پاکستان کے مزدوروں کے مسائل اور حل کے راستے
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں محنت کش طبقات…مزدور، کسان، دیہاڑی دار، گھریلو ملازمین، صنعتی ورکرز اور سرکاری ملازمین بدترین معاشی دباؤ، استحصال اور غیر منصفانہ نظام کا سامنا کر رہے ہیں۔
مسائل کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے، لیکن انہیں حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ اور سنگین بنا دیا گیا ہے۔
مزدور طبقہ ’’بدل دو نظام‘‘ تحریک کا حصہ بن کر ہی اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہی واحد امید اور راستہ ہے جس کے ذریعے موجودہ ظالمانہ، فرسودہ، جاگیرداری و سرمایہ دارانہ نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔ وہ نظام جو چند ہزار سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بالادست افسر شاہی کے ٹرائیکا پر قائم ہے۔
یہی نظام ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی واضح مثال انرجی بحران ہے۔ ایک مصنوعی بحران جسے لوٹ مار کا ذریعہ بنا کر صنعتیں بند کی جا رہی ہیں، سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
زیر زمین وسائل کے بہتر استعمال، ٹیکنالوجی کے حصول اور روزگار بڑھانے کے بجائے، غیر ملکی انحصار نے قیمتی وسائل ضائع کر دیے ہیں۔
پاکستان کی لیبر فورس کا موجودہ منظرنامہ
3سال سے اقتصادی سروے میں مزدوروں کے حوالے سے ڈیٹا شامل نہیں کیا جاتا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق:
لیبر فورس: تقریباً 8.
83% مزدور غیر رسمی (Informal) سیکٹر میں شامل
یہ مزدور لیبر قوانین، سوشل پروٹیکشن، EOBI، سوشل سیکورٹی سے محروم ہیں
باقی 16–17% کے لیے قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
مستقل ملازمت کا خاتمہ اور ٹھیکیداری نظام تیزی سے بڑھ رہا ہے
سندھ و پنجاب لیبر کوڈز ٹھیکیداری نظام کو قانونی تحفظ دے رہے ہیں
ٹریڈ یونینز کا حق عملاً محدود ۔ صرف 2% مزدور یونین بنا سکتے ہیں
سوشل پروٹیکشن سے فائدہ اٹھانے والے 3–5% سے بھی کم ہیں
سوشل پروٹیکشن اداروں کی صورتحال
EOBI، WWF، سوشل سیکورٹی
تینوں اداروں میں رجسٹریشن کی شرح 5% سے بھی کم
کرپشن، بدانتظامی، شفافیت کی عدم موجودگی
کھربوں روپے لوٹ مار کا شکار
مزدور کے بڑھاپے اور علاج کا کوئی یقینی نظام موجود نہیں
کم از کم اجرت
مقررہ کم از کم اجرت: 40,000 روپے ماہانہ
عمل درآمد: 10% سے بھی کم
وفاق میں اب بھی گزشتہ سال کی اجرت 37,000 روپے رائج
شعبہ وار مزدور مسائل
-1 زرعی مزدور (Agriculture) — 37% سے زائد لیبر فورس
انتہائی کم اجرت
زمین کے حقوق کی پیچیدگیاں
موسمی خطرات، بچوں کی مشقت
صحت و تعلیم کی عدم دستیابی
لیبر قوانین، سوشل پروٹیکشن، سوشل سیکورٹی سے مکمل محرومی
-2 صنعتی شعبہ (ٹیکسٹائل، مینوفیکچرنگ)
حفاظتی قوانین پر عمل نہ ہونے کے برابر
غیر رجسٹرڈ کنٹریکٹ لیبر
اوور ٹائم کی جبری مشقت
صنعتی حادثات میں ورکرز کو معاوضہ نہ ملنا
چھوٹے کارخانوں میں مکمل استحصال
-3 خدماتی شعبہ (تعمیرات، ریٹیل، ٹرانسپورٹ، گھریلو ملازمین)
تعمیراتی مزدوروں کے حالات: انتہائی خراب
گھریلو ملازمین:
کوئی قانونی تحفظ نہیں
انتہائی کم اجرت
کام کے اوقات بے ضابطہ
صحت/تعلیم تک رسائی محدود
-4 انفارمل سیکٹر… پاکستان کا سب سے بڑا طبقہ
اسٹریٹ وینڈرز، چھوٹے ہنر مند، خود روزگار لوگ
ریاستی سوشل پروٹیکشن سے مکمل باہر
آمدنی غیر یقینی
بچوں کی تعلیم اور صحت تک رسائی محدود
تعلیم اور صحت کے شدید بحران
تعلیم
تقریباً 3 کروڑ بچے اسکول سے باہر … سب سے زیادہ مزدور گھرانے متاثر
فیسوں کا بوجھ… نجکاری نے حالات مزید خراب کر دیے
ایک طبقہ اشرافیہ کے سکولوں سے تعلیم حاصل کرتا ہے جبکہ مزدور طبقہ محروم رکھا گیا ہے
صحت
نجکاری اور کم بجٹ سے حالات بدترین
پبلک ہسپتالوں کی کمی
نصف آبادی کو علاج کے اخراجات ایک بڑا مالی بوجھ
نجکاری کے منفی اثرات
تعلیم کی نجکاری
کم آمدنی خاندانوں کے لیے فیس ناقابل برداشت
پبلک سکولوں کے بجٹ میں کمی سے معیار گرا، ناہمواری بڑھی
صحت کی نجکاری
