یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یورپ کے مختلف ممالک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکل آنا، دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی شعور کا ایک ایسا اظہار ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ مسلسل اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں ہے، اور ماؤں، بچوں، بوڑھوں اور عام شہریوں کی لاشیں ملبے تلے سے اُٹھ رہی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عالمی ادارے، طاقتور ممالک اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتیں عملی اقدام کے بجائے صرف تشویش، افسوس اور ’سنجیدہ نوٹس‘ جیسے بے معنی بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔ ایسے میں یورپ کی شاہراہوں، پلوں، چوراہوں اور مرکزی اسکوائرز میں اٹھنے والی انسانی آوازیں اُمید کا ایک روشن چراغ بن کر سامنے آئی ہیں۔ لندن، پیرس، میونخ، ایمسٹرڈیم، برسلز، اوسلو، میلان اور بارسلونا… یہ وہ شہر ہیں جو شام اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دنوں میں عام طور پر پْرسکون تفریحی ماحول کے لیے مشہور ہیں۔ مگر اب ان سڑکوں پر فلسطینی پرچموں کی لہر، احتجاجی نعروں کی بازگشت اور انسانی حقوق کے مطالبات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ہزاروں لوگ صرف کسی سیاسی جماعت، کسی نظریاتی گروہ یا مذہبی وابستگی کے تحت نہیں نکلے بلکہ انسانی تکلیف، معصوم بچوں کی چیخوں اور انسانیت کے نام پر نکلے ہیں۔
بینرز پر لکھے الفاظ “Stop the Genocide”, “Free Palestine, “Ceasefire Now”, “Justice for Gaza” صرف سادہ نعرے نہیں بلکہ دنیا کے اجتماعی شعور کی نمائندگی بن چکے ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو نہ صرف غزہ کے لیے اْٹھی ہے بلکہ ان عالمی اداروں کے لیے بھی ایک واضح انتباہ ہے جو اپنی خاموشی کے باعث انسانی تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں شریک ِ جرم بنتے جا رہے ہیں۔
یورپ کی سڑکوں پر نکلنے والے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطین صرف عرب دنیا یا مسلم دنیا کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری انسانیت کا درد بن چکا ہے۔ مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان، طلبہ، اساتذہ، مزدور، یہودی امن پسند، مسیحی رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، خواتین اور بچے شریک تھے۔ اس ملے جلے ہجوم نے ایک اصولی بات پر یکجہتی اختیار کی: انسانیت کو قتل ہونے سے بچایا جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری حملے انسانی اصولوں کے خلاف ہیں، اور دنیا کا کوئی قانون چاہے وہ جنیوا کنونشن ہو یا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، بے گناہوں کے اجتماعی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر اس کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں، ہلاکتوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، اور ایک پوری نسل اپنے مستقبل کے ساتھ مٹتی جا رہی ہے۔
یہ سوال آج ہر یورپی ریلی کا مرکزی نعرہ بن چکا ہے کہ عالمی برادری عملی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی؟ یورپی مظاہرین واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں، اور ان پر بین الاقوامی عدالت (ICC) اور اقوام متحدہ کی جانب سے فوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف آج کی جنگ نہیں۔ اس کی جڑیں بیسویں صدی کی اوائل میں برطانوی مینڈیٹ اور قومی ریاستوں کے قیام کے پیچیدہ عمل میں پیوست ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہونے والی جنگوں اور علاقائی کنٹرول کے تنازعات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس میں اسرائیل؛ اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی نظر میں مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں ’’قابض فوج‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
آج، عالمی طاقتیں اپنی جغرافیائی سیاست، اسلحہ جاتی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کے توازن کے باعث اس تاریخی الجھن میں عملی اقدام سے گریزاں ہیں۔ جب عالمی ادارے سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جائیں، تو عوامی تحریکیں ہی وہ واحد قوت بنتی ہیں جو دنیا کو راستہ دکھاتی ہیں اور یہی قوت یورپ کے گلی کوچوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔
رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں صرف جذباتی اپیلیں نہیں کیں بلکہ اعداد و شمار، رپورٹوں اور عینی شواہد کے حوالے سے دنیا کو جھنجھوڑا ہے۔ غزہ میں 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ہزاروں عمارتیں، اسکول، مساجد، چرچ، اسپتال اور پناہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ یورپ کے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں: اگر اتنے ہی ہلاکتیں کسی یورپی شہر میں ہوتیں تو کیا دنیا کا ردعمل ایسا ہی ہوتا؟ کیا پھر بھی اقوام متحدہ محض ’نوٹس‘ لیتی؟ کیا پھر بھی اسی طرح کی خاموشی ہوتی؟ یہ سوال صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ عالمی انصاف کے معیار کے حوالے سے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
