ثابت ہوگیا کہ 2024 ریکارڈ پر گرم ترین سال تھا، ڈبلیو ایم او
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جنوری 2025ء) عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے تصدیق کی ہےکہ 2024 معلوم تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس دوران عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسئس سے زیادہ رہی۔
'ڈبلیو ایم او' کی ترجمان کلیئر نولیس نے کہا ہے کہ گزشتہ سال خشکی اور سطح سمندر کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔
سمندر کی غیرمعمولی حدت اور نہایت گرم موسم نے دنیا بھر میں بہت سے ممالک میں زندگیوں، روزگار، امیدوں اور خوابوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سمندری برف کے گلیشیئر تیزرفتار سے پگھلتے رہے۔ اس طرح یہ عالمی حدت میں اضافے کے اعتبار سے ایک غیرمعمولی سال تھا۔ Tweet URLادارے کی جانب سے گزشتہ سال عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے چھ مختلف مجموعہ ہائے معلومات کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے چار کے ذریعے یہ تصدیق ہوئی کہ عالمی حدت میں 1.
(جاری ہے)
'ڈبلیو ایم او' نے عالمی حدت میں 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ اضافے کے حوالے سے معلومات درمیانی مدت کے لیے موسمی پیشگوئی کے یورپی مرکز (ای سی ایم ڈبلیو ایف)، جاپان کے موسمیاتی ادارے، ناسا، امریکہ کی قومی سمندری و ماحولیاتی انتظامیہ (این او اے اے) اور برطانیہ کے دفتر موسمیاتی سے لی ہیں۔ اس کوشش میں اسے برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں موسمیاتی تحقیقی یونٹ اور برکلے ارتھ کا تعاون بھی حاصل رہا۔
زمین، زندگی اور روزگار کو خطرہ'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ پیرس معاہدے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ دنیا میں گرم ترین برسوں کے ایک یا دو ریکارڈ ہی نہیں ٹوٹے بلکہ انسان نے گرم ترین دہائی جھیلی ہے اور 2024 ریکارڈ توڑ حدت کے غیرمعمولی سلسلے کی انتہا تھا۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عالمی حدت میں معمولی سا اضافہ بھی بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگیوں، روزگار اور کرہ ارض پر انتہائی منفی اثرات ہوتے ہیں۔
2015 میں مںظور ہونے والے پیرس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ اضافہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔
لاس اینجلس کی آگ'ڈبلیو ایم او' نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں حالیہ دنوں لگنے والی جنگل کی آگ کو موسمیاتی تبدیلی نے کہیں زیادہ شدید بنا دیا ہے کیونکہ اس تبدیلی کے نتیجے میں خشک و گرم ایام اور تیزرفتار ہواؤں کا دورانیہ طویل ہو گیا ہے۔
ایسا موسم اور طوفانی رفتار سے چلنے والی خشک ہوائیں جنگلوں کی آگ اور اس کے پھیلاؤ کا اہم سبب ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 'ڈبلیو ایم او' کی اس اطلاع کو عالمی حدت میں اضافے کا ایک اور ثبوت قرار دیا ہے۔ انہوں نے تمام حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ طویل مدتی عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے رواں سال اپنے نئے قومی منصوبے پیش کریں اور انتہائی غیرمحفوظ لوگوں کو تباہ کن موسمیاتی اثرات سے تحفظ دینے کے اقدامات اٹھائیں۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ کسی سال عالمی حدت میں اضافے کے 1.5 ڈگری سے تجاوز کر جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا اس حوالے سے طویل مدتی ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ اس کے بجائے، گرم ترین برس اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ دنیا کو اپنی سمت درست کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت درکار ہے۔ گزشتہ سال ریکارڈ توڑ حدت رواں سال اس پر قابو پانے کے موثر اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
بدترین تباہی کو روکنے کے لیے اب بھی وقت باقی ہے لیکن اس کے لیے عالمی رہنماؤں کو بلاتاخیر اقدامات کرنا ہوں گے۔جون 2024 کے اختتامی ایام میں امریکہ میں گرمی کی شدت کے حوالے سے انتباہ جاری ہونے کے بعد 'ڈبلیو ایم او' کے موسمیاتی سائنس دان الوارو سلوا کی یو این نیوز سے بات چیت سنیے (انگریزی میں)۔
Soundcloud بڑھتی ہوئی سمندری حدت'ڈبلیو ایم او' نے بڑھتی ہوئی سمندری حدت پر ایک الگ سائنسی جائزے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سطح سمندر کی گرمی میں اضافے کا گزشہ سال عالمی حدت بڑھنے میں اہم کردار تھا۔
