چوہدری اسلم کی بیوہ نے فلم ’دھریندر‘ کا جواب دینے کا ارادہ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
سندھ پولیس کے شہید افسر چوہدری اسلم کی بیوہ نورین اسلم نے پاکستان مخالف بھارتی فلم ’دھریندر‘ کا جواب فلمی انداز میں دینے کا ارادہ کرلیا۔
ان کا کہنا ہے کہ متنازع بھارتی فلم میں ان کے شوہر کے کردار کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میں اپنے شوہر کی زندگی اور خدمات پر مبنی فلم یا ڈرامہ تیار کروں گی۔
پاکستان مخالف بیانیے پر مبنی بھارتی فلم ’دھریندر‘ کی ریلیز کے بعد نورین اسلم نے کراچی پریس کلب میں نجی نیوز چینل سے گفتگو کی، جہاں انہوں نے بھارتی فلم میں چوہدری اسلم کے محدود کردار کی عکاسی پر بات کی اور کہا کہ فلم میں ان کے شوہر کی کہانی درست انداز میں پیش نہیں کی گئی، اسے درست انداز میں پیش کرنے کے لیے فلم یا ڈرامہ بناؤں گی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں بننے والی فلم ’دھرندھر‘ ہماری فورسز کے خلاف ہے اور پاکستان کے بارے میں ان کے عزائم کبھی واضح نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلم میں چوہدری اسلم کے کردار کو صرف لیاری آپریشن تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ انسدادِ دہشت گردی میں ان کی خدمات کو نظر انداز کیا گیا۔
نورین اسلم نے کہا کہ اگر بھارت کو فلم بنانی ہی تھی تو ٹی ٹی پی پر بناتے، مگر انہوں نے صرف لیاری کو موضوع بنایا۔
انہوں نے زور دیا کہ چوہدری اسلم کے کیریئر کو کسی ایک آپریشن تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ چوہدری اسلم نے اہم کردار ادا کیے، ہم فلم یا ڈرامے کی صورت میں چوہدری کی کہانی سامنے لائیں گے کیونکہ بھارت نے ان کے کردار کو صرف لیاری تک محدود کر دیا ہے۔
نورین اسلم نے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد ان کے شوہر کی خدمات کا مکمل احاطہ کرنا ہے، کیونکہ ان کا کردار صرف لیاری تک محدود نہیں تھا، انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ لڑی اور خطرناک نیٹ ورکس کا سامنا کیا۔ اُس فلم میں ان کے شوہر کی اصل وراثت اور سروس کا مکمل زمانی خاکہ پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ بیانات 5 دسمبر کو ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’دھرندھر‘ کے بعد سامنے آئے، جس پر پاکستانی اور بھارتی ناظرین میں بحث جاری ہے کہ فلم میں کراچی کو بار بار دھماکوں اور تشدد کے مناظر تک محدود کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چوہدری اسلم خان سواتی نے 1980 سے 2014 میں اپنی شہادت تک سندھ پولیس میں خدمات انجام دیں۔
انہوں نے کراچی میں منظم جرائم، شدت پسند نیٹ ورکس اور گینگز کے خلاف متعدد آپریشنز کی قیادت کی۔
9 جنوری 2014 کو لیاری ایکسپریس وے پر کار بم حملے میں چوہدری اسلم اپنے گارڈ، ڈرائیور اور 2 پولیس اہلکاروں کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چوہدری اسلم میں چوہدری بھارتی فلم ان کے شوہر صرف لیاری میں ان کے تک محدود انہوں نے شوہر کی فلم میں کہا کہ
پڑھیں:
پی پی نے بھارتی فلم کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پیپلز پارٹی کے کارکن محمد عامر نے بھارتی فلم دھْرندھر کے ٹریلر میں بینظیر بھٹو کی تصاویر اور پیپلز پارٹی کے پرچم و جلسوں کے مناظر کے مبینہ غیر مجاز استعمال اور جماعت کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے کے طور پر دکھائے جانے کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ کی عدالت میں آئینی درخواست دائر کردی ہے جس میں فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسرز، اداکاروں اور متعلقہ عملے کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست گزار نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے فلم دھریندھر کا آفیشل ٹریلر سوشل میڈیا پر دیکھا جس میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر، پارٹی پرچم اور ریلیوں کے مناظر بلا اجازت شامل کیے گئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹریلر میں پیپلز پارٹی کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی جماعت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو جھوٹ، اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا ہے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ فلم کی تشہیری مہم میں کراچی، خصوصاً لیاری کو ٹیررسٹ وار زون قرار دیا گیا ہے جو کہ شہر اور اس کے باسیوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز، بے بنیاد اور نقصان دہ تاثر ہے جس سے پاکستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ درخواست میں فلم کے ڈائریکٹر آدتیہ دھر، پروڈیوسر لوکیش دھر، جیوتی کشور دیش پانڈے، اداکار رنویر سنگھ، سنجے دت، اکشئے کھنہ، آر مادھون، ارجن رامپال، سارہ ارجن، راکیش بینی، سنیماٹوگرافر وکاش نولکھا، ایڈیٹر شیو کمار وی پانیکر اور دیگر نامعلوم عملے کو بطور ملزمان نامزد کیا گیا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ فلم کا ٹریلر عوام میں پیپلز پارٹی، اس کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف نفرت، حقارت اور اشتعال پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، جو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 499، 500، 502، 504، 505، 153-A اور 109 کے تحت قابلِ دست اندازیِ پولیس جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔درخواست گزار کے مطابق انہوں نے پولیس اسٹیشن درخشاں کے ایس ایچ او کو تحریری شکایت جمع کرائی مگر پولیس نے نہ تو مقدمہ درج کیا اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی کی، جس کے باعث وہ عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پولیس کو فوری طور پر ایف آئی آر درج کرنے، ایس ایس پی ساو?تھ کو شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی نگرانی کا حکم دیا جائے جبکہ فلم سے متعلق تمام ذمہ داروں کو تفتیش میں نامزد کیا جائے۔