UrduPoint:
2025-04-25@11:50:26 GMT

بچے خطرہ مول نہیں لیں گے، تو سیکھیں گے کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

بچے خطرہ مول نہیں لیں گے، تو سیکھیں گے کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2025ء) آپ نے ممکن ہے دیکھا ہو کہ کوئی بچہ کسی جھولے سے الٹا لٹک کر، کبھی کسی بلند سطح یا ٹیبل سے چھلانگ لگا کر یا سنگلاخ پتھروں والی سطح پر چڑھنے اترنے کی تگ و دو کر رہا ہو یا دوڑتے ہوئے خود کو گرا کر پھسل رہا ہو۔ بچے عموماﹰ بہ ظاہر خطرناک کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مگر سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں محققین کا کہنا ہے کہ ایسے کھیل بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری بھی ہیں۔

میلبورن کی ڈیکن یونیورسٹی میں عوامی صحت و نفسیات کی محقق ایلیتھیا جیریبین کے مطابق وہ شہر کے قریب گرم دھوپ میں ساحل پر اپنی دس اور تیرہ سال کی بیٹیوں کے ساتھ تھیں، جہاں وہ لڑکیاں پتھروں کے ایک ڈھیر پر چڑھ اتر کر کھیل رہی تھیں۔

(جاری ہے)

جیریبین کے مطابق وہ ایسے میں خود سے یہ سوال کر رہی تھیں کہ کیا ان بچیوں کو ایسا کرنا چاہیے؟ ان کا کہنا ہے کہ نوکیلے پتھر اور ان میں پڑی دراڑیں دیکھ کر وہ چکرا رہی تھیں جب کہ بچیاں خوشی سے کھیل رہی تھیں۔

جیریبین کے مطابق ایسے میں انہیں ان بچیوں کو روکنے کا خیال بھی آیا کہ انہیں کوئی چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔

مگر جیریبین کے مطابق ان لڑکیوں کو روکنا ان کی تحقیق سے متصادم ہوتا، کیوں کہ یہ 'خطرناک کھیل‘ اور اس طرز کی دیگر سرگرمیاں ان بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔

جیریبین کے مطابق والدین بچوں کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھنے کی فکر میں ہوتے ہیں جب کہ خطرناک کھیل کے مواقع بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری بھی ہیں۔

جیریبین اس وقت ان خطرناک کھیلوں کے بچوں کی صحت پر پڑنے والے وسیع تر اثرات اور فوائد پر تحقیق کر رہی ہیں۔

رسک اور بچوں کی نشوونما

جیریبین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ خطرناک کھیل کے مواقع صحت مند جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔

محققین کے مطابق بچوں کو ان مواقع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ جغرافیائی آگاہی، جسمانی کوآرڈینیشن، غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کی استعداد اور خود اعتمادی حاصل کر سکیں۔

اس کے باوجود کئی ممالک میں خطرناک کھیل اب پہلے سے زیادہ محدود ہو چکے ہیں، جو ''خطرے‘‘ اور اس کے فوائد کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے ہے۔ محققین کے مطابق بالغ افراد کے اندازوں کے برعکس بچے اپنی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں اور یہ بہ ظاہر خطرناک نظر آنے والے کھیل انہیں یہ تخمینہ لگانے میں معاونت دیتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں انہیں کیا ردعمل دکھانا ہے، اس سے ان کے دماغ اور جسمانی اعضاء کے درمیان باہمی ربط میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے۔

تاہم کئی محققین کا خیال ہے کہایسے کھیلوں کے فوائد سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن چونکہ کھیل ایک آزادانہ نوعیت کا فعل ہوتا ہے، اس لیے اس کو تجرباتی طور پر مطالعہ کرنا لاجسٹک اعتبار سے اب تک مشکل رہا ہے۔

اسی تناظر میں اب سائنسدان نئے طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں، جن میں ورچوئل ریئلیٹی بھی شامل ہے، تاکہ خطرناک کھیل کے فوائد اور اس کو فروغ دینے کے طریقوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔

تھوڑا رسک ضروری بھی ہے

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں قائم ایک غیرمنافع بخش تنظیم پیراشوٹ کی صدر پامیلا فوسلی جو بچوں کو چوٹ لگنے سے بچانے کے شعبے میں کام کرتی ہیں، کہتی ہیں، ''زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں چوں کہ بچوں کو چوٹ سے بچانے کے موضوع پر کام کرتی ہوں، اس لیے ایسے کھیلوں کے خلاف ہوں گے۔ مگر ان کھیلوں کے سماجی، جسمانی اور ذہنی نشوونما اور صحت کے لحاظ سے فوائد اتنے وسیع ہیں کہ مجھے لگتا ہے ہم ان کی اصل قدر سے واقف ہی نہیں۔

