلمی کا نتیجہ نہیں بلکہ معاشرتی دباؤ، غیرت کے تصورات اور مذہبی خوف کے بگاڑ سے جنم لیتے ہیں۔ بے سہارا یا غیر شادی شدہ خواتین کے لیے کوئی قانونی و سماجی حفاظتی ڈھانچہ موجود نہیں جس کے باعث وہ ایسے ناقابلِ معافی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق معاشرے میں ایسے والدین کے لیے کوئی محفوظ راستہ نہیں جو اپنے بچوں کو کسی مجبوری کے تحت نہیں پال سکتے۔ اگر معاشرہ سہارا دینے کے بجائے الزام تراشی کرتا رہے گا، تو ایسے واقعات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ماہرِ سماجیات ڈاکٹر شاہدہ پروین نے کہا کہ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو’’بچہ تحفظ پالیسی‘‘ کے تحت ایمرجنسی انتظامات، ہیلپ لائنز اور ایدھی و چھیپا جھولوں کے نیٹ ورک کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے، تاکہ کوئی ماں اپنی کمزوری یا خوف میں آ کر گناہ کی حد نہ پار کرے۔ ادارہ ایدھی، چھیپا اور امن فاؤنڈیشن نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اگر کوئی نوزائیدہ بچہ پالنے سے قاصر ہو تو اسے خاموشی سے جھولے میں ڈال دیں۔آپ کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، مگر ایک جان بچ جائے گی۔دوسری جانب معروف عالمِ دین مولانا ذاکراحمد نقشبندی نے کہا کہ بچے کا قتل گناہِ کبیرہ ہے جس کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں سخت ہے۔اگر گناہ کو چھپانا ہی مقصود ہے تو توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے مگر کسی معصوم کی جان لینا توبہ کا حق نہیں دیتا۔ پولیس حکام کے مطابق واقعے کی مکمل رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے بعد حقائق سامنے آئیں گے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسے واقعات میں سماجی ذمہ داری اور اخلاقی شعور کی بیداری بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ واقعہ اس سوال کو پھر زندہ کر دیتا ہے کہ ہم کس سمت جارہے ہیں، جب ایک ماں اپنے ہی وجود کے ٹکڑے کو دنیا سے چھپانے کے لیے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے تو جرم صرف اْس کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا بھی ہے، جو اْسے امید دینے کے بجائے الزام دیتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب ہم ایک معصوم سانس کی حفاظت نہیں کر سکتے تو پھر ہم انسان کہلانے کے حق دار کیسے ہیں؟
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں گونر راج نافذ کرنے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی
سٹی42: سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بتایا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گونر راج نافذ کرنے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
بلاول بھٹو نے چنیوٹ کے دورہ کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، صوبہ خیبر پختونخوا میں بدامنی برقرار رہنے کی صورت میں گورنر راج کا آپشن موجود ہے ، لیکن بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ ابھی گورنر رول لگانے کی کسی تجویز پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
باغبان پورہ کی خواتین نے بلاول سے سیاست چھڑوا دی، اسکے بعد کیا باتیں ہوئیں؟ دلچسپ رپورٹ
Waseem Azmet