حکومت آئی ایل او کنونشن 190 کی توثیق کرے‘ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خواتین کے خلاف ہراسانی کے خاتمے کے بین الاقوامی دن کے موقع پر ہوم بیسڈ وویمن ورکرز فیڈریشن پاکستان (ایچ بی ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے زیراہتمام سیمینار کراچی پریس کلب میں منعقد ہوا، جس کی صدارت فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکرٹری زہرا خان کر رہی تھیں۔ سیمینار میں ڈومینیکن ریپبلک کی ان تین بہادر ’’بٹر فلائی سسٹرز‘‘ کی آمریت کے خلاف جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ جن کا یہ دن ہر سال ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس سیمینار کا مقصد جمہوری آزادیوں کا دفاع اور ملک میں مزدور عورتوں کو درپیش ہراسانی، تشدد اور سماجی و معاشی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا تھا، جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔
مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بٹر فلائی‘‘ کے نام سے مشہور تین بہنیں … پٹر یا، منروا اور ماریا مرنابل …دنیا بھر میں ظلم اور جبر کے خلاف حوصلے اور مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔ آمریت مخالف ان باہمت اور بہادر بہنوں کی جدوجہد پاکستان کی عورتوں، خصوصاً مزدور عورتوں کے لیے ترغیب اور شعوری مزاحمت کا حوصلہ فراہم کرتی ہے تاکہ وہ ظلم پر مبنی نظام، اس میں موجود عورت دشمن سوچ، بڑھتی ہوئی ہراسانی اور پرتشدد رویوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
مقررین نے مزید کہا کہ یہ وہ درخشاں تاریخی میراث ہے جو سماج پر مسلط جابرانہ پدرشاہی نظام کو چیلنج کرنے کا عزم فراہم کرتی ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں غیر جمہوری سوچ، پرتشدد طرزِ عمل اور اختلافِ رائے کو طاقت سے دبانے کے طور طریقے برقرار رکھتا ہے۔
عورتیں، خصوصاً فیکٹریوں اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین مزدور ، اپنے سیاسی و سماجی شعور سے لیس ہو کر استحصال کی ہر شکل کے خلاف تحریک کی صورت ڈٹی ہوئی ہیں۔ انہیں اپنے مسائل کا ادراک ہے اور وہ ان راستوں سے بھی واقف ہو رہی ہیں جو معاشرتی انصاف اور اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
مقررین نے کہا کہ تقریباً پچاسی فیصد خواتین مزدور کام کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر فیکٹریوں اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں خواتین کی تعداد تقریباً 25 فیصد ہے، جہاں کام کے غیر محفوظ حالات، اجرت میں امتیاز اور جنسی ہراسانی عام ہے۔ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین پاکستان کی معیشت میں بھر پور حصہ ڈالنے کے باوجود قانونی اور سماجی تحفظ سے محروم ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ استحصال اور ہر اسانی کا شکار بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد گھر یلو اور غیر رسمی مزدور خواتین مختلف اقسام کی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں، مگر بد قسمتی سے شکایات درج کروانے اور انصاف کے حصول کے لیے ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ فرسودہ روایات صنفی و جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھانے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
مقررین نے یاد دلایا کہ پاکستان نے 2010ء میں کام کی جگہوں پر ہراسانی کے خلاف قانون بھی پاس کیا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 90 فیصد فیکٹریوں میں اس قانون کے تحت کمیٹیاں موجود ہی نہیں، اور جہاں موجود بھی ہیں وہ محض کاغذی ہیں، جنہیں صرف بین الاقوامی برانڈز کو دکھانے کے لیے بنایا جاتا ہے اور وہ مینجمنٹ کے خلاف کارروائی نہیں کرتیں۔
مقررین نے کہا کہ ملک میں جمہوری آزادیوں کو سلب کیا جا رہا ہے۔ حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو غیر قانونی ہتھکنڈوں سے دبایا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنوں، خصوصاً خواتین کو پابند سلاسل کرنے بلکہ جبر اًلاپتہ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ایک بڑی متبادل سماجی و سیاسی مزاحمتی تحریک وقت کی ضرورت ہے، جس میں ‘‘ بٹر فلائی سٹرز کی جدوجہد رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
