Nai Baat:
2025-04-26@04:01:23 GMT

سر ایک چھوٹا سا کام ہے

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

سر ایک چھوٹا سا کام ہے

ایک بار میں اپنے محترم و محسن بابر اعوان کے پاس بیٹھا تھا تب وہ وفاقی وزیر قانون تھے ،ایک صاحب اْن کے پاس آئے اور کہنے لگے ’’سر مجھے آپ سے چھوٹا سا ایک کام ہے‘‘،بابر اعوان مسکرائے اور بولے ’’ جے کام اینا ای چھوٹا اے تے آپ کر لو‘‘ ،اْنہوں نے بالکل درست فرمایا تھا ،کام کام ہوتا ہے چھوٹا بڑا کچھ اور ہوتا ہے ،ہمارے ہاں لوگوں کا یہ عمومی رویہ ہے وہ جب کسی کے پاس اپنا کوئی کام لے کر جاتے ہیں یہی کہتے ہیں ’’ سر جی آپ سے چھوٹا سا ایک کام ہے‘‘ اگلے روز ایسے ہی ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے اور میری اْن خوبیوں کا ذکر کرنا شروع کر دیا جن سے میں خود لاعلم تھا ،اس دوران میں نے بیچ میں دو بار اْنہیں ٹوکنے کی کوشش کی کیونکہ مجھے خدشہ تھا کچھ دیر بعد وہ کہیں یہ نہ کہہ دیں’’ بٹ صاحب یہ کائنات کا نظام آپ ہی کی وجہ سے چل رہا ہے‘‘ ،خیر جب وہ اپنا پورا فن خوشامد آزما چکے کہنے لگے ’’آپ سے چھوٹا سا ایک کام ہے ،عبدالعلیم خان وفاقی وزیر مواصلات ہیں ،وہ آپ کے دوست ہیں ،کے پی کے میں فلاں شہر سے فلاں شہر تک موٹر وے بن رہی ہے آپ اْن سے کہہ کے اس کا ٹھیکہ مجھے دلوا دیں‘‘ ،میں نے عرض کیا’’بھائی یہ ٹھیکے شیکے وزیر نہیں دیتے یہ صرف وزیر بنانے والے دیتے ہیں ،ویسے بھی میرا عبدالعلیم خان کے ساتھ تعلق اس ٹائپ کا نہیں ہے میں اس ٹائپ کے اْنہیں کام کہوں‘‘ ،وہ صاحب کہنے لگے’’سر آپ کے لئے کام تو یہ ویسے بہت چھوٹا سا ہے‘‘ ،میں نے کہا ’’ میں اصل میں ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرتا نہیں ہوں ،آپ میرے پاس کوئی بڑا کام لے کر آئیں،جس میں کسی مظلوم کو میری کوئی مدد درکار ہو ‘‘ ،اسی طرح ہمارے ایک جاننے والے بزرگ ہیں ،پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار ہیں ،وہ جب بھی اپنا کوئی ’’چھوٹا سا کام‘‘ لے کر آتے ہیں پہلے ہمیشہ حضرت علیؓ کا یہ قول سْناتے ہیں کہ ’’لوگوں کی اْمیدوں کا تم سے وابستہ ہونا اللہ کی تم پر خاص رحمت کی علامت ہے‘‘ ،ایک بار وہ تشریف لائے ،حسب معمول یہ قول سنایا ،پھر کہنے لگے آپ سے ’’ چھوٹا سا ایک کام ‘‘ ہے ،میرا ایک عزیز پولیس انسپکٹر ہے ،وہ پچھلے دو سال سے ایس ایچ او نہیں لگا ،اْسے لاہور میں تھانہ نولکھا ،تھانہ کوٹ لکھپت ،تھانہ ڈیفنس اے بی یا سی میں ایس ایچ او لگوا دیں‘‘ ،میں نے اْن سے پوچھا ’’آپ اپنے عزیز کو ان مخصوص تھانوں میں ہی ایس ایچ او کیوں لگوانا چاہتے ہیں ؟‘‘ ،وہ بولے’’اصل میں میرا یہ عزیز بہت خدا ترس ہے وہ مستحق لوگوں کی بہت مدد کرتا ہے ،اْس نے چار مسجدیں بھی بنوائی ہیں ،چونکہ ان تھانوں کی ’’ کمائی‘‘ بہت زیادہ ہے ،وہ اس سے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے ،ایک بار وہ تھانہ ٹبی سٹی میں ایس ایچ او تھا ،اْس تھانے کی کمائی سے اْس نے خیر سے چار عمرے کئے ،وہاں سے اْس کا تبادلہ نہ ہوتا اْس نے حج بھی کر لینا تھا‘‘ ،میں نے جب اْن کے عزیز کو ایس ایچ او لگوانے سے معذرت کی اْنہوں نے ایک بار پھر بہت زور دے کر مجھے حضرت علی ؓکا قول سنایا ’’لوگوں کی اْمیدوں کا تم سے وابستہ ہونا اللہ کی تم پر خاص رحمت کی علامت ہے‘‘ ،میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی’’ بزرگو حضرت علیؓ نے یہ بات کسی اور پیرائے میں فرمائی تھی ،آپ کی کوئی جائز ضرورت کوئی جائز کام ہے میں حاضر ہوں ‘‘ ،وہ بہت ناگواری سے بولے’’ آپ حضرت علی ؓکو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ؟ آپ کو مجھ سے زیادہ پتہ ہے کہ یہ بات اْنہوں نے کس پیرائے میں فرمائی تھی ؟‘‘،اس کے جواب میں اْن کی بزرگی اور آداب میزبانی کا خیال رکھے بغیر جو کچھ میں نے اْن سے کہا مجھے یقین تھا اْس کے بعد وہ ایک سیکنڈ نہیں رْکیں گے مگر وہ اْس کے بعد بھی بڑی ڈھٹائی سے بہت دیر تک بیٹھے رہے ،پھر بڑی مشکل سے اْٹھے میرے قریب آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے ’’اچھا میں فیر تہاڈے ولوں ناں ای سمجھاں ؟‘‘ ،میں نے کہا ’’بالکل میرے ولوں ناں ای سمجھو‘‘ ،کہنے لگے ’’ آپ آخرت میں حضرت علیؓ کو کیا منہ دکھائیں گے ؟‘‘ ،میں نے عرض کیا ’’ میں حضرت علی ؓسے معافی مانگ لْوں گا ‘‘ ،وہ منہ بنا کر چلے گئے ،اگلے دن پھر آ گئے کہنے لگے ’’ چلو نولکھا ،ڈیفنس اے بی سی نہ سہی تھانہ کاہنہ ای لْوا دیو‘‘ ،ذرا سوچیں ’’روزانہ کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں‘‘ ،کام کہنے والے لوگ دوسروں کی مجبوریاں نہیں سمجھتے ،اْنہیں صرف اپنے کام سے غرض ہوتی ہے ،مجھے یاد ہے 2011ء میں میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ،اْن کا جنازہ اْٹھایا جانے لگا اس دوران میرے موبائل پر بار بار نامعلوم نمبر سے کال آرہی تھی ،میں نے سوچا ہوسکتا ہے کوئی جنازے میں شرکت کے لئے آ رہا ہو اْسے راستہ نہ مل رہا ہو ،میں نے کال اٹینڈ کی آگے سے کوئی صاحب بولے ’’بٹ صاحب میں ڈنگے گجرات توں عرفان دا چاچا بول ریاں ،ساہڈے مخالف ساہڈیاں مجاں کھول کے لے گئے نے ،ڈی پی او نْوں کال کرو‘‘ ،میں نے اْنہیں بتایا میری والدہ انتقال کر گئی ہیں ،اس وقت اْن کا جنازہ اْٹھایا جانے لگا ہے ،میں بعد میں آپ کو کال کرتا ہوں‘‘ ،وہ بولے’’جے اوہنی دیر وچ اوہناں ساہڈیاں مجاں دا دْودھ چو لیا تے ؟ ‘‘ ،مجھے بہت غصہ آیا میں نے فون بند کر دیا ،اْس کے بعد اْن کی مسلسل کالیں آئی جا رہی تھیں میں اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ،اچانک میں نے سوچا عرفان کا یہ چاچا جسے میں جانتا ہی نہیں پتہ نہیں بیچارا کتنا مجبور ہوگا جو اپنے کام کے لئے میری اس مجبوری کو بھی خاطر میں نہیں لایا کہ میں اس وقت اپنی ماں کے جنازے میں ہوں،میں نے سوچا ہوسکتا ہے اس وقت کی گئی میری یہ نیکی میری ماں کی بخشش اور قبر میں اْن کی آسانی کا باعث بن جائے‘‘ ،میں نے فورا ًسائیڈ پر ہو کر ڈی پی او کو کال کی وہ بھی میری ماں کے جنازے میں شرکت کے لئے آ رہے تھے ،میں نے اْن سے کہا میں آپ کو ایک نمبر بھیج رہا ہوں پلیز آپ خود یا اپنے پی ایس او سے کہیں ان صاحب سے رابطہ کر کے ان کا مسئلہ حل کرا دیں‘‘،ڈی پی او صاحب نے فوری طور پر اْن کی بھینسیں واپس کرا کے مجھے واپس بتا دیا ،اْس کے بعد عرفان کے اْس چاچے کا نہ مجھے فون آیا نہ اْنہوں نے مجھ سے تعزیت کرنا مناسب سمجھا ،مزے کی بات یہ ہے مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا وہ کس عرفان کی بات کر رہے تھے جس کے وہ چاچا تھے ؟ اپنے کچھ غیر مشکوک علمائے اکرام سے میری گزارش ہے کسی روز اس فرمان مبارک کی تشریح فرما دیں’’لوگوں کی اْمیدوں کا تم سے وابستہ ہونا اللہ کی تم پر خاص رحمت کی علامت ہے‘‘ ،کہیں یہ نہ ہو روز حشر مجھے دھر لیا جائے کہ ایک بزرگ اپنے بھتیجے کو کماؤ تھانے میں ایس ایچ لگوانے کے لئے تمہارے گھر چل کر آئے تھے یا ایک عزیز موٹر وے کا ٹھیکہ لینے کے لئے چل کر آئے تھے اور تم اْن کی اْمیدوں پر پورا نہیں اْترے تھے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی ا میدوں ایس ایچ او ا س کے بعد ا نہوں نے حضرت علی لوگوں کی میں ایس ایک بار کے لئے ئے اور ا نہیں کام ہے