اس وقت ناصرف سمندر کی بالائی سطح بلکہ زیرآب 2,000 میٹر کی گہرائی پر حدت بھی معلوم تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تقریباً 90 فیصد گرمی سمندروں میں جمع ہو جاتی ہے اور یہ موسمیاتی تبدیلی کی ایک اہم علامت ہے۔ 2023 سے 2024 کے عرصہ میں سمندر کی سطح کے نیچے 2,000 میٹر گہرائی تک درجہ حرارت 16 زیٹاجولیس رہا جو کہ دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی بجلی سے 140 گنا بڑی مقدار ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: کہ عالمی حدت حوالے سے سمندر کی سے زیادہ کے لیے
پڑھیں:
کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب، ڈبلیو ایچ او
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) نوعمری کا حمل 15 تا 19 سال عمر کی لڑکیوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو سکول بھیج کر اور نوعمری کی شادی کا خاتمہ کر کے ان اموات کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہر سال دو کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بالغ لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں۔
ان میں تقریباً نصف حمل اَن چاہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، 90 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی خواتین کے ہاں ہوتی ہے جو 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی ہوتی ہیں۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' میں جنسی و تولیدی صحت و تحقیق کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے نے کہا ہے کہ لڑکیوں اور نوعمر خواتین پر قبل از وقت حمل کے سنگین جسمانی و نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ عام طور پر بنیادی عدم مساوات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو لڑکیوں کے خاندانی و سماجی تعلقات اور زندگیوں کی تشکیل پر اثرانداز ہوتی ہے۔'ڈبلیو ایچ او' نے اس حوالے سے 2011 میں جاری کردہ اپنی رہنما ہدایات میں جامع جنسی تعلیم کے فروغ کی سفارش کی ہے جس کے بارے میں ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے لڑکیوں اور لڑکوں کو مختلف اقسام کے مانع حمل کے استعمال سے آگاہی ملتی ہے اور انہیں اَن چاہے حمل سے بچنے اور اپنے جسم کو سمجھنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔
نوعمری کا حمل اور طبی خطراتنوعمری کے حمل سے سنگین طبی خطرات وابستہ ہوتے ہیں۔ ان میں انفیکشن، طبی پیچیدگیوں اور قبل از وقت پیدائش کی بھاری شرح بھی شامل ہے۔ اس سے لڑکیوں کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے اور ان کے لیے نوکریوں کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں بہت سی نوجوان مائیں غربت میں پھنس جاتی ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او' نے نوعمری کے حمل کو روکنے کے لیے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو نوعمری کی شادی کے بہتر متبادل مہیا کریں۔
ان میں تعلیم، مالیاتی خدمات اور نوکریوں تک لڑکیوں کی رسائی میں بہتری لانا بھی شامل ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ اگر تمام لڑکیوں کو ثانوی درجے تک تعلیم میسر آئے تو نوعمری کی شادیوں میں دو تہائی کمی لائی جا سکتی ہے۔
تعلیم کی اہمیتنوعمری کی شادیوں میں کمی لانے کے حوالے سے دنیا بھر میں مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
2021 میں ہر 25 میں سے ایک لڑکی نے 20 سال کی عمر سے پہلے بچے کو جنم دیا جبکہ 2001 میں یہ شرح 15 تھی۔ تاہم، اب بھی اس حوالے سے بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے اور بعض ممالک میں ہر 10 میں سے ایک لڑکی 15 تا 19 سال کی عمر میں بچوں کو جنم دے رہی ہے۔'ڈبلیو ایچ او' میں بالغان کی جنسی و تولیدی صحت کی سائنس دان ڈاکٹر شیری بیسٹین نے کہا ہے کہ نوعمری کی شادی سے لڑکیاں اپنے بچپن سے محروم ہو جاتی ہیں اور یہ شادی ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے مستقبل کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیم کی خاص اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو باہمی رضامندی کی بنیاد پر تعلقات کے تصور کو سمجھنا اور صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے کام کرنا ہو گا جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نوعمری کی شادی اور قبل از وقت حمل کا بڑا سبب ہے۔