data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رنگین ریشمی کپڑے دھونے سے قبل ان کو ٹھنڈے پانی میں تھوڑا نمک ملا کر بھگو کر رکھیں تاکہ رنگ پختہ ہو جائے۔پھر صابن سے دھو کر آخر میں پانی میں ایک چمچہ نمک اور سرکہ ملا کر خشک ہونے کے لئے الگنی پر ڈال دیں۔کپڑوں سے سیاہی کے داغ دھبے دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لیموں کا رس اور نمک اس جگہ پر مل دیں۔جب کپڑا واشنگ مشین میں دھویا جائے گا تو اس پر سیاہی کا کوئی داغ نظر نہیں رہے گا۔ گیلے کاغذ سے تو شیشے صاف ہو ہی جاتے ہیں لیکن زیادہ چمکانے ہوں تو پانی، مٹی کا تیل اور میتھیلٹڈ اسپرٹ ہم وزن لے کر ایک بوتل میں محفوظ کر لیں اور جب بھی کھڑکیاں، دروازے یا آئینے صاف کرنے ہوں، ایک نرم سوتی کپڑے کو اس محلول میں بھگو کر ان پر مسلیں اور پھر دوسرے صاف کپڑے سے پونچھ لیں۔ کھانا کھانے کی پالش شدہ لکڑی کی میزوں پر جب گرم ڈشیں یا پلیٹیں رکھی جاتی ہیں تو اس جگہ سے داغ دھبے لگ جاتے ہیں ۔ان داغوں کو مٹانے کے لئے السی کا تیل پکا کر اس میں ہم وزن تارپین کا تیل شامل کر کے بوتل میں محفوظ کر لیں۔نرم کپڑا اس محلول میں ہلکا سا بھگو کر میز صاف کریں۔ سلک کے کپڑے دھونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس میں صابن یا صابن کا پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح جھاگ بنا لیں۔پانی ٹھنڈا ہونا چاہئے، کیونکہ گرم پانی میں سلک سکڑ جاتی ہے اور اس کی شکنیں استری سے بھی نہیں جاتیں۔ گرم کپڑے دھونے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے۔موٹے کپڑوں کو سرف ملے پانی میں آدھے گھنٹے کے لئے بھیگا رہنے دیجئے تاکہ میل خود ہی کٹ جائے، پھر اسے ٹھنڈے پانی سے دھو کر دھوپ میں ڈال دیں۔ کپڑوں کے رنگ سورج کی تیز روشنی میں اڑ جانے کا خدشہ ہو تو انہیں سائے میں سُکھانا زیادہ مناسب ہے۔سوکھنے کے بعد اگر کپڑے سکڑے ہوئے لگیں تو تھوڑا سا کھینچ کر صحیح کر لیں، پھر استری کریں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پانی میں
پڑھیں:
پاکستان میں انڈس ڈولفن کے تحفظ کے لیے نئی حکمتِ عملی کی تیاری
پاکستان میں انڈس ڈولفن کے تحفظ کے لیے نئی قومی حکمتِ عملی کی تیاری جاری ہے جس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف سمیت وفاقی و صوبائی محکمے، تحقیقی ماہرین، ماحولیات کے کارکن اور مقامی کمیونٹیز شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مجوزہ پانچ سالہ ایکشن پلان کا مقصد اس نایاب میٹھے پانی کی ڈولفن کے تحفظ، اس کی آبادی کے استحکام اور قدرتی مسکن کی بحالی کے لیے عملی اقدامات طے کرنا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی کے مطابق 2011 میں پہلا انڈس ڈولفن کنزرویشن ایکشن پلان بنایا گیا تھا، مگر وقت کے ساتھ خطرات اور زمینی صورتحال بدلنے کے باعث اس کی جامع نظرثانی ضروری تھی۔ ان کے مطابق پنجاب وائلڈلائف، سندھ وائلڈلائف، فشریز، محکمہ ماحولیات، آب پاشی اور خیبرپختونخوا کے متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد نئی پالیسی کے نکات پر اتفاق رائے پیدا کیا جا رہا ہے۔
حماد نقی نے بتایا کہ پنجاب میں ڈولفن کی تعداد سندھ کے مقابلے میں کم ہے اور یہاں سب سے بڑا خطرہ غیر محتاط ماہی گیری سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہ برس پہلے اس نوع کی آبادی تقریباً 900 کے قریب تھی، جب کہ اب اندازہ ہے کہ یہ تعداد دو ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
اس کے باوجود ڈولفن کو پانی کے بہاؤ میں کمی، جالوں میں پھنسنے، دریا کے حصوں کی کٹائی اور آلودگی جیسے خطرات کا سامنا ہے۔؎
اسلام آباد میں ہونیوالے اجلاس میں 2011 کے بعد کی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈولفن سے متعلق سائنسی تحقیق کو مزید مضبوط بنانا ضروری ہے، تاکہ آبادی، مسکن، پانی کے بہاؤ اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر درست اور مسلسل ڈیٹا دستیاب ہو سکے۔ اس کے بغیر مؤثر حفاظتی اقدامات ممکن نہیں ہوں گے۔
شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دریا اور اس سے منسلک آبی گزرگاہوں کی بحالی، خطرے سے دوچار علاقوں کا تحفظ، اور پانی کے بہاؤ کے بہتر نظم کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں جو زمینی سطح پر فوری طور پر نافذ ہو سکیں۔ ماہرین کے مطابق وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان مضبوط رابطہ ہی نئے منصوبے کی کامیابی کی بنیاد بنے گا۔
مجوزہ ایکشن پلان میں ڈولفن کی آبادی میں اضافہ، دریا اور دلدلی علاقوں کی بحالی، اور اہم مقامات کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کے لیے رامسر سائٹس اور مین اینڈ بایوسفیئر ریزروز کے طور پر نامزدگی جیسی تجاویز شامل کی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ مقامی کمیونٹی کی شمولیت، آگاہی مہمات، اور نوجوانوں میں ماحولیاتی ذمہ داری کو فروغ دینے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔
واضع رہے کہ انڈس ڈولفن کی کنزرویشن کے 2011 کے ایکشن پلان گڈو سے سکھر تک تقریباً دو سو کلومیٹر کے دریا کو محفوظ خطہ قرار دینے، ایک مشترکہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے قیام اور نہروں میں پھنسنے والی ڈولفن کے لیے ریسکیو یونٹس کی تشکیل کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔
پانی کے بہاؤ میں کمی کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کم از کم ماحولیاتی بہاؤ یقینی بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ پلان میں نقصان دہ جالوں کے استعمال میں کمی، ماہی گیروں کی تربیت اور آلودگی کی نگرانی جیسے نکات بھی شامل تھے۔