پڑھیں:

کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ

راجہ انور صاحب کی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھی، یہ کتاب راجہ انور اور کنول کی حقیقی محبت کے کمال و زوال پہ مرتب ہے۔ کتاب 2 سالہ خطوط پہ مشتمل ہے جو کہ 1972 سے 1974 تک محب اور محبوب کی روزمرہ زندگی کے احوال پر مشتمل ہے۔

کتاب کے مصنف راجہ انور صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور وہاں کے اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ہیں۔ راجہ انور مالی حوالے سے غریب مگر انتہائی ذہین، قابل، متحرک اور طلبا کے پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ طلبا حقوق کے لیے سرگرم آواز اور باشعور رہنما ہیں، اسی پاداش میں وہ قید و بند بھی رہے۔ اس تصنیف سے پہلے وہ ‘بڑی جیل سے جھوٹی جیل تک’ کتاب لکھ چکے۔

طلبا یونین ہی کے اک پروگرام میں راجہ انور کا تعارف کنول نامی لڑکی سے ہو جاتا ہے، کنول خوبصورت اور امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، کنول اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں ہلکا پھلکا کام کرتی ہیں۔

دونوں کے آپسی تعارف دوستی میں بدل جاتی ہے اور روزمرہ کی قربت باہمی محبت میں۔ یہاں سے راجہ انور اور کنول ایک دوسرے کو خطوط لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا مجموعہ یہی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ ہیں۔

راجہ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے،  مذہب، سیاست، ریاست، معاشرت، محبت وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

