پاکستان ریلویز کا انفرا اسٹرکچر انتہائی خستہ حالی کا شکار، اہم وجوہات سامنے آگئیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
لاہور:
ایم ایل ون منصوبہ پاکستان ریلویز کے لیے درد سر بن گیا، منصوبے مں تاخیر اور بروقت تعمیر و مرمت نہ ہونے سے پاکستان ریلویز کا انفرا اسٹرکچر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
مسافر ٹرین ہو یا مال بردار ریل گاڑی کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور، اگر ریل گاڑی کی اسپیڈ بڑھائیں تو ریل کار پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ مسافروں کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان ریلویز کا ڈیڑھ پونے 200 سال پرانہ ریلوے ٹریک ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی بروقت روانگی اور آمد میں 7 سے 9 گھنٹے تک کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔
ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز ٹرینوں کی ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم سپیڈ پر ریل گاڑیوں کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان ریلویز کے تقریباً 1900 کلومیٹر ریلوے ٹریک میں 1100 کلومیٹر ٹریک پر ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم اسپیڈ پر گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ یعنی ڈرائیو کو پابند کر دیا گیا ہے کہ ریل گاڑی کو اصل اسپیڈ پر نہیں چلانا ہیں۔
ای ار انجینئرنگ ریکسٹکشن لگا دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹرینیں بعض اوقات کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بک اسپیڈ کے حساب سے پیسنجر ٹرین ڈاؤن و اَپ 110 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے مگر اس کی اسپیڈ کہیں 55 کلو میٹر تو کہیں 78 کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ کسی ٹریک پر اگر 100 کی اسپیڈ کو چھو لے تو گاڑیاں یا تو پٹڑی سے اتر کر الٹ جاتی ہیں یا کسی نہ کسی اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پاکستان ریلوے سے سفر کرنے والے مسافروں کو کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ خستہ حالی کی وجہ سے بعض اوقات پاکستان ریلوے کو اپنی ریل گاڑیاں منسوخ کر کے مسافروں کو دوسری گاڑیوں میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
ریلوے ٹریک کراچی سے پشاور تک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کو وقتاً فوقتاً مرمت کر کے ریلوے انتظامیہ گاڑیوں کی آمدورفت کو چلانے میں مصروف عمل ہے، سب سے زیادہ خستہ حالی کا شکار سکھر سے کراچی تک کا ریلوے ٹریک ہے۔ یہاں پر گڈز اور مسافر ٹرینوں کے لیے 100 سے زائد انجینئرنگ ریکسٹکشن ہے۔
ریل گاڑی کی رفتار کی حد کو محدود کر دیا گیا ہے، یہاں پر ریلوے کی اوسط رفتار 50 سے 55 کلو میٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہے جبکہ بات کریں ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی تو وہاں پر ریلوے کی رفتار کہیں 78 کلومیٹر ہے تو کہیں 80، اگر 90 اور 100 کو چھو بھی جائے تو اس کے بعد ڈرائیور کو بریک لگانا پڑ ہی جاتی ہے کیونکہ پاکستان ریلوے نے سال 2015 سے ریلوے ٹریک کی اَپ گریڈیشن پر سی پیک کے تحت بننے والے پروجیکٹ ایم ایل ون پر توجہ ہی نہیں دی۔
یہی وجہ ہے کہ ریلوے انتظامیہ بوگیاں اور انجن ہونے کے باوجود صرف ٹریک کی خستہ حالی کے باعث بہت ساری ٹرینیں بروقت چلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں چیف ایگزیکٹو ریلوے عامر علی بلوچ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریک پر بھی کام ہو رہا ہے، سکھر ڈویژن میں چلے جائیں تو بہت سارا حصہ پرانا ہے۔ اس ڈویژن میں بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور تقریباً پانچ پانچ ارب کی لاگت سے کام ہو رہا ہے۔ کراچی روہڑی کی خوشخبری کئی دفع دے چکے ہیں جبکہ ریلوے اسٹیشن کی اَپ گریڈیشن جاری ہے۔
لاہور، کراچی، فیصل آباد اور راولپنڈی اسٹیشن اَپ گریڈ ہو چکے ہیں۔ مسافروں کو بروقت پہچانے سمیت دیگر جدید سہولیات بھی فراہم کر رہے ۃٰں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی ریل گاڑیوں کو چلایا جا رہا ہے جہاں آرام دہ سیٹوں کے ساتھ ساتھ ذائقے دار کھانے پینے کی اشیاء بھی انتہائی مناسب قیمت میں فراہم کی جا رہی ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کھیل پاکستان ریلویز ریل گاڑیوں ریلوے ٹریک خستہ حالی ریل گاڑی کی رفتار کلو میٹر کا شکار رہا ہے
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی، مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات؟