سیمینار کے اختتام پر ہوم بیسڈ وویمن ورکرز فیڈریشن نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بٹرفلائی کی میراث کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف، وقار اور محفوظ ماحول کی جد وجہد آخری فتح تک جاری رہے گی۔
اس موقع پر مطالبات پیش کیے گئے۔
-1تمام شعبوں بشمول کھیت اور غیر رسمی شعبے میں ہر اسانی مخالف قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
-2 خواتین خصوصاً مزدور خواتین کے لیے آسان، محفوظ اور بے خوف شکایات درج کروانے کا نظام قائم کیا جائے۔
-3 پاکستان آئی ایل او کنونشن 190 کی فی الفور توثیق کرے اور موجودہ قوانین پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنائے۔
-4 خواتین مزدوروں کو مناسب اجرت اور سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹر کیا جائے۔
-5آزادی اظہار سمیت تمام جمہوری آزادیوں کو بحال کیا جائے اور پیکا جیسے کالا قانون واپس لیا جائے۔
-6 کام کی جگہوں پر ہراسانی کے خلاف کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
-7 عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔
-8 تمام سیاسی اسیران بشمول کامریڈ علی وزیر اور ڈاکٹر مہر رنگ بلوچ و دیگر کو رہا کیا جائے۔
-9 ڈیجیٹل ہراسگی کے مکمل روک تھام کے لیے مضبوط اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
-10 کم عمری کی شادی کو سندھ کی طرح تمام صوبوں میں غیر قانونی قرار دیا جائے۔
سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں مہناز رحمان (معروف صحافی اور وویمن رائٹس ایکٹوسٹ)، ڈاکٹر لیٹی ناز ( پروفیسر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹر – سینٹر فار بزنس اینڈ اکنامک ریسرچ)، زہراخان (مرکزی جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وویمن ورکرز فیڈریشن)، نرگس رحمان (چیئرپرسن پاکستان وویمن فاؤنڈیشن فار پیس، ڈاکٹر مومل، اقصی کنول (آلٹرنیٹ) ، میمن نسا (ٹیکسٹائل اور گارمنٹ یوین ممبر )، سائرہ فیرمو ( جنرل سیکرٹری یونائٹیڈ ایج بی ورکرز یونین)، پروین بانو (زردوزی ورکرز یونین) اور دیگر شامل تھے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ورکرز فیڈریشن اور غیر رسمی ہوم بیسڈ کیا جائے کے لیے ا میں کام کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
ایران: بے حجاب خواتین کی شرکت کا الزام، میراتھن ایونٹ کے 2 منتظمین گرفتار
ایرانی حکام نے ایک میراتھن کے 2 منتظمین کو اُس وقت گرفتار کر لیا جب ایونٹ کی تصاویر میں متعدد خواتین بغیر حجاب کے دوڑتی دکھائی دیں۔
ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں کِش فری زون کے ایک سرکاری اہلکار اور مقابلے کا انتظام کرنے والی نجی کمپنی کا ایک کارکن شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خامنہ ای کے اہم مشیر کی بیٹی کی بے حجاب عروسی لباس میں ویڈیو پر تنازع
اسلامی جمہوریہ کی عدلیہ کو حالیہ عرصے میں قدامت پسند حلقوں کی جانب سے اس بات پر شدید تنقید کا سامنا ہے کہ خواتین کے لیے لازمی حجاب کے قانون پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ 2022 کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے بعد ایران میں خواتین تیزی سے حجاب کے قانون کو نظر انداز کر رہی ہیں۔
جمعے کو ہونے والی میراتھن کی آن لائن گردش کرتی تصاویر میں کئی خواتین اسلامی جمہوریہ کے سخت لباس کے قواعد کی خلاف ورزی کرتی نظر آئیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس میراتھن میں تقریباً 5 ہزار افراد نے حصہ لیا۔
یہ بھی پڑھیے: ایران: بغیر حجاب کے خریداری کی اجازت دینا بک شاپ کو مہنگا پڑگیا
مقامی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ منتظمین کو پہلے ہی قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود ایونٹ ایسے طریقے سے منعقد کیا گیا جو ‘عوامی شرافت کے منافی’ تھا۔
عدلیہ نے کہا ہے کہ خلاف ورزیوں کے باعث متعلقہ ذمہ داران کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران حجاب قوانین میراتھن