علاج مہنگا… مزدور طبقہ صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم
عوامی اسپتالوں کی نجکاری کے خلاف بے سود مزاحمت
سرکاری ملازمین کے مسائل بھی مزدور مسائل کا حصہ
مستقل نوکریوں کا خاتمہ
آؤٹ سورسنگ کا بڑھتا رجحان
پنشن اور
Leave Encashmentختم کرنے کی کوششیں
ترقی کے راستے محدود
سرکاری ملازمین پر پابندیاں جبکہ اشرافیہ (ججز، جرنیل) کی مراعات میں اضافہ
اضافی اہم مسائل جو اوپر موجود نہیں تھے … شامل کیے گئے ہیں:
مہنگائی اور اجرت کا فرق
مہنگائی کی شرح 25–30% جبکہ اجرت اس کا نصف بھی نہیں۔
سوشل ڈائیلاگ کی کمی
حکومت، مالکان اور مزدوروں کے درمیان مؤثر مذاکراتی نظام موجود نہیں۔
خواتین مزدوروں کے مسائل
ہراسگی
موجودہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے خطرات
میٹرنٹی بینیفٹس کا نہ ملنا
کم اجرت اور زائد اوقات کار
ٹیکنالوجی/آٹومیشن
جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ۔ لیکن اس کے لیے ’’ری اسکلنگ پروگرام‘‘ موجود نہیں۔
مہاجر اور افغان لیبر
زیادہ استحصال کا شکار، کم اجرت پر مجبور، بغیر قانونی تحفظ۔
مطالبات
1۔ غیر رسمی مزدوروں کی ملک گیر رجسٹریشن مہم
EOBI، سوشل سیکورٹی، WWF میں شمولیت یقینی بنائی جائے۔
2۔ سوشل پروٹیکشن کا دائرہ کار بڑھایا جائے
غریب مزدوروں کے لیے سادہ اور سبسڈی والی کنٹریبیوشن اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔
3۔ کم از کم اجرت کا 100% نفاذ
موبائل لیبر انسپیکشن ٹیمیں، فیکٹری سرویلنس اور سخت سزائیں۔
4۔ بچوں کی تعلیم قومی ترجیح
مزدور گھرانوں کے بچوں کے لیے مفت تعلیم، وظائف، کتابیں، ٹرانسپورٹ۔
5۔ صحت اور تعلیم حکومت کی بنیادی ذمہ داری
نجکاری اور آؤٹ سورسنگ بند کی جائے۔
6۔ ہر صوبے میں مزدور ڈیٹا بیس قائم کیا جائے۔
Evidence Basedپالیسی تشکیل دی جائے۔
7۔ سرکاری ملازمین کے حقوق کا مکمل تحفظ
پنشن، ترقی، مستقل نوکریاں، اساتذہ کے حقوق کی بحالی۔
8۔ آزاد اور طاقتور ٹریڈ یونینز
رجسٹریشن، ریفرنڈم، چارٹر آف ڈیمانڈ معاہدات میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔
9۔ EOBI پنشن میں اصلاحات
پنشن کم از کم اجرت کے مطابق کی جائے۔
10۔ سندھ و پنجاب لیبر کوڈ فوری واپس
تمام اسٹیک ہولڈرز، خصوصاً لیبر نمائندوں کے ساتھ مشاورت ضروری۔
11۔ صنعتی صحت و حفاظت (OSH) قوانین پر سخت عملدرآمد
12۔ مہنگائی سے مطابقت رکھنے والی سالانہMinimum Wage Indexation
مزدور پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، مگر سب سے کم تحفظ انہیں حاصل ہے۔
ملک کی تعمیر و ترقی اور مستقبل تب ہی روشن ہو سکتا ہے جب محنت کش طبقے کے جائز حقوق، باعزت روزگار، سوشل پروٹیکشن اور تعلیم و صحت کے مساوی مواقع یقینی بنائے جائیں۔
اس تحریر کے ذریعے محنت کشوں کے حقیقی مسائل، ان کو درپیش نظام کے چیلنجز اور عملی حل مؤثر انداز میں سامنے لایا گیا ہے۔
شمس الرحمن سواتی
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین سوشل پروٹیکشن سوشل سیکورٹی مزدوروں کے موجود نہیں
پڑھیں:
EOBIعملے کے ہتک آمیز رویہ کا نوٹس لیا جائے‘ قاسم جمال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکرٹری محمدقاسم جمال نے نیشنل ریفائنری کنٹریکٹر ورکرز یونین سی بی اے کے جنرل سیکرٹری شاکرمحمود صدیقی کے ساتھ عوامی مرکز ای او بی آئی دفتر میں ای او بی آئی کے آفیسر عرفان احمد کی جانب سے ہتک آمیزناروارویہ اختیار کیے جانے اور گارڈکے ذریعے مزدور رہنما کو دفتر سے نکالے جانے کی کوششوں کی سخت الفاظ میں مذمت اوراحتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ای او بی آئی خالص محنت کشوں کے فنڈ پر چلنے والا ادارہ ہے۔ اس ادارے میں مزدور دشمن افرادکی تعیناتی کسی بھی قیمت پر قبول نہیں ہے۔ حکومت فوری طور پرواقعہ کی انکوائری کرے اورمزدور دشمن ای او بی آئی اہلکارعرفان احمد کو ملازمت سے برطرف کیا جائے ورنہ این ایل ایف اس مزدور دشمن رویہ کے خلاف سخت احتجاج کرے گی۔ مزدور دشمن نااہل افسران کو محنت کشوں کے اداروں میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو خطوط بھی لکھے گئے ہیں۔