راجہ انور آزاد خیال اور فکری طور پہ زرا ایڈوانس منش ہیں۔ معاشرتی اقدار و روایات وغیرہ کو فضول سمجھتے ہیں، اپنے ایک خط میں کنول کو  اس حوالے سے  لکھتے ہیں،

‘ہم بھی کیا لوگ ہیں، بے جان روایتوں کے قبرستان میں دفن۔تہذیب، شرم اور حجاب ایسے بانجھ الفاظ کے سحر میں گرفتار… زندہ لاشیں’

راجہ صاحب اسی سوچ کے ساتھ اپنے خطوط میں آراء کا بے ساختہ اظہار کرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اور انتہائی ذاتی نوعیت کی باتیں آسانی سے اور نارملی کہہ دیتے ہیں، جیسے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نہیں میاں بیوی ہوں یا اس سے بھی آگے اور کچھ۔

راجہ صاحب جس لڑکی سے محبت کرتے ہیں، وہ پہلے ہی اپنے کزن خرم نامی لڑکے کی منہ بولی منگیتر ہے، خرم اچھے خاصے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑی کار کوٹھی رکھتا ہے۔ خرم بھی کنول کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً کنول سے میل ملاقات کرتا ہے۔ خرم اور کنول کے تعلق سے راجہ صاحب بخوبی واقف ہیں، البتہ خرم راجہ صاحب کو نہیں جانتے۔ ایک خط میں راجہ صاحب کنول کو اپنے رقیب یعنی خرم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

‘لوگ خوش فہمیوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ اندازہ کرو، تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہو مگر وہ شخص تمہیں حور سمجھتا ہے، تم اسے فرشتہ کہتی ہو حالانکہ وہ بھی حور ہی کی مانند فرشتہ ہوگا۔ میں حقیر سا انسان تم فرشتوں اور حوروں کے درمیان پس کر رہ گیا ہوں۔ تم میرے سامنے ایک اور مرد سے ملتی ہو، میں تمہیں پھر بھی دیوی کہتا ہوں، وہ نہیں جانتا تم کسی اور سے ملتی ہو، اس لیے تمہیں حور جانتا ہے۔ تم سے کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ تم ہی فیصلہ کر لو’۔

آپ اندازہ لگائیں راجہ صاحب کتنی کمال مہارت سے کنول کو اپنی جانب متوجہ کرا رہے ہیں، کیسی جسٹیفیکیشن اور زبردست دلیل دے رہے ہیں۔

راجہ صاحب کی معاشرے پہ گہری نظر ہے، وہ انسانی نفسیات و مسائل جانتے ہیں، وہ عام لوگوں سے بہت الگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک خط میں راقم ہیں کہ ‘محبت اور جنس (Sex and Love) درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں؛ جنس کے بغیر محبت کی حیثیت دیوانے کے خواب کی سی ہے اور محبت کے بغیر جنس محض خود لذتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی کو جنس سے وابستہ کردیا گیا ہے، حالانکہ شادی تو 2 انسانوں کے درمیان محض ایک سماجی معاہدے کا نام ہے، ایک طرح کا معاشی تحفظ ہے’۔

راجہ صاحب خط میں روزمرہ حالات بتاتے ہوئے اپنی دل کی بات بھی رکھ دیتے، وہ ہر حال میں کنول کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے؛ لکھتے ہیں، ‘جان لو، بچوں سے لے کر بڑوں تک….. افراد سے لے کر اقوام تک…. سبھی جھگڑے ‘میرے اور تیرے’ کے پیدا کردہ ہیں، یہ میرا تیرا اگر ‘ہمارے’ میں بدل جائے تو شاید فساد ختم ہو پائیں’۔

راجہ صاحب اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں، باوجود کنول کا عاشق ہونے کے، وہ اپنے محبوب کے محب، اپنے رقیب یعنی خرم کو برا بھلا نہیں کہتے، راجہ صاحب خرم سے خوف زدہ ضرور ہیں مگر ان کے خلاف سازشی کردار ادا نہیں کیا، خرم کے بارے کنول سے شکوہ کناہ ہیں، خط میں لکھتے ہیں۔

