نیویارک کی چار سو سالہ تاریخ کے پہلے مسلمان میئر
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم نے پہلے ہی ان صفحات پر زہران ممدانی کی جیت کی نوید سناتے ہوئے ان کو متوقع میئر قرار دیا تھا اور آخرکار وہ نیویارک سٹی کے 111 ویں میئر، تاریخ کے پہلے مسلمان میئر اور نیویارک کی تاریخ کے دوسرے کم عمر ترین میئر بن گئے ہیں۔ ممدانی کی عمر اس وقت 34 سال ہے، جبکہ نیویارک کے پہلے اور سب سے کم عمر میئر ہیوج جے گرانٹ تھے جنہوں نے 1889 میں صرف 31 سال کی عمر میں عہدہ سنبھالا تھا۔ اس طرح ممدانی کا شمار کم عمر ترین سیاستدانوں میں ہوگا۔ نیویارک کے پہلے میئر تھامس ولیٹ تھے جو 1664 میں پہلے میئر ہوئے تھے لیکن اس وقت میئر کا انتخاب گورنر کرتے تھے۔ 1834 میں پہلی بار نیویارک سٹی میں عوامی میئر الیکشن منعقد ہوا، جس میں کورنِیلیس لارنس میئر منتخب ہوئے۔ سات سال کی عمر میں کیپ ٹائون جنوبی افریقا سے نیویارک میں منتقل ہونے والا بچہ آج جنوبی ایشیائی نژاد، ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے نامزد امیدوار زہران ممدانی نیویارک کے میئر بن گئے ہیں۔ ان کا انداز بیاں ایسا ہے جو سب کو جوڑ دیتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو، یہودی ہو، ہندو یا لا مذہب، سب کے لیے یکساں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت ان کے ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات سے منسلک ہے، نہ کہ مذہب سے۔ انتخابی مہم کے دوران نسل، مذہب، اور معاشی فرق کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تنازعات ان کے اس تاثر کو زائل کرتے ہیں کیوں کہ ممدانی کئی مرتبہ Synagogus (یہودیوں کی عبادت گاہ) میں جا کر یہودی عبادت گزاروں کو اپنے تعاون کا یقین دلا چکا ہے مگر سوشل میڈیا پر ابھی تک اسے یہود مخالف دہشت گرد (Antisemetic terrorist) کہا جا رہا ہے۔ یہ طے ہے کہ نیویارک سٹی کا مئیر بننے کے بعد زہران ممدانی کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا ہے کہ اس نے زندگی بھر اس نفرت کا سامنا کیا ہے اور وہ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتا ہے۔ گزشتہ ماہ بروکلین کی پروگریسو یہودی عبادت گاہ ’کولوٹ حَیینو‘ میں روش ہشانہ (یہودی نئے سال) کی تقریب کے دوران ممدانی کو شرکاء کی جانب سے زبردست داد اور تالیوں سے نوازا گیا۔
زہران ممدانی کی کامیابی امریکی مسلمانوں کے لیے نئی سیاسی راہیں کھول سکتی ہے۔ یہ پیغام ہے کہ اگر پرعزم قیادت ہو، تو پس منظر، مذہب یا رنگ رکاوٹ نہیں بنتے۔ ان کی فتح صرف نیویارک کی نہیں، بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک علامتی اور حوصلہ افزا لمحہ ہے۔ ان کے مخالفین نے ان کے مذہب کو سیاسی مسئلہ بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے جواب میں زہران ممدانی نے اپنے مسلم تشخص کو کھلے عام اپنانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ایسے حملوں کو نسلی امتیاز پر مبنی اور بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے گزشتہ جمعے کے روز بروکلین کی ایک مسجد کے باہر مسلم اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہر مسلمان کا خواب صرف یہ ہے کہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کسی اور نیویارکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دینے والے زہران ممدانی کو سوشل میڈیا پر تنقید اور سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی انتخابی مہم میں رہائشی انصاف، پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری اور معاشرتی مساوات جیسے موضوعات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ممدانی کی کامیابی امریکی سیاست میں ایک نئی بائیں بازو (New Left) تحریک کے ابھار کی علامت سمجھی جا رہی ہے، جو کو سرمایہ دارانہ اثرات کے مقابل کھڑا کرتی ہے۔
نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب کے لیے ابتدائی ووٹنگ ہفتے کے روز شروع ہوئی۔ زہران ممدانی مزدور یونینوں، دولت پر ٹیکس، عوامی ٹرانسپورٹ کے فروغ اور ماحول دوست رہائش کے حامی ہیں، وہ سماجی ہم آہنگی، غیر قانونی تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ، اور صحت و تعلیم تک مساوی رسائی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ مؤقف نوجوان اور متنوع ووٹروں، بشمول افریقی نژاد امریکی اور ہسپانوی برادریوں میں بھرپور مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں، سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر اور ایوانِ نمائندگان کے اقلیتی رہنما حکیم جیفریز نے بھی زہران ممدانی کی حمایت کی تھی جو 4 نومبر کے انتخابات سے پہلے پارٹی اتحاد کی علامت ہے۔ حکیم جیفریز نے کہا کہ زہران ممدانی نے مستقل مزاجی سے زندگی کے بڑھتے اخراجات پر توجہ دی ہے اور خود کو تمام نیویارک والوں کا میئر بنانے کا عہد کیا ہے۔