‘‘ خطرناک کھیل سے مراد کیا؟

تحقیقی جریدے نیچر کے مطابق خطرناک کھیلوں سے متعلق ابتدائی تحقیق 1996 میں ناروے میں اس ضابطے کے نفاذ کے بعد کی گئی، جس میں کھیل کے میدانوں میں بچوں کی حفاظت کے لیے ریلنگ، بچوں کے کھیل کے سامان کے کونوں کو گول بنانے اور گرنے سے چوٹ لگنے کے خطرے کو کم کرنے والی اشیاء کو بچوں کے کھیل کے مقامات کا حصہ بنایا گیا۔

تاہم ماہر نفسیات ایلن سینڈسیٹر کے مطابق ان کے لیے یہ بات پریشان کن تھی کہبچوں کو رسک لینے کے مواقع بہت کم میسر آ رہے تھے۔ ان کےمطابق ایسے نوجوان جو مثبت قسم کی سنسنی مثلاﹰ پہاڑ پر چڑھنا یا کچھ بلندی سے چھلانگ لگانا جیسے خطرات کا سامنا نہیں کرتے، وہ منفی خطرات جیسے دکانوں سے سامان چرانا جیسے افعال کی جانب مائل دیکھے گئے۔

ناروے کی کوئن ماؤڈ یونیورسٹی کے کالج آف ارلی چائلڈہڈ ایجوکیشن سے وابستہ سینڈسیٹر نے اسی تناظر میں تین سے پانچ سال کے بچوں میں خطرہ ڈھونڈنے اور سنسنی کی تلاش کی بابت تحقیق کی۔

اس وقت تک سائنسی شعبے میں 'خطرناک کھیل‘ کی کوئی باقاعدہ تعریف وضع نہیں تھی اور اسی تناظر میں انہوں نے گہرے مشاہدے اور بچوں کے ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر ایک تعریف وضع کی جو آج بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سنسنی خیز اور دلچسپ کھیل جو غیریقینی صورتحال اور جسمانی چوٹ یا کچھ کھو جانے کے حقیقی یا تصوراتی خطرے سے جڑے ہوں 'خطرناک کھیل‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔

خطرہ اور خطرے کی حالت میں فرق

جرنل نیچر کے مطابق خطرے اور رسک یعنی خطرے کی حالت میں فرق ہے۔ محققین کے مطابق خطرہ وہ صورت حال ہے، جس سے بچہ نمٹنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، جبکہ رسک سے مراد وہ حالت ہے جس میں کوئی شے بہ ظاہر خطرناک لگ رہی ہو، مگر بچہ اس سے نمٹ سکتا ہو۔ محققین ان دونوں حالتوں میں فرق یوں واضح کرتے ہیں کہ کسی انتہائی تیز رفتار گاڑیوں کی آمد و رفت والی سڑک کو بغیر آگہی کے عبور کرنے کی کوشش یا ٹوٹے ہوئے کانچ پر ننگے پیر چلنے کی سرگرمی خطرہ کہلاتی ہے، جب کہ کسی بچے کا پہلی بار اپنے پیروں پر کھڑا ہونا یا پہلا قدم اٹھانا رسک ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے نفسیات اطفال کے شعبے کی ریسرچر ہیلن ڈوڈ کے مطابق، ''رسکی کھیل کی ترویج کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ کسی محتاط بچے کو سنسنی خیزی کی جانب دھکیل دیا جائے بلکہ اس سے مراد کسی بچے کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے لحاظ سے رسک کا تعین کر سکے اور اس سے نمٹ سکے، کیوں کہ مختلف بچوں کے لیے رسک کی کیفیت مختلف ہو سکتی ہے۔‘‘

سینڈسیٹر کا بھی کہنا ہے کہ فطری طور پر محتاط شخصیت کے حامل بچوں کو بھی اپنے لیے رسک کے انتخاب کا موقع دستیاب ہونا چاہیے کیوں کہ بچے اپنی حدود سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: جیریبین کے مطابق کہنا ہے کہ رہی تھیں بچوں کو بچوں کی بچوں کے ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟

گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام کی وادی بیسران میں دہشت گردانہ کارروائی میں 28 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر بھارتی صارفین اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں بلکہ بغیر کسی ثبوت جوابی کارروائی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے فوراً بعد بھارتی میڈیا نے کسی ثبوت کے بغیر پاکستان کیخلاف زہر اگلنا شروع کر دیا، ایک طرف جہاں بھارتی ٹی وی چینلز نے حملے کو ’پاکستانی دہشت گردی‘ کہہ کر بیچا وہیں سوشل میڈیا پر ’پاکستان کا ہاتھ‘ خودساختہ بیانیہ پھیلایا گیا۔

Never forgive never forget.