اسلام ٹائمز: موجودہ حکمرانوں کو پاکستان کی عسکری قیادت پر بھرپور اعتماد ہے، جو افغانستان کی کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوگی۔ لہذا افغان طالبان کو عقل کے ناخن لینے چاہیئے اور اپنے ہمسایوں و محسنوں کیساتھ دشمنانہ رویہ ترک کرکے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنا چاہیئے۔ اسی میں انکی بقاء و سلامتی اور خطے کے پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ بصورت دیگر افغانستان جو روس کے حملے سے سے لیکر آج تک تقریباً پینتالیس برس سے ناامنی، دہشتگردی، خون خرابہ، عالمی ایجنسیز کا گڑھ بنا ہوا ہے، کبھی بھی درست سمت کیجانب نہیں بڑھ سکے گا۔ اس لیے کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا جواب اسے ملتا رہے گا۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی میں اگرچہ دونوں ملکوں کے مشترک دوستوں کی کوششوں سے کچھ کمی واقع ہوئی تھی۔ قطر اور ترکیہ کی مصالحانہ کوششوں سے جنگ بندی معاہدہ بھی ہوا، جس سے کچھ وقت کیلئے کشیدگی میں کمی دیکھی گئی، مگر اس میں پھر سے دو طرفہ الزامات اور خلاف ورزی کی شکایات سامنے آئیں اور مختلف واقعات کی بنیاد پر جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزیاں سامنے لائی گئی ہیں۔ افغانستان نے ہمیشہ کی طرح الزام پاکستان پر لگایا جبکہ افغانستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جہاں عالمی قوتوں کے مہرے بالخصوص پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے وہاں بڑی انویسٹمنٹ کی ہے اور طالبان رجیم پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کی طرف اپنا جھکاءو اور قربت بڑھا چکی ہے۔ جس کا ثبوت افغان وزراء کی بھارت یاترا اور وہاں دیئے گئے بیانات، نیز عین انہی دنوں میں جب وزراء بھارت میں تھے، پاکستان کے ساتھ پنگے بازی سے واضح دیکھا جا سکتا ہے۔
ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوئے دو ادوار کے بعد ترکی میں تیسرا دور بھی ہوا ہے، جس کے بعد مذاکرات ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ دراصل افغان طالبان پاکستانی موقف کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان پر حملوں کیلئے تحریک طالبان پاکستان نامی گروہ مسلسل در اندازی کر رہا ہے، جس کے ثبوت افغان وفد اور ثالث فریق کو دیئے گئے، جن کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ ناقابل تردید ثبوت ہیں، ان کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ انہی کی بنیاد پر پاکستان افغان وفد سے تحریری معاہدہ کا مطالبہ کر رہا تھا، جسے طالبان وفد زبانی جمع خرچ سے ٹالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے مذاکرات کا یہ دور بھی ناکام ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان ثبوتوں اور طالبان کے رویئے کے بعد ثالثوں کو بھی یہ یقین ہو چلا ہے کہ کچھ مثبت پیش رفت ممکن نہیں۔ اس لیے کہ افغان طالبان اپنی پراکسی تحریک طالبان نامی گروہ سے بھرپور مدد لیتی ہے۔
ان مذاکرات کی ناکامی کے ساتھ ہی اسلام آباد اور وانا کیڈیٹ کالج پر دہشت گردانہ و خودکش حملوں کا ارتکاب واضح کرتا ہے کہ یہ عالمی ایجنٹ، استعماری نمک خوار افغان طالبان کبھی بھی پاکستان کو مستحکم و مضبوط نہیں دیکھ سکتے اور اپنا مکمل جھکائو بھارت کی طرف کرچکے ہیں۔ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرنے سے کبھی بھی باز نہیں آنے والے، اس لیے کہ ان کو پاکستان میں موجود افغان و پختون ہم فکر اقوام کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کی قوم بالخصوص پختون نسل سے جڑے گروہوں نے کبھی بھی پاکستان کی عالمی سرحد ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے خیالات میں افغانستان اٹک پل تک ہے، جس کے بارے میں مختلف ادوار میں افغانی ہرزہ سرائی بھی کرتے رہتے ہیں اور کبھی ایسی بونگیاں مارتے ہیں کہ بندہ ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ بالخصوص جب اسلام آباد اور لاہور پر قبضے کے لطیفے سننے کو ملتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک غیر مہذب اور جہالت سے بھرپور نسل ہے، جس نے لوگوں کی جہالت اور مذہب سے لگائو کا فائدہ اٹھا کر اقتدار کا مزہ چکھ لیا ہے اور اس وقت امریکہ و بھارت کی طرف سے ان کی بھرپور مدد کی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا، موجودہ حکمران افغان طالبان کی ساری قیادت، پاکستان میں مقیم تھی، امریکہ پاکستان پر پریشر ڈالتا تھا کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں ہے، جو افغانستان کی حکومت اور امریکہ کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہے، حتیٰ پاکستان خودکش بم دھماکے کرنے والے بھی پاکستان سے افغانستان بھیجنے کے الزامات برداشت کرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود موجود طالبان رجیم اپنی پاکستان دشمنی سے بھارت کی خدمت کرتی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک طرف بھارت سے تجارت، فوجی تربیت اور بڑھتا اثر و رسوخ دوسری طرف نائب وزیراعظم ملا عبد لغنی برادر جو قطر سے امریکی فوجی جہاز پر بیٹھ کر کابل اتارا گیا تھا، اب یہ کہتا ہے کہ افغان تاجر تین مہینے کے اندر اپنے تجارتی معاملات پاکستان کے ساتھ کلوز کر لیں اور متبادل ممالک سے تجارت کریں، وگرنہ حکومت ان کی کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔
یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کو افغانوں کے بارے موثر اور واضح، ایمرجنسی و دیرپا پالیسی اختیار کرنا چاہئے، ان کیساتھ وہی سلوک اختیار کریں، جو ایک دشمن کیساتھ کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت جس میں دیگر اقوام و گروہان کی نمائندگی ہو، کیلئے کی جانے والی کوششوں کی حمایت و مدد کرنی چاہیئے، ورنہ یہ ایک ناسور کی صورت میں اپنے ہمسایوں کو خراب کرنے کی حماقتوں سے باز نہیں آنے والے۔ افغان طالبان نے پاکستان کیساتھ دشمن کی پراکسی تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی اور انہیں پالنے، ان کو محفوظ پناہ گاہوں اور تربیتی مراکز کی فراہمی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ افغانستان اتنا طاقتور اور مضبوط نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ براہِ راست ٹکر لے سکے۔ اس کے پیچھے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ ہے، جو اسے کٹھ پتلی کی طرح چلا رہا ہے۔ وہاں بیٹھے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھارت ہی کے اشارے پر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔
ٹی ٹی پی، افغان حکومت اور بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، ان کی ڈوریاں بھارت سے ہی ہلائی جاتی ہیں۔ پاکستان نے کئی مرتبہ دنیا کے سامنے بھارت کے ان دہشت گردوں کو استعمال کرنے کے ثبوت ڈوزیئرز کی صورت میں پیش کیے، مگر نہ عالمی طاقتوں نے کوئی مؤثر کارروائی کی اور نہ ہی اقوام متحدہ نے اس طرح نوٹس لیا، جس طرح لیا جانا چاہیئے تھا، جس کے باعث بھارت کو پاکستان میں مزید دہشت گردی کے لیے شہہ ملتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ افغان طالبان کے دور میں تاریخ کی بدترین کشیدگی یقیناً افسوسناک ہے۔ اس لیے کہ افغان طالبان کو ہجرت کے زمانے میں کبھی بھی بھارت نے مدد فراہم نہیں
کی نا ہی ان میں سے کسی ایک کو اپنے ملک میں پالا پوسا، بلکہ یہ سب کے سب جو اعلیٰ اتھارٹیز اور وزراء بنے پھرتے ہیں، پاکستان میں ہی قیام رکھے ہوئے تھے، مگر آج پاکستان کیساتھ دشمن کی زبان میں سامنے آتے ہیں تو پاکستان کو مجبوراً انہیں شیشہ دکھانا پڑتا ہے۔
ہمیں افغانستان کی عام عوام جو مسلسل ناامنی و خوف و دہشت اور بربادی میں زندگی گزارتی آرہی ہے، اس سے ہمدردی ہے، بہت سے خاندان مہاجرت سے واپس افغانستان پہنچے ہیں، مہاجرت میں ان کی عیاشیاں، ذاتی کاروبار اور جائیدادیں تھیں، مگر واپس گئے ہیں تو کاروبار ہے نا پیسے کی ریل پیل، محدودیت کا شکار اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو تین مہینوں میں ایران و پاکستان سے واپس جانے والے افغانوں کی تعداد پچاس لاکھ تک بتائی جاتی ہے، جو بہت بڑی تعداد ہے اور افغانستان کی معیشت پر بوجھ بنے ہیں۔ حالات ایسے ہی رہے تو مزید افغان مہاجرین پاکستان سے واپس جائیں گے، جن کو سنبھالنا ان کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوگا۔
یہ بات یاد رکھیں کہ افغانستان ساری دنیا سے تعلقات قائم کر لے، مثالی تجارتی و سفارتی تعلقات ہو جائیں، اگر پاکستان کے دشمنوں، چاہے وہ بلوچ عسکریت پسند ہوں یا ظالمان تحریک والے، پاکستان ان پر اب اعتماد نہیں کرنے والا۔ نا ہی اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے والا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو پاکستان کی عسکری قیادت پر بھرپور اعتماد ہے، جو افغانستان کی کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوگی۔ لہذا افغان طالبان کو عقل کے ناخن لینے چاہیئے اور اپنے ہمسایوں و محسنوں کیساتھ دشمنانہ رویہ ترک کرکے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنا چاہیئے۔ اسی میں ان کی بقاء و سلامتی اور خطے کے پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ بصورت دیگر افغانستان جو روس کے حملے سے سے لیکر آج تک تقریباً پینتالیس برس سے ناامنی، دہشت گردی، خون خرابہ، عالمی ایجنسیز کا گڑھ بنا ہوا ہے، کبھی بھی درست سمت کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ اس لیے کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا جواب اسے ملتا رہے گا۔