UrduPoint:
2025-10-20@17:15:26 GMT

ثابت ہوگیا کہ 2024 ریکارڈ پر گرم ترین سال تھا، ڈبلیو ایم او

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

ثابت ہوگیا کہ 2024 ریکارڈ پر گرم ترین سال تھا، ڈبلیو ایم او

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جنوری 2025ء) عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے تصدیق کی ہےکہ 2024 معلوم تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس دوران عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسئس سے زیادہ رہی۔

'ڈبلیو ایم او' کی ترجمان کلیئر نولیس نے کہا ہے کہ گزشتہ سال خشکی اور سطح سمندر کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔

سمندر کی غیرمعمولی حدت اور نہایت گرم موسم نے دنیا بھر میں بہت سے ممالک میں زندگیوں، روزگار، امیدوں اور خوابوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سمندری برف کے گلیشیئر تیزرفتار سے پگھلتے رہے۔ اس طرح یہ عالمی حدت میں اضافے کے اعتبار سے ایک غیرمعمولی سال تھا۔ Tweet URL

ادارے کی جانب سے گزشتہ سال عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے چھ مختلف مجموعہ ہائے معلومات کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے چار کے ذریعے یہ تصدیق ہوئی کہ عالمی حدت میں 1.

5 ڈگری سیلسیئس کی حد سے زیادہ اضافہ ہوا۔

(جاری ہے)

'ڈبلیو ایم او' نے عالمی حدت میں 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ اضافے کے حوالے سے معلومات درمیانی مدت کے لیے موسمی پیشگوئی کے یورپی مرکز (ای سی ایم ڈبلیو ایف)، جاپان کے موسمیاتی ادارے، ناسا، امریکہ کی قومی سمندری و ماحولیاتی انتظامیہ (این او اے اے) اور برطانیہ کے دفتر موسمیاتی سے لی ہیں۔ اس کوشش میں اسے برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں موسمیاتی تحقیقی یونٹ اور برکلے ارتھ کا تعاون بھی حاصل رہا۔

زمین، زندگی اور روزگار کو خطرہ

'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ پیرس معاہدے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ دنیا میں گرم ترین برسوں کے ایک یا دو ریکارڈ ہی نہیں ٹوٹے بلکہ انسان نے گرم ترین دہائی جھیلی ہے اور 2024 ریکارڈ توڑ حدت کے غیرمعمولی سلسلے کی انتہا تھا۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عالمی حدت میں معمولی سا اضافہ بھی بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگیوں، روزگار اور کرہ ارض پر انتہائی منفی اثرات ہوتے ہیں۔

2015 میں مںظور ہونے والے پیرس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ اضافہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔

لاس اینجلس کی آگ

'ڈبلیو ایم او' نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں حالیہ دنوں لگنے والی جنگل کی آگ کو موسمیاتی تبدیلی نے کہیں زیادہ شدید بنا دیا ہے کیونکہ اس تبدیلی کے نتیجے میں خشک و گرم ایام اور تیزرفتار ہواؤں کا دورانیہ طویل ہو گیا ہے۔

ایسا موسم اور طوفانی رفتار سے چلنے والی خشک ہوائیں جنگلوں کی آگ اور اس کے پھیلاؤ کا اہم سبب ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 'ڈبلیو ایم او' کی اس اطلاع کو عالمی حدت میں اضافے کا ایک اور ثبوت قرار دیا ہے۔ انہوں نے تمام حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ طویل مدتی عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے رواں سال اپنے نئے قومی منصوبے پیش کریں اور انتہائی غیرمحفوظ لوگوں کو تباہ کن موسمیاتی اثرات سے تحفظ دینے کے اقدامات اٹھائیں۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ کسی سال عالمی حدت میں اضافے کے 1.5 ڈگری سے تجاوز کر جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا اس حوالے سے طویل مدتی ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ اس کے بجائے، گرم ترین برس اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ دنیا کو اپنی سمت درست کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت درکار ہے۔ گزشتہ سال ریکارڈ توڑ حدت رواں سال اس پر قابو پانے کے موثر اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔

بدترین تباہی کو روکنے کے لیے اب بھی وقت باقی ہے لیکن اس کے لیے عالمی رہنماؤں کو بلاتاخیر اقدامات کرنا ہوں گے۔

جون 2024 کے اختتامی ایام میں امریکہ میں گرمی کی شدت کے حوالے سے انتباہ جاری ہونے کے بعد 'ڈبلیو ایم او' کے موسمیاتی سائنس دان الوارو سلوا کی یو این نیوز سے بات چیت سنیے (انگریزی میں)۔

Soundcloud بڑھتی ہوئی سمندری حدت

'ڈبلیو ایم او' نے بڑھتی ہوئی سمندری حدت پر ایک الگ سائنسی جائزے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سطح سمندر کی گرمی میں اضافے کا گزشہ سال عالمی حدت بڑھنے میں اہم کردار تھا۔