No sympathy with Pakistan ever.
No sympathy with terrorist sympathisers.
No sympathy with traitors.
PERIOD#pehelgam pic.twitter.com/Q6r7r6xGqk

— Yogita Bhati (@bhatiyogita1002) April 22, 2025

صارف یوگیتا بھاٹی نے ایکس پر پہلگام ہیش ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ کبھی نہ معاف کرو اور نہ ہی بھولو، پاکستان سے کبھی ہمدردی نہیں رہی۔ ’دہشت گردوں کے ہمدردوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ غداروں سے کوئی ہمدردی نہیں، پیریڈ!‘

بھارتی صارف آتش داس نے لکھا کہ ہندو یہ کبھی نہیں بھولیں گے، جبکہ سومیت جیسوال نے انہی جذبات سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے لکھا کہ کبھی نہ بھولو، کبھی نہ معاف کرو، سوشل میڈیا پر اس نوعیت کے ماحول میں معروف بھارتی اداکار انوپم کھیر بھی پیچھے نہیں رہے۔

ग़लत … ग़लत… ग़लत !!! पहलगाम हत्याकांड!! शब्द आज नपुंसक हैं!! ???? #Pahalgam pic.twitter.com/h5dOOtEQfx

— Anupam Kher (@AnupamPKher) April 22, 2025

ایکس پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں انوپم کھیر کا کہنا تھا کہ کشمیر میں ہندوؤں کو چن چن کر مارنے پر دل میں دکھ تو ہے ہی لیکن غصہ بھی بے انتہا ہے۔

’ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے لوگوں سے ان کا دھرم پوچھ کر انہیں ماردینا۔۔۔الفاظ نہیں ہیں کہ احساس کو بیان کیا جائے۔۔۔دنیا کے کسی بھی علاقے میں یہ غلط ہے لیکن پہلگام میں ہمارے کشمیر میں یہ بہت بہت غلط ہے۔‘

Local reporter from Kashmir was explaining Security lapse, 2000 tourists at single spot & no security was available

Immediately AajTak cut him from the live feed. Godi media hiding truth & disrespecting martyrs????#Pahalgam #PahalgamTerroristAttack
pic.twitter.com/6nUjxLkKl7

— ????eena Jain (@DrJain21) April 22, 2025

انوپم کھیر نے ہاتھ جوڑ کر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت پوری بھارتی سرکار سے درخواست کی اس بار ان دہشت گردوں کا ایسا سبق سکھایا جائے کہ اگلے 7 جنم تک وہ ایسی حرکت کرنے کے لائق نہ رہیں۔‘

بھارتی میڈیا خود ساختہ دہشت گردی کی خبر پر شور مچادیتا ہے جبکہ نیکزلائٹس حملوں پر چپ سادھ لیتے ہیں کیونکہ حقیقت ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے، بھارتی میڈیا کا نیا نظریہ یہی ہے کہ بھارت میں ہونے والی ہر دہشت گردی پاکستان کرتا ہے۔

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارتی حکومت اورمیڈیا بھارتی عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں، بھارتی میڈیا جھوٹ بیچتا ہے تاکہ عوام حقیقی مسائل سے دور رہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام تر جنگی جنون کے باوجود بعض بھارتی صارفین سوال بھی اٹھارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ایکس کی ایک اور بھارتی صارف ڈاکٹر وینا جین نے آج تک ٹی وی کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کشمیر کا مقامی رپورٹر سیکیورٹی کی خرابی کی نشاندہی کررہا تھا کہ کس طرح ایک ہی جگہ پر 2 ہزار سیاحوں کی موجودگی کے باوجود کوئی سیکیورٹی دستیاب نہیں تھی۔

’فوری طور پر آج تک نے اسے لائیو فیڈ سے کاٹ دیا، گوڈی میڈیا سچ چھپا رہا ہے اور شہدا کی بے عزتی کر رہا ہے۔‘

 https://Twitter.com/nehafolksinger/status/1914739495087604152

بھارتی شہری نیہا سنگھ راٹھور نے پہلگام حملے میں دہشت گردوں کی جانب سے چن چن کر ہندوؤں کو مارنے کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے ہلاک شدگان کی فہرست بھی شیئر کی۔ ’دہشت گرد ہندوؤں کو ان کا مذہب پوچھ کر مار رہے تھے تو سید حسین شاہ کو کیوں مارا؟ آفت میں موقع کی سیاست کا شکار نہ ہوں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انوپم کھیر ایکس بھارتی صارف پاکستان پہلگام ٹی وی چینلز جنگی جنون دہشت گرد سوشل میڈیا سیاحوں وادی بیسران

متعلقہ مضامین

  • شارجہ ریڈنگ فیسٹیول 2025 میں بچوں کا تخلیقی سفر: ایل ای ڈی سرکٹس سے روشنیوں کا کھیل
  • مصنوعی ذہانت محنت کشوں کی جان کے لیے بھی خطرہ، مگر کیسے؟
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • قصور، بچوں کی لڑائی سنگین تصادم میں تبدیل، ایک شخص جاں بحق، 7 زخمی
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • غزہ میں 6 لاکھ سے زائد بچوں کو مستقل فالج کا خطرہ
  • بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟.الیکشن کمیشن