یورپ میں ہونے والے مظاہروں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ احتجاج وقتی نہیں، بلکہ ایک مستقل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ہر ہفتے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ چھاؤنیاں قائم ہیں۔ بہت سی جامعات نے اسرائیل کے ساتھ مالی تعاون کے خلاف قراردادیں منظور کر لی ہیں۔ متعدد یورپی پارلیمانوں میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے: ’’جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، ہم آواز اُٹھاتے رہیں گے‘‘۔ یعنی یہ احتجاج ایک عالمی ضمیر کی مہم بن چکا ہے، جسے روکنا اب کسی طاقت کے ہاتھ میں نہیں۔
ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودی تنظیمیں، ربی حضرات اور اسرائیلی نژاد یورپی شہری بھی شریک ہیں۔ ان کا مؤقف بہت واضح ہے: ’’اسرائیل کی جارحیت ہمارے مذہب، ہماری تاریخ اور ہماری اخلاقیات کے خلاف ہے‘‘۔ یہ منظر پوری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطین کے لیے آواز اٹھانا کسی قوم، کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ہے۔ اور ظلم ہمیشہ انسانیت کا مشترکہ دشمن ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی، اگرچہ تعداد میں کم، لیکن کچھ آوازیں اسی طرح کے اخلاقی احتجاج کو بلند کر رہی ہیں۔
یورپ میں عوامی احتجاج نے مین اسٹریم میڈیا کو بھی اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ رپورٹیں جو پہلے نظر انداز ہو رہی تھیں، اب نمایاں جگہ پا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین، سیاسی تجزیہ کار، اور جنگی رپورٹرز کھل کر اسرائیلی پالیسیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دباؤ نے کئی ممالک کی حکومتوں کو سخت سوالات کا سامنا کروایا ہے۔ اب یورپی سیاست میں ایک نئی بحث جنم لے چکی ہے کہ آیا اسرائیل کو غیر مشروط حمایت جاری رکھنا اخلاقی اور جمہوری طور پر درست ہے یا نہیں۔ یورپ میں ہونے والی لاکھوں افراد کی ریلیوں نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطین اب کوئی ’تنازع‘ نہیں یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اور جب انسانیت خطرے میں ہو، تو سرحدیں اور قومیتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے گلی کوچوں میں گونجنے والی آوازیں صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی اٹھ رہی ہیں۔ اس بحران میں، اقوام متحدہ کی عدالتوں میں اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، اور انسانی امداد کے بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یورپ میں اٹھنے والی انسانیت کی یہ آوازیں آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوں گی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور عوام کا اخلاقی دباؤ اب عالمی سیاست کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اندھیری راتوں میں بھی امید کے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ اور جب لاکھوں لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں، تو تاریخ کا پہیہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ فلسطین کا مسئلہ صرف سیاست نہیں؛ انسانیت کا امتحان ہے۔ اور یورپ کے یہ احتجاج ثابت کر رہے ہیں کہ انسانیت اب بیدار ہو چکی ہے۔ جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، دنیا بھر کی سڑکیں خاموش نہیں ہوں گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ نہیں بلکہ یہ احتجاج یورپ میں سڑکوں پر ا وازیں یورپ کے دنیا کو نے والے رہے ہیں کے خلاف رہی ہیں میں ہو اور ان کے لیے
پڑھیں:
اصل ویزے کے باوجود یورپ جانیوالوں کو بھی روکا جانے لگا
لاہور:اصل ویزا ہونے کے باوجود لاہور سمیت ملک بھر میں یونان اٹلی پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک جانے والوں کو بھی روکا جانے لگا.
سیکڑوں پاکستانی اپنے سفری دستاویزات اٹھائے پروٹیکٹر آف امیگرنٹس کے دفاتر چکر لگانے پر مجبور ہیں مگر ادارے نے دستاویزات کو پروٹیکٹ کرنے سے ہی انکار کر دیا.
پروٹیکٹ کے لیے آنے والوں کو کہا جا رہا ہے کہ اوپر سے حکم ہے کہ کسی بھی زرعی ماہر، ڈرائیور اور کلینر کی ملازمت پر یونان اٹلی پولینڈ جانے والے مسافر کی سفری دستاویزات کو پروٹیکٹ نہیں کرنا.
پہلے شک کی بنیاد پر عمرہ اور دبئی ملازمت پر جانے والوں کو روکا جا رہا تھا اب جن لوگوں نے ڈالر، پائونڈ اور یورو میں فیس ادا کرنے کے بعد ویزا حاصل کیا ان کو بھی یورپ جانے کے لیے روکے جانے لگا.
تحریری طور پر کوئی احکامات سامنے نہیں آئے، بس زبانی احکامات پر روکا جا رہا ہے، جب دستاویزات ہی پروٹیکٹڈ نہیں ہوں گی تو وہ ٹریول ہی نہیں کر سکتے, اس طرح باکو جانے والوں کو بھی روکا جا رہا ہے.
شہریوں عدنان یونس اور محبوب صابر نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد بیس برس یونان میں رہے، ان کی وفات بھی وہیں ہوئی، مجھے ویزہ بھی انہوں نے بھجوایا، ہزاروں یورو فیس کی مد میں ادا کیے مگر دستاویزات پروٹیکٹ نہیں کر رہے۔
کہتے ہیں اوپر سے حکم ہے، تحریری آرڈر نہیں دیئے جا رہے، زیادہ بات چیت کر یں تو دفتر سے نکال دیتے ہیں۔
محبوب نے کہا کہ میں زمیندار ہوں، یونان فارم ہائوس کی ملازمت کے لیے ویزہ لیا، یونان ایمبیسی کی تمام ریکوائرمنٹ پوری کیں، اب ایک سال کا ویزہ ملا، ایک ماہ ہوگیا، یہ میری دستاویزات کی ویریفیکشن ہی نہیں کررہے۔