شاعرِ مشرق اور مصورِ مشرق کی پتنگ بازی
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
علامہ اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین کا 2016 میں ایکسپریس اخبار کے لیے انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ پتنگ بازی کے بغیر وہ لاہور کا تصور نہیں کر سکتے اور یہ وہ شوق ہے جو انہیں بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے۔ان کے پرکھوں میں سب سے ممتاز علامہ اقبال ہیں جن کے بارے میں انہوں نے بتایا:
’علامہ اقبال بسنت مناتے تھے۔ ان کے پتنگ بازی کرنے کے لیے موچی دروازے سے خاص نرم قسم کی لیپو پتنگیں تیار کرائی جاتیں کیوں کہ وہ بڑے نازک تھے اور انہیں چیرہ بہت جلد لگ جاتا تھا۔‘
علامہ اقبال اپنے بیٹے جاوید کے ساتھ بھی اس شوق میں سنگت کرتے تھے جنہوں نے اپنے مضمون ‘اقبال ایک باپ کی حیثیت سے’ میں لکھا ہے:
’کئی بار کھلی بہار میں جب میں کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا ہوتا تو وہ (اقبال) دبے پاؤں اوپر آجاتے اور میرے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی اور پتنگ سے پیچ لڑایا تو ہمیشہ ہماری پتنگ ہی کٹی۔‘
جاوید اقبال کے مضمون سے ہم ان کی خودنوشت ’اپنا گریباں چاک‘ سے رجوع کرتے ہیں جس میں ’جاوید منزل‘ میں بسنت منانے کا تذکرہ ہے:
’بسنت کا دن منانے کے لیے بھی میری خواہش کے مطابق خوب اہتمام کیا جاتا۔ شب کو ڈور کا پنّا اور پتنگیں سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح منہ اندھیرے ہم جولیوں کے ساتھ کوٹھے پر چڑھ جاتا۔ سارا دن پتنگیں اڑاتے یا پیچ لڑاتے گزرتا اور رات گئے تک نیچے اترنے کا نام نہ لیتا۔‘
شاعر مشرق سے اب آجاتے ہیں مصوّر مشرق عبد الرحمان چغتائی کی طرف جنہوں نے پتنگ بازی کے شوق کو خوب پروان چڑھایا۔
ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ کے ایڈیٹر ریاض احمد کا اپنے اشاعتی ادارے ’نیا ادارہ‘ کی کتابوں کے سرورق بنوانے کے لیے ایک زمانے میں چغتائی صاحب سے برابر ملنا ہوتا تھا۔
ان کے مضمون ’عظمت آدم‘ میں چغتائی صاحب کی پتنگ بازی کا حوالہ موجود ہے:
’چغتائی صاحب پتنگ بازی کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔‘
چغتائی صاحب کی پتنگ بازی اور پتنگ سازی پر قدرے تفصیل سے مقبول جہانگیر نے ’یارانِ نجد‘ میں ان کے خاکے میں روشنی ڈالی ہے۔
بسنت سے ایک ہفتہ پہلے وہ اپنی مصروفیات ترک کرکے بسنت کے لیے وقف ہو جاتے تھے۔
مقبول جہانگیر کے بیان سے چغتائی صاحب کے شوق فراواں کا بڑی اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے:
’ایک سے ایک خوب صورت پتنگ اور تکل اپنے ہاتھ سے بنانا، ڈور سوتنا، مانجھا تیار کرنا اور عین بسنت کے روز منہ اندھیرے اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر پتنگ بڑھا دینا، سارا دن ہاؤ ہُو اور پتنگ بازی میں کاٹ دینا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور ہتھیلیوں کو لہولہان کر کے سورج غروب ہونے کے بعد کوٹھے سے اترنا۔ انہیں اس مشغلے میں بے پناہ ذوق و شوق سے مصروف دیکھیں تو کبھی یقین نہ کریں کہ یہی وہ شخص ہے جس کے فن کی مشرق و مغرب میں دھوم ہے اور جو اس وقت معصوم بچوں کی طرح پتنگ اڑانے اور پیچ لڑانے میں کھویا ہوا ہے۔‘
عبد الرحمان چغتائی نے پرانے لاہور میں پتنگ بازی کا عَلم اٹھا رکھا تھا تو استاد اللہ بخش مسلم ٹاؤن میں اس شوق کی آبیاری کر رہے تھے۔
مولانا غلام رسول مہر کے فرزند امجد سلیم علوی ان گنے چنے افراد میں سے تھے جنہوں نے رطب و یابس کی آماج گاہ فیس بک کو معلومات کے دریا بہانے کے لیے استعمال کیا۔
امجد سلیم علوی اس پلیٹ فارم سے وہ قیمتی یادیں شئیر کرتے تھے جن کا مرکز مسلم ٹاؤن ہوتا تھا۔
غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک نے اوّل اوّل یہاں مکانات تعمیر کر کے اسے آباد کرنے کی نیو ڈالی اور یہ بستی رفتہ رفتہ ثقافتی سرگرمیوں اور علمی و ثقافتی شخصیات کا گڑھ بن گئی۔
مسلم ٹاؤن سے امجد سلیم علوی کی ایک سنہری یاد کا تعلق بسنت سے بھی تھا جس میں نامور مصوّر استاد اللہ بخش کی ذات اہم ترین کردار کے طور پر ابھرتی ہے :