‘مجھے اس سے صرف یہ گلہ ہے کہ وہ مجھے تمہاری قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ یہاں رہتا ہے تنہائیاں سر پر بازو رکھے میرے اردگرد بین کرتی رہتی ہیں۔ ان دِنوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ایک ایسی ماں ہو جس نے ایک بیٹا تو دنیا کے رواج کے مطابق جنم دیا، اسے تم اٹھائے پھرتی ہو، اس کے ماتھے پر سیاہ نشان لگاتی ہو کہ وہ نظربد سے بچا رہے، لوگوں سے اسے ملواتی ہو، گھنٹوں اسے ساتھ لیے رہتی ہو۔ مگر مجھے ایک ایسا بچہ بنا دیتی ہو، جسے تم نے بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ مجھے دنیا کے سامنے اپنا کہنے سے شرماتی ہو، اس کی موجودگی میں تم مجھے روتا دھوتا چھوڑ کر چل دیتی ہو، پھر دنیا کی نظروں سے بچ بچا کر اندھیرے میں منہ لپٹے پل دو پل کے لیے مجھے بہلانے کے لیے آجاتی ہو۔ خرم میرے وجود کو ناجائز بنا دیتا ہے’۔

دلیل دیکھیں، مثال و مزاج دیکھیں۔ لیکن یہاں راجہ صاحب کا کا عشق اور ظریف بھی دیکھیں، وہ کنول سے کہتے ہیں کہ ‘اگر تم خرم سے پوچھ کے مجھے یقین دلا دو کہ تم خرم سے شادی کے بعد بھی مجھے ملو گی تو مجھے منظور ہے، اگر وہ یہ اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شادی کر لو، میں تمہیں شادی کے بعد خرم سے ملنے کی اجازت دونگا’۔ راجہ صاحب کی ہمت، عظمت اور اعتبار دیکھیں۔

راجہ صاحب کنول کے حقیقی عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یہ بات فلسفیانہ انداز میں کنول کو بھی سمجھاتے ہیں، خط میں کنول سے مخاطب ہیں،تم بہت خوبصورت ہو۔ یقین کرو اگر خوبصورت نہ ہوتیں، تب بھی میں تمہیں اتنا ہی چاہتا۔ حُسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں ہے نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے احساس کا نام ہے۔

تم نے کہا تھا کہ مستقبل کے متعلق ابھی بات نہیں کریں گے؛ ٹھیک ہے، بات نہ کرنا اور ہے مگر سوچنا، اس سے قطعی علیحدہ شے ہے۔ اظہارِ بیان پر تو پابندی لگ سکتی ہے مگر میرے ذہین پر بھی قُفل لگا جاؤ، وہ ہر لمحہ تمہارے سوا کچھ سوچتا ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ تم ہی کچھ سوچو اور کوئی طریقہ بتاؤ۔

راجہ صاحب میل ملاقاتوں میں کنول سے مستقبل کے بارے اصرار کرتے ہیں، شادی کی گنجائش نکالنے پہ گفتگو کرتے ہیں، کنول بھی کسی حد تک یہی چاہتی ہے کہ راجہ صاحب سے اس کی شادی ہو لیکن کنول کے گھر بار اور فیملی اسٹیٹس راجہ صاحب کی قسمت کے آگے دیوار بنی رہتی ہے۔

دن اور مہینے تیزی سے گزرتے ہیں، دونوں مستقلاً یکجاں ہونے کا سوچتے ہیں کہ یونیوسٹی کے امتحانات سر پر آجاتے ہیں اور ان دونوں کو جدائی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ امتحان ہوتے ہی کنول کالج سے گھر چلی جاتی ہے۔ اب خط و کتابت محدود مگر محبت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ادھر خاندان میں کنول کی شادی کی سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں، جبکہ گھریلو پریشانیوں اور سخت روایات کے سبب کنول راجہ صاحب کا نام لینے سے کتراتی ہے۔ اسی لیے کنول فلحال کچھ عرصہ آرام کا بہانہ کرکے شادی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہاں تک حالات تقریباً ٹھیک رہتے ہیں، مگر ایک دن راجہ صاحب کے خط کنول کے گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ کنول کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے معاملہ رفع دفعہ کر لیتے ہیں مگر کچھ دن بعد مزید خطوط گھر والوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے تشویش بڑھ جاتی ہے اور صورتحال نازک ہو جاتی ہے جبکہ کنول کی شادی خرم سے کرنے کی تیاری زور پکڑ لیتی ہے۔