چک شومر کے مطابق زہران ممدانی نے ایک مؤثر مہم چلائی جو نیویارک کے عوام کے مسائل انصاف، مواقع اور بڑھتے ہوئے اخراجات سے جڑی ہوئی تھی، انہوں نے قدامت پسندوں کی جانب سے زہران ممدانی کی شہریت ختم کرنے کے مطالبات کی سخت مذمت کی۔ ایک انٹرویو میں جو اتوار کے دن سی بی ایس کے پروگرام ’’60 منٹس‘‘ پر نشر ہوا، مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ اگر انہیں مسٹر ممدانی (جو ایک ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں) اور مسٹر کومو (جو بطور آزاد امیدوار ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں) کے درمیان انتخاب کرنا پڑے، تو وہ مسٹر کومو کی حمایت کریں گے۔ ممدانی کی شادی ایک ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے نیو یارک میں ہوئی تھی اور وہ دسمبر 2024 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے ان کا یہ متنوع پس منظر نیویارک کی جنوبی ایشیائی برادری میں گونج پیدا کر رہا ہے، جس نے بھارت، پاکستان، بنگلا دیش اور نیپال کے ووٹروں کو متحد کر دیا ہے۔
نیویارک میں ابتدائی ووٹنگ 2019 سے مسلسل بڑھ رہی ہے، جون کے میئرل پرائمری میں تقریباً 35 فی صد ووٹ پہلے ڈالے گئے تھے، اس سال ابتدائی ووٹنگ 2 نومبر تک جاری رہی، اور جیتنے والا امیدوار جنوری میں عہدہ سنبھالے گا۔ پہلی بار کوئی ایسا میئر ہوگا جو نہ صرف مسلمان ہے بلکہ مساجد، رمضان، حلال فوڈ کلچر اور مسلم ثقافت سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ یہ مسلم کمیونٹی کو پالیسی سطح پر درپیش مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: زہران ممدانی کی نیویارک سٹی نیویارک کے نیویارک کی کے پہلے کے لیے
پڑھیں:
نیویارک کے میئر زہران ممدانی کی کامیابی پر دنیا بھر میں جشن، پاکستانی شوبز شخصیات کی مبارکباد
زہران ممدانی کی بطور میئر کامیابی پر نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، پاکستانی شوبز شخصیات نے بھی ان کی تاریخی جیت پر مبارکباد پیش کی۔امریکا کے شہر نیویارک میں زہران ممدانی تاریخ رقم کرتے ہوئے میئر کے عہدے پر فائز ہوگئے، وہ اس عہدے پر پہنچنے والے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد شخص ہیں۔زہران ممدانی کا منشور سستی رہائش اور کثیرالثقافتی ہم آہنگی پر مبنی تھا، جو دنیا کے مہنگے اور مصروف ترین شہروں میں سے ایک میں بے حد مقبول ہوا، انہیں 20 لاکھ سے زائد ووٹوں میں سے نصف سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔اس موقع پر بھارت اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین بھی ایک بات پر متفق نظر آئے کہ کاش زہران ممدانی ان کے بھی میئر ہوتے۔ان کی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں چلائی گئی، جس کا انداز موجودہ نسل یعنی ملی نیئلز سے مطابقت رکھتا تھا، مہم کے اختتام پر انہوں نے نیویارک کے مشہور سب وے نظام کی ایک 10 سیکنڈ کی ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کہتے نظر آئے کہ اگلا اسٹاپ، سٹی ہال۔پاکستانی شوبز شخصیات نے بھی زہران ممدانی کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا۔نیویارک میں مقیم اور زہران ممدانی کے دوست گلوکار علی سیٹھی نے انسٹاگرام پر بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ نیویارک میں ووٹ دیا، جو زہران ممدانی کے لیے تھا۔زہران ممدانی کی کامیابی پر انٹرنیٹ پر جشن کا سماں ہے، ان کے حامی نیویارک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔میزبان شائستہ لودھی نے کہا کہ زہران ممدانی نے ثابت کیا ہے کہ اصل تبدیلی تب آتی ہے جب آپ لوگوں تک ان کی زبان میں پہنچیں اور ان کی عزت و وقار کے لیے جدوجہد کریں۔آسکر کے لیے نامزد فلم ساز میرا نائر کے بیٹے زہران ممدانی نے اپنی فتح کی تقریر میں بولی وڈ کا رنگ بھی شامل کیا۔انہوں نے اپنے اہلخانہ کو اسٹیج پر بلانے سے قبل 2004 کی بولی وڈ فلم ’دھوم‘ کا مشہور ٹائٹل ٹریک بجایا۔اداکارہ میرا نے بھی زہران ممدانی کی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی والدہ کو مبارکباد پیش کی۔صحافی مہدی حسن نے زہران ممدانی کی جیت کو نسل پرستی کے خلاف ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے مذاق میں لکھا کہ زہران ممدانی اتنی کم عمری میں اتنے کامیاب ہوگئے ہیں کہ اب شادیوں میں آنٹیاں نوجوانوں کو مسترد کرنے کے لیے نئے معیار طے کریں گی۔انتخابی مہم کے دوران زہران ممدانی کو نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کا سامنا بھی کرنا پڑا، امریکی صدر نے انہیں یہودی مخالف کہا، جب کہ ہاتھ سے کھانا کھانے پر بھی مذاق اڑایا گیا. ان تمام چیلنجز کے باوجود ان کی جیت کو امریکا میں مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ زہران ممدانی اپنے بلند بانگ اہداف میں سے کتنا حاصل کر پاتے ہیں، کیونکہ انہیں امریکا کے امیر طبقے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ان کے حریف اینڈریو کومو کے حامی تھے کی مخالفت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔فی الحال نیویارک سمیت دنیا بھر کی نظریں امریکی سیاست کے اس نئے دور پر مرکوز ہیں، ایک ایسا دور جس میں امید ہے کہ شمولیت، برابری اور سماجی انصاف کو حقیقی طور پر سیاست میں جگہ ملے گی۔