عالمی یوم فشریز پر گوادر میں سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عالمی یوم فشریز (World Fisheries Day) کے موقع پر ماہی گیر اتحاد ورکرز یونین گوادرکے زیراہتمام ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوادرمیں ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان کے ماہی گیروں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ یو این ڈی پی کے نمائندہ ثناء دورانی، میرین فشریز کے ڈائریکٹر احمد ندیم، نیشنل پارٹی کے رہنما میر اشرف حسین، جی ڈی اے کے ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم، آر سی ڈی سی کے ناصر رحیم سہرابی، جیوز کے سربراہ کے بی فراق، سماجی رہنما کہدہ پرویز، ماں جی ٹرسٹ کے شاہ جی، ماہی گیر رہنما اکبر علی رئیس، ساجد امیتان، قادر جان، اکبر گورگیج، سنگار فشرمین کواپریٹو سوسائٹی کی نمائندہ انیسہ ایوب، اور اسٹیج سیکرٹری یونس انورنے بھی خطاب کیا۔ انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے ماہی گیر سخت محنت کے باوجود جدید سہولیات، قانونی تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
انہوں نے غیر قانونی ٹرالنگ، جدید لائٹ فشنگ، فشنگ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال، مقامی ماہی گیروں کی کشتیوں کے مقابلے میں غیر مقامی کشتیوں کی بھرمار، سرکاری اداروں میں اندراج کا نہ ہونا، پیشہ ورانہ تربیت، ہیلتھ اینڈ سیفٹی اور مزدور حقوق سے لاعلمی کو اہم مسائل قرار دیا۔ مقررین نے مشترکہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ ماہی گیروں کی رجسٹریشن، پیشہ ورانہ تربیت، صحت وسلامتی ،سوشل سیکورٹی، EOBI اور دیگر لیبر حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
سیمینار میں سول سوسائٹی ،سماجی ورکرز، مختلف یونینز اور مکتبہ فکر کے نمائندوں، خواتین گوادر گرامر اسکول اور دی اویسس اسکول کے طلبہ و طالبات اور گوادر کے نوجوان آرٹسٹوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ماہی گیروں نے سمینار میں شرکت کی ۔
ویب ڈیسک
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ماہی گیروں
پڑھیں:
پائلر کے تحت ’’سوشل سیکورٹی کے چیلنجز اور مستقبل کا راستہ‘‘پر سیمینار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے زیرِ اہتمام کراچی پریس کلب میں ’’سوشل سیکورٹی کے چیلنجز اور مستقبل کا راستہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا، جس میں سماجی تحفظ کے ماہرین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سرکاری نمائندوں نے سندھ میں محنت کشوں کے سماجی تحفظ سے متعلق اہم مسائل پر گفتگو کی۔
سیمینار کا بنیادی مقصد سوشل سیکورٹی کے دائرہ کار کو رسمی شعبے سے آگے بڑھا کر غیر رسمی معیشت سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں، گھریلو خواتین محنت کشوں اور دیگر کمزور طبقات تک پھیلانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا تھا، جو موجودہ نظام کی پہنچ سے باہر ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پائلر کے ڈائریکٹر عباس حیدر نے کہا کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی میں 8 لاکھ محنت کش رجسٹرڈ ہیں، مگر محض 80 ہزار ہی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ آگہی کا فقدان اور ملازمت کے تحریری معاہدوں کی کمی ہے۔ گھریلو اور پلیٹ فارم ورکرز 2,400 روپے کی خود ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس حوالے سے مناسب رجسٹریشن فارمولا بنانا ہوگا اور سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے کرپشن اور سیاسی تقرریوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز، ٹرینگ و ریسرچ وسیم جمال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارا قانون صرف ان محنت کشوں کو کوریج دیتا ہے جو کم از کم اجرت اور اس سے پانچ ہزار روپے زیادہ تنخواہ یا اجرت پر کام کرتے ہیں، سوشل سیکورٹی میں محنت کشوں کی رجسٹریشن کی حد کم ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کی بڑی تعداد سماجی تحفظ کی اسکیم سے محروم ہیں