کنول راجہ صاحب کو سارے واقعات بتاتی ہے اور ایک دن خط میں خرم سے اپنی منگنی کی خبر دے دیتی ہے۔

 بس پھر کیا تھا، کنول کی منگنی کی خبر دیکھتے ہی راجہ صاحب کا تمام غیض و غضب ایک طویل خط میں جمع ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کنول کو نیچا دیکھنے کی خاطر اسے اک طوائف سے بھی کمتر ثابت کرتے ہیں، الزامات اور طنعوں کی بھرمار کرتے ہیں۔ اس ایک خط میں راجہ صاحب کا تمام فلسفہ، محبت، زمانہ شناسی، ضبط اور بھرم سب آشکار ہوجاتے ہیں۔

راجہ صاحب جو تمام صورتحال سے واقف ہیں، زمانے کے روایت اور لوگوں کے مسائل جانتے ہیں، باوجود اس کے وہ کنول کو مال و دولت اور کار کوٹھی کا لالچی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ پوری کہانی میں کہیں بھی کنول نے راجہ صاحب کو شادی کے لیے مکمل طور پہ گرین سگنل نہیں دیا، بلکہ ہر جا یہ خدشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کا رشتہ خرم سے طے کر رکھا ہے۔

راجہ صاحب نے آخری خط کے آخری جملے میں لکھا ہے کہ ‘باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گے’۔

محبت کرنے والے لوگ اور خاص کر ناکام عاشق راجہ صاحب اور کنول کی فکری نسل سے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں راجہ صاحب کے سیکنڈ لاسٹ خط اور ان کے طرزِ عمل سے شدید اختلاف کرونگا، یہ کیا بات ہوئی جب تک محبوب میرا تھا، میرے پاس تھا، میرے مطابق تھا تو سب کچھ ٹھیک اور جائز، اور جب محبوب مجبوری کے مارے نہ رہا تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے، اخلاص کے دعوے غلیظ انتقامی جملے بن جائیں، وعدوں اور دعووں کو خاک الود ہو جائے، کم از کم یہ اک سچے عاشق کا ظریف تو نہ ہو سکتا۔

میں سمجھتا ہوں حقیقی محبت تو یہ ہے کہ محبوب نہ بھی ملے تب بھی اس سے محبت باقی رہے، عزت، احترام و احساس کا رشتہ باقی رہے، نیک تمنائیں اور پرخلوص ادائیں قائم رہیں۔ عاشق کا کام ہے عشق کرنا، معشوق کو اختیار حاصل ہے وہ وفا کرے کہ جفا۔ محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ظرف اتنا وسیع ضرور ہو کہ وصال و فراق اور ہر حال میں میں محبوب و معشوق کی مال، جان اور عزت محفوظ رہے۔

مجھے راجہ انور صاحب کے ردعمل سے اختلاف ہے۔ یہ محبت کے امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہے۔

یہ کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھنے لائق ہے۔ بذات خود میں 2 دن کے وقفہ سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ کتاب ذہن پہ سحر طاری کرتی ہے، راجہ صاحب کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلچسپ ہے، راجہ صاحب کے خطوط میں قاری کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ وہ روزمرہ گفتگو میں شاندار جملے کہتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی عشق کیا ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے اور اپنی ماضی، حال اور مستقبل کی محبتوں کو سنہری جِلا بخشیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمیر خان آباد

متعلقہ مضامین

  • دل کی دھڑکن معمول پر لانے کے لیے چاول کے دانے سے بھی چھوٹا پیس میکر تیار
  • ’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
  • کومل عزیز کا انکشاف، شادی میری زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے
  • مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • وائرل فحش ویڈیو میری نہیں: سجل ملک
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