اس وقت ناصرف سمندر کی بالائی سطح بلکہ زیرآب 2,000 میٹر کی گہرائی پر حدت بھی معلوم تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تقریباً 90 فیصد گرمی سمندروں میں جمع ہو جاتی ہے اور یہ موسمیاتی تبدیلی کی ایک اہم علامت ہے۔ 2023 سے 2024 کے عرصہ میں سمندر کی سطح کے نیچے 2,000 میٹر گہرائی تک درجہ حرارت 16 زیٹاجولیس رہا جو کہ دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی بجلی سے 140 گنا بڑی مقدار ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: کہ عالمی حدت حوالے سے سمندر کی سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ ،2030 تک موافقت کےلئے ملک کو سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر سید توقیر شاہ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی قومی غذائی سلامتی دوہرے خطرات سے دوچار ہے، ہماری ضرورت فوری اور واضح ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل، سیلابی میدانوں کی بحالی، آبپاشی کے شعبہ کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کا امتزاج ہونا چاہئے۔ یہاں موصول ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق وہ عالمی موسمیاتی مالیاتی ادارے کے زیر اہتمام منعقدہ ’’روم واٹر ڈائیلاگ ‘‘ سے خطاب کررہے تھے۔ اس ڈائیلاگ میں سینکڑوں ممالک کے سربرہان مملکت و وزرا اور سول سوسائٹی اور ترقیاتی اداروں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی اور پانی کی بحرانوں کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا بحران پاکستان سمیت بہت سے ممالک کےلئے ایک وجودی چیلنج ہے ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے جسے انتہائی موسمیاتی واقعات اور دائمی وسائل کے دبائو کے دوہرے خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قومی غذائی سلامتی خطرے میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دو طرح کے حالات کا سامنا ہے جن میں تباہ کن سیلابی صورتحال جیسا 2022 میں دیکھا گیا جہاں ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ، 4 ملین ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی اور ایک کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے، حالیہ 2025 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت بھی اتنی ہی تباہ کن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج پانی کی شدید کمی کا بھی ہے ، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی سپلائی تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح اور فوری ضرورت کے طور پر ہمیں اپنے واٹر سٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جہاں روایتی اور زیادہ ذخیرہ کرنے والے حل کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل ، سیلابی میدانوں کی بحالی، لچکدار آبپاشی کی تکنیکوں کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیاتی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 2030 تک صرف موافقت کےلئے سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے،اس کے باوجود ہم ایک ایسے عالمی مالیاتی ڈھانچے کا سامنا کر رہے ہیں جو مطلوبہ سرمایہ کاری کو ایک تضاد میں بدل دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی موسمیاتی فنڈ کی ناکامیوں کی وجہ سے پانی کی لچک میں سرمایہ کاری اور اختراع کی ہماری صلاحیت کو براہ راست متاثر کرتا ہے، قومی ضرورت کے باوجود پاکستان دستیاب عالمی موسمیاتی فنڈز سے محروم رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی معیار اکثر انتہائی مخصوص ، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور دیگر مطالبات کی زد میں ہے، اس میں ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ فنڈز بھی سست ترسیل اور کئی سالہ قانونی عمل کے تابع ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دستیاب موسمیاتی فنڈز قرضوں اور رعایتی قرضوں کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ گرانٹس کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ قرض ان کمزور معیشتوں پر لادا جاتا ہے جو پہلے ہی میکرو اکنامک استحکام کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی موسمیاتی مالیات کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بیورو کریسی کی وجہ سے روکا جا رہا ہے۔ موسمیاتی مالیاتی اداروں کی اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی سی ایف میں بورڈ کی منظوری تک اوسط منظوری کا وقت 24 ماہ یا اس سے زیادہ ہے ، منظوری کے بعد پہلی ترسیل کا اوسط دورانیہ 9 سے 18 ماہ ہے ، خود جی سی ایف کی یونٹ آئی ای یو کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈ کے اندرونی عمل پیچیدہ ، منتشر اور رکاوٹوں سے بھرپور ہیں، بڑے موسمیاتی فنڈز کو ترقیاتی ماہرین کی طرف سے سست پروسیسنگ ، ضرورت سے زیادہ بیورو کریسی اور ترسیل میں تاخیر کے لئے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عالمی شراکت داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیچیدگی اور قرض کے ڈھانچے سے رفتار اور اعتماد کی طرف ایک نمونہ کے طور پر تبدیل کریں ، ہمیں مالیاتی اختراع کے جزو کی ضرورت ہے جو ملاوٹ شدہ مالیات ، گرین بانڈز ، انشورنس میکنزم اور نجی سرمایہ کاری کو کم خطرہ بنانے اور چھوٹے کسانوں کےلئے مالیات تک رسائی بڑھانے کےلئے انکیوبیشن پروگراموں پر توجہ دے ۔ 2030 کے عالمی ترقیاتی ایجنڈے کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر توقیر شاہ نے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں صاف پانی اور بھوک کے خاتمے کے اہداف اس وقت تک ناقابل حصول رہیں گے جب تک ہم اس چیلنج کا سامنا براہ راست نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی صرف ندیوں اور نہروں کےلئے نہیں بلکہ لوگوں ، وقار اور زندگی کےلئے ہے۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی شراکت داروں کو پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کی پیشکش کی۔

متعلقہ مضامین

  • کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 11 کروڑ ڈالر سرپلس ہوگیا
  • عالمی مارکیٹ میں سونا سستا ہوگیا، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی ریکارڈ
  • کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کا امکان
  • موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی غذائی سلامتی خطرات سے دوچار: توقیر شاہ
  • پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونیوالا دنیا کا 5واں ملک ہے‘ڈاکٹر توقیر شاہ
  • چین میں ڈرونز کے ذریعے لائٹ شو کا نیا عالمی ریکارڈ قائم
  • موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ ،2030 تک موافقت کےلئے ملک کو سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر سید توقیر شاہ
  • چین نے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی میں عالمی قیادت سنبھال لی، وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی بیجنگ
  • گزشتہ روز تاریخی اضافے کے بعد آج سونے کی قیمت میں بڑی ریکارڈ
  • ڈبلیو ایچ او نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹکس مزاحمت میں اضافے سے خبردار کردیا