’لاہور کی بسنت بچپن سے دیکھتے آرہے تھے۔ استاد اللہ بخش آرٹسٹ تو خاص اہتمام کیا کرتے تھے اور بچوں کو ڈور کے پنّے اور پتنگیں اور گڈے مہینہ بھر پہلے ہی دلوا دیتے تھے۔ مسلم ٹاؤن میں پہلی پتنگ انہی کی چھت سے اڑا کرتی تھی‘۔
علامہ اقبال، عبد الرحمان چغتائی اور استاد اللہ بخش کی پتنگ بازی میں دل چسپی اور ان کے ہاں بڑے اہتمام سے بسنت منانے کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ تینوں اپنے کلچر میں کس قدر رچے بسے تھے۔ اس اہم ثقافتی مظہر سے یہ وابستگی عام آدمی کی خوشیوں میں شریک ہونے کا طریقہ بھی تھا۔
اس عمل میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ ان تینوں کے ربط ضبط کو جنریشن گیپ میں کمی کی سعی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان اکابرین پر ہی بس نہیں اور بھی بہت سی ادبی و ثقافتی سربر آوردہ ہستیوں کا بسنت سے گہرا علاقہ تھا اور اس کا تخلیقی اظہار بھی مختلف اصناف میں ہوتا رہا۔
شاعروں ادیبوں نے نظم و نثر میں بسنت کے رنگ بیان کیے تو مصوروں اور گائیکوں نے اپنی طرز سے اس تہوار سے وابستگی ظاہر کی، لیکن دوسری طرف ایسے رجعت پسند بھی تھے جنہیں خوشی کے اس تہوار سے کد تھی اور وہ اس کے خاتمے کے لیے متحرک رہتے تھے۔
یہ ان وقتوں کی بات ہے جب بسنت کے رنگوں میں خون کا رنگ شامل نہیں ہوا تھا، یہ ایک عظیم ثقافتی سرگرمی کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس لیے قاتل ڈور کے کشتوں سے انہیں ہمدردی کم اور پتنگ بازی پر پابندی کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کی خوشی زیادہ تھی۔
لیکن دوسری جانب پتنگ بازی کے شوقین، ڈور کی ستم رانیوں پر کڑا درد محسوس کرتے رہے اور انسانی جان کی حرمت کے لیے اپنے شوق سے دستبردار ہو گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو قاتل ڈور کے سوداگروں کو پکڑنے میں ناکامی اور اسے استعمال کرنے والے حضرات کی بے حسی پر بھی کڑھتے تھے۔
سر دست بسنت کے شوقین لاہوری فضا میں پتنگوں کے رنگ بکھرنے اور ’بو کاٹا‘ کا نعرۂ مستانہ سننے کے مشتاق ضرور ہیں لیکن ان کو وسوسوں نے بھی گھیر رکھا ہے کہ خدانخواستہ بسنت کے رنگوں میں خون کا رنگ شامل ہو گیا تو اس کے ازلی ناقدین کی بن آئے گی اور اس پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کے مطالبے کو رد کرنا پتنگ بازی کے پروانوں کے لیے شاید ممکن نہیں رہے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استاد اللہ بخش کی پتنگ بازی پتنگ بازی کے علامہ اقبال چغتائی صاحب مسلم ٹاؤن اور پتنگ بسنت کے کے ساتھ کے لیے کے رنگ اور اس کے شوق
پڑھیں:
چین کے وزیر خارجہ سعودیہ، متحدہ عرب امارات اور اردن کے دورے کا آغاز
چین نے مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال اور خطے میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا میں اس وقت نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ اور طاقت کے توازن کے لیے بھی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی آج کسی وقت سعودی عرب کے دورے پر جائیں گے جہاں سے ان کی منزل متحدہ عرب امارات اور پھر اردن ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وانگ یی کا یہ دورہ 12 سے 16 دسمبر تک کا ہے جس میں وہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں گے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکون نے کہا کہ توقع ہے کہ اس دورے کے ذریعے تینوں ممالک کے ساتھ سیاسی باہمی اعتماد مزید مستحکم ہوگا۔
تاحال اس دورے کا ایجنڈا سامنے نہیں آیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ دوطرفہ تعلقات، مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال اور مشترکہ مفادات بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو مشرق وسطیٰ تک توسیع دینے کے لیے بھی متحرک ہے اور اس دورے کا ایک مقصد یہ منصوبہ بھی ہے۔
پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ مذکورہ اقدام صدر شی جن پنگ کی قیادت میں گذشتہ عشرے کے دوران تیار کردہ ایک وسیع عالمی منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2023 میں سفارتی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