اس حوالے سے دیگر صوبوں نے اپنے قوانین میں ترمیم کرلی ہے، سندھ کو بھی اس حوالے سے سوشل سیکورٹی ایکٹ میں ترمیم کرنا ہو گی۔ ہم نے رئیل ٹائم کنٹری بیوشن کی تصدیق کے لیے موبائل ایپ متعارف کر دی ہے، جس کے ذریعہ اب کوئی فرد معلوم کر سکتا ہے کہ وہ سیسی میں رجسٹرڈ ہے یا نہیں، اور اجر نے اس کا کنٹری بیوشن کب اور کتنا ادا کیا ہے، جبکہ ہمارے اسپتال محنت کشوں کو بغیر کسی حد کے مکمل طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ گھریلو خواتین محنت کشوں کے لیے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے لیے خود اپنا ماہانہ کنٹری بیوشن ادا کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔
شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ لیبر ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل، اطہر شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق محنت کشوں کو مضبوط تحفظ حاصل ہے، لیکن عملی نفاذ کمزور ہے۔ ہمیں ’ورکر‘ کی تعریف کو وسیع کرنا ہوگا تاکہ ہر محنت کرنے والا فرد قانون کے دائرے میں آسکے، اور یونین سازی و آگہی کو فروغ دینا ہوگا۔ پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی نے زور دیا کہ معاشی مشکلات نے محنت کشوں کو صرف بقا کی جنگ تک محدود کردیا ہے۔ پائلر کی نمائندہ شمیم علی نے کہا خواتین محنت کشوں کو محنت کش قوانین اور سوشل سیکورٹی تک رسائی میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اصلاحات میں خواتین دوست پالیسیاں شامل کی جائیں اور ورکرز کو مناسب تربیت فراہم کی جائے۔کراچی یونین آف جرنلسٹس کے رہنما طاہر حسن خان نے کہا صحافیوں کو اکثر محنت کش قوانین میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ محکمہ محنت سندھ، میڈیا ورکرز کے کیسز پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے حصول کا طریقہ کار واضح کرے۔ سیسی کو انتظامی مسائل دور کر کے اپنی خدمات عام افراد تک پہنچانا چاہیے۔
مقررین نے اجتماعی طور پر سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ کو ایک جامع، شفاف اور موثر ادارہ بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کیں۔جن میں کہا گیا کہ تمام محنت کشوں کو سوشل سیکورٹی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس مقصد کے لیے ماہر معاشیات، لیبر اداروں اور یونین رہنماؤں پر مشتمل اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس قائم کی جائے۔
سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن کے لیے وہی معیار اختیار کیا جائے جو دیگر صوبوں میں نافذ ہے (کم از کم اجرت + 50%)۔
سندھ سوشل سیکورٹی ایکٹ 2016 کی سیکشن 27(A) میں کی گئی ترمیم پر فوری عمل درآمد کیا جائے اور متعلقہ قواعد تشکیل دیے جائیں، حکومت سوشل سیکورٹی کارڈ (بینظیر مزدور کارڈ) میں گھریلو محنت کشوں کی رجسٹریشن کو BISP کے ذریعہ آسان بنائے۔ SESSI میں سیاسی بھرتیوں کو بند کیا جائے۔ ادارے کو مکمل طور پر میرٹ پر چلایا جائے، سیسی کے انفراسٹرکچر میں توسیع کی جائے، صنعتی اور رہائشی علاقوں کے قریب نئے اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کی جائیں، SESSI کی گورننگ باڈی کو حقیقی آجر و اجیر کی نمائندگی کے ذریعے مضبوط کیا جائے، اور گورننگ باڈی کے تمام فیصلے عوام کے سامنے لائے جائیں۔ ادارے کے تمام شعبوں میں اعلیٰ درجے کی شفافیت اور موثر احتسابی نظام قائم کیا جائے۔ محنت کشوں کو اسکیم کی سہولیات سے آگاہ کرنے کے لیے وسیع آگہی مہم چلائی جائے۔ آجر، اجیر اور لیبر سپورٹ تنظیموں پر مشتمل ریجنل مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تا کہ SESSI کے اسپتالوں میں بروقت اور معیاری خدمات کی فراہمی یقینی ہو سکے۔
شرکاء نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سفارشات پر فوری عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ صوبے کے تمام محنت کشوں، خصوصاً غیر رسمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص ڈومیسٹک ورکرز، ہوم بیسڈ ورکرز اور پلیٹ فارم ورکرز تک سماجی تحفظ کی رسائی ممکن ہو سکے۔
شاہد غزالی
گلزار