پائلر کے تحت ’’سوشل سیکورٹی کے چیلنجز اور مستقبل کا راستہ‘‘پر سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے زیرِ اہتمام کراچی پریس کلب میں ’’سوشل سیکورٹی کے چیلنجز اور مستقبل کا راستہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا، جس میں سماجی تحفظ کے ماہرین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سرکاری نمائندوں نے سندھ میں محنت کشوں کے سماجی تحفظ سے متعلق اہم مسائل پر گفتگو کی۔
سیمینار کا بنیادی مقصد سوشل سیکورٹی کے دائرہ کار کو رسمی شعبے سے آگے بڑھا کر غیر رسمی معیشت سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں، گھریلو خواتین محنت کشوں اور دیگر کمزور طبقات تک پھیلانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا تھا، جو موجودہ نظام کی پہنچ سے باہر ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پائلر کے ڈائریکٹر عباس حیدر نے کہا کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی میں 8 لاکھ محنت کش رجسٹرڈ ہیں، مگر محض 80 ہزار ہی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ آگہی کا فقدان اور ملازمت کے تحریری معاہدوں کی کمی ہے۔ گھریلو اور پلیٹ فارم ورکرز 2,400 روپے کی خود ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس حوالے سے مناسب رجسٹریشن فارمولا بنانا ہوگا اور سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے کرپشن اور سیاسی تقرریوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز، ٹرینگ و ریسرچ وسیم جمال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارا قانون صرف ان محنت کشوں کو کوریج دیتا ہے جو کم از کم اجرت اور اس سے پانچ ہزار روپے زیادہ تنخواہ یا اجرت پر کام کرتے ہیں، سوشل سیکورٹی میں محنت کشوں کی رجسٹریشن کی حد کم ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کی بڑی تعداد سماجی تحفظ کی اسکیم سے محروم ہیں
اس حوالے سے دیگر صوبوں نے اپنے قوانین میں ترمیم کرلی ہے، سندھ کو بھی اس حوالے سے سوشل سیکورٹی ایکٹ میں ترمیم کرنا ہو گی۔ ہم نے رئیل ٹائم کنٹری بیوشن کی تصدیق کے لیے موبائل ایپ متعارف کر دی ہے، جس کے ذریعہ اب کوئی فرد معلوم کر سکتا ہے کہ وہ سیسی میں رجسٹرڈ ہے یا نہیں، اور اجر نے اس کا کنٹری بیوشن کب اور کتنا ادا کیا ہے، جبکہ ہمارے اسپتال محنت کشوں کو بغیر کسی حد کے مکمل طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ گھریلو خواتین محنت کشوں کے لیے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے لیے خود اپنا ماہانہ کنٹری بیوشن ادا کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔
شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ لیبر ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل، اطہر شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق محنت کشوں کو مضبوط تحفظ حاصل ہے، لیکن عملی نفاذ کمزور ہے۔ ہمیں ’ورکر‘ کی تعریف کو وسیع کرنا ہوگا تاکہ ہر محنت کرنے والا فرد قانون کے دائرے میں آسکے، اور یونین سازی و آگہی کو فروغ دینا ہوگا۔ پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی نے زور دیا کہ معاشی مشکلات نے محنت کشوں کو صرف بقا کی جنگ تک محدود کردیا ہے۔ پائلر کی نمائندہ شمیم علی نے کہا خواتین محنت کشوں کو محنت کش قوانین اور سوشل سیکورٹی تک رسائی میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اصلاحات میں خواتین دوست پالیسیاں شامل کی جائیں اور ورکرز کو مناسب تربیت فراہم کی جائے۔کراچی یونین آف جرنلسٹس کے رہنما طاہر حسن خان نے کہا صحافیوں کو اکثر محنت کش قوانین میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ محکمہ محنت سندھ، میڈیا ورکرز کے کیسز پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے حصول کا طریقہ کار واضح کرے۔ سیسی کو انتظامی مسائل دور کر کے اپنی خدمات عام افراد تک پہنچانا چاہیے۔
مقررین نے اجتماعی طور پر سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ کو ایک جامع، شفاف اور موثر ادارہ بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کیں۔جن میں کہا گیا کہ تمام محنت کشوں کو سوشل سیکورٹی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس مقصد کے لیے ماہر معاشیات، لیبر اداروں اور یونین رہنماؤں پر مشتمل اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس قائم کی جائے۔
سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن کے لیے وہی معیار اختیار کیا جائے جو دیگر صوبوں میں نافذ ہے (کم از کم اجرت + 50%)۔
سندھ سوشل سیکورٹی ایکٹ 2016 کی سیکشن 27(A) میں کی گئی ترمیم پر فوری عمل درآمد کیا جائے اور متعلقہ قواعد تشکیل دیے جائیں، حکومت سوشل سیکورٹی کارڈ (بینظیر مزدور کارڈ) میں گھریلو محنت کشوں کی رجسٹریشن کو BISP کے ذریعہ آسان بنائے۔ SESSI میں سیاسی بھرتیوں کو بند کیا جائے۔ ادارے کو مکمل طور پر میرٹ پر چلایا جائے، سیسی کے انفراسٹرکچر میں توسیع کی جائے، صنعتی اور رہائشی علاقوں کے قریب نئے اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کی جائیں، SESSI کی گورننگ باڈی کو حقیقی آجر و اجیر کی نمائندگی کے ذریعے مضبوط کیا جائے، اور گورننگ باڈی کے تمام فیصلے عوام کے سامنے لائے جائیں۔ ادارے کے تمام شعبوں میں اعلیٰ درجے کی شفافیت اور موثر احتسابی نظام قائم کیا جائے۔ محنت کشوں کو اسکیم کی سہولیات سے آگاہ کرنے کے لیے وسیع آگہی مہم چلائی جائے۔ آجر، اجیر اور لیبر سپورٹ تنظیموں پر مشتمل ریجنل مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تا کہ SESSI کے اسپتالوں میں بروقت اور معیاری خدمات کی فراہمی یقینی ہو سکے۔
شرکاء نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سفارشات پر فوری عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ صوبے کے تمام محنت کشوں، خصوصاً غیر رسمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص ڈومیسٹک ورکرز، ہوم بیسڈ ورکرز اور پلیٹ فارم ورکرز تک سماجی تحفظ کی رسائی ممکن ہو سکے۔
شاہد غزالی
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: محنت کشوں کو کیا جائے نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ترقی کا واحد راستہ آئین و قانون پر عملدرآمد ہے،شاہد خاقان عباسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور : سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سیاسی اختلافات ختم کرنے اور آئین کی بالادستی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ آئینی سربراہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں، حالانکہ وفاق اور صوبوں کو برداشت اور تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پشاور پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے گورنر راج کو انتہائی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک صوبے میں لگانا ہے تو پھر گورننس کے مسائل کے باعث باقی صوبوں میں بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا واحد راستہ آئین و قانون کی پابندی ہے، کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر نہ سرمایہ کاری آتی ہے اور نہ ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔
سابق وزیراعظم کے مطابق ملک کا سب سے بڑا اثاثہ نوجوان ہیں جو تعلیم، روزگار اور کاروباری مواقع چاہتے ہیں، اس لیے سیاست کا مقصد کرسی نہیں بلکہ عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں کرنے کی۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہمارے معاشرے اور دین کے خلاف ہے۔ انہوں نے 27ویں آئینی ترامیم کو سیاست پر ’’کالا دھبہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ ایک دن تمام سیاسی جماعتیں انہیں واپس لینے پر مجبور ہوں گی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو نظر انداز کرکے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، اس لیے تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا وقت کی ضرورت ہے۔