27 ویں آئینی ترامیم آئین اور جمہوریت پر شب خون
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔27 ویں آئینی ترامیم کی منظوری سے ملک میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ اس ترمیم کو باضمیر سیاست دانوں کی جانب سے آئین اور جمہوریت پر شب خون مارے جانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا جارہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے دو سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور الحق نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم آئین پاکستان پر حملہ ہے اس ترمیم نے عدالت عظمیٰ کو ٹکرے ٹکرے کردیا ہے اور ملک کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ بلاشبہ عدالت عظمیٰ کے ان دوججوں نے استعفا دے کر اپنے باضمیر ہونے کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ جبکہ اس موقع پر خود کو جمہوری کہنے والی پارٹیوں کا طرزِ عمل غیر جمہوری رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو کہ خود کو جمہوریت کی چمپئن کہلانے سے نہیں تھکتی تھی اس نے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی اے پلس ٹیم ثابت کیا ہے۔ 26 ویں اور پھر 27 ویں آئینی ترامیم سے وہ قوتیں جو آئین اور جمہوریت کو یر غمال بناتی رہی ہیں وہ سب بالکل کھل کر سامنے آگئی ہیں اور سب کے سامنے بالکل عیاں ہو چکی ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں جو پارٹیاں خود کو جمہوری کہتے ہوئے تھکتی نہیں ہیں ان کا اپنا رویہ اور طرزِ عمل بھی غیر جمہوری اور جمہوریت کی نفی ہے۔ ان پارٹیوں نے ثابت کیا ہے کہ ان میں جمہوریت نہیں ہے اور نہ ان کی سیاست جمہوریت و آئین کے مطابق ہے اس وجہ سے ان قوتوں کو ہمیشہ طاقت فراہم کی جاتی ہے۔ بلاشبہ 27 ویں ترمیم غیر آئینی اور غیر شرعی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے بھی اسے مسترد کیا ہے اور اسے غیر شرعی قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم اسے کلیتاً مسترد کرتے ہیں، فیلڈ مارشل اور صدر کا استثنیٰ کسی طرح بھی درست نہیں، اللہ کے رسولؐ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ خود کو احتساب کے لیے عوام اور عدالت کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اسلام میں اس طرح کے آئین کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
پاکستان میں آئین کا حلیہ بگاڑ نے والی پارٹیاں، خاندان وراثت اور وصیت کی بنیاد پر چلنے والی پارٹیاں ہیں، ان پارٹیوں کی پرورش آمروں کی گودوں میں ہوئی ہے اور ہر پارٹی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس کے سروں پر ہاتھ ہو اور اس حمام میں سب ہی برہنہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ چند لوگوں کو عدالت سے ماوراء کرنے کے لیے دلائل پیش کررہے، نام نہاد جمہوری قوتیں زبردستی اپنی مرضی سے نظام وضع کررہی ہیں۔ آئین کی اعتبار سے صحیح معنوں میں عدلیہ آزاد ہوگی تو تمام ترامیم ختم ہوں گی۔ 27 ویں ترمیم کے ذریعے حکومت اکثریت اور عدلیہ اقلیت میں آگئی ہے۔ جس سے اپنی مرضی سے ججوں کا ٹرانسفر کردیا جائے گا۔ جب سارے راستے بند ہو جاتے ہیں تو پھر ملک میں انارکی پھیلتی ہے اور عوام کے ہاتھ حکمرانوں کی گردنوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ایسا نہ ہو کہ بنگلا دیش اور نیپال والے حالات پاکستان میں بھی پیدا ہو جائیں اور آپ کو اور آپ کی پوری کابینہ کو ہیلی کاپٹر بھی میسر نہ آئے۔ پاکستان کے حکمرانوں کوگزشتہ آمروں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا اب بدل چکی ہے، جنریشن زی بڑے بڑے انقلاب برپا کررہی ہے اور ظلم کا یہ نظام اب زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔ پاکستان کے سیاستدانوں نے 1973 میں بڑی محنت کے بعد یہ آئین بنایا تھا لیکن اس میں مسلسل ترامیم کرکے اس سے کھلواڑ کیا جا رہاہے۔ پہلے 26 ویں ترمیم میں عدالتوں کو مجروح کیا گیا۔ 27 ویں ترمیم میں طاقت کے ارتکاز کو عدالت سے نکال کر شخصیات پر منتقل کردیا گیا ہے۔ جو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا اور اس کے ملک میں خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے سرحدی معاملات خوفناک صورتحال سے دوچار ہیں ایسے میں اس طرح کی تبدیلیاں ملک کو انارکی کی جانب دھکیلنے کی کوشش ہے اور ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے ارباب اقتدار ہوش کے ناخن لیں اور آگ سے نہ کھیلے ورنہ سب کچھ بھسم ہو جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور جمہوریت پاکستان کے ویں ا ئینی ویں ترمیم ہے اور کیا ہے خود کو
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر
لاہور (نیوزڈیسک) لاہور ہائی کورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی۔
منیر احمد اور میاں شبیر اسماعیل سمیت وکلا کی جانب سے ترامیم کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا کہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں۔
درخواست گزاروں نے درخواست میں ترامیم کو 1973 کے آئین کی روح کے بھی منافی قرار دیا، سپریم کورٹ کا اصل اختیار ختم کر کے وفاقی آئینی عدالت کو اوپر بٹھا دیا گیا۔
مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کی حیثیت کمزور ہونے اور عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، موجودہ اسمبلی حقیقی آئین ساز اسمبلی نہیں، اسے اتنی بڑی ترامیم کا اختیار حاصل نہیں۔
درخواست میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ترامیم اسلامی دفعات، عدالتی خودمختاری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