کفایت شعاری مہم کے تحت مزید پانچ وزارتوں کی تشکیل نو کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت نے کفایت شعاری پالیسی کے تحت اخراجات میں کمی کیلئے تین مرحلوں کی کامیابی سے تکمیل کے بعد حکومت کی رائٹ سائزنگ کے چوتھے مرحلے کا آغاز کردیا جس کے تحت پانچ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ (تشکیل نو) کی جائے گی۔
ایکسپریس کے مطابق اس حوالے سے حکومت کی تشکیلِ نو کے لیے قائم کمیٹی کا اہم اجلاس جمعہ کو وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں وفاقی حکومت کی تشکیلِ نو کے لیے چوتھے مرحلے کے آغاز کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان، اراکین قومی اسمبلی اور متعلقہ وزارتوں و ڈویژنز کے سیکریٹریز شریک ہوئے۔
اجلاس کے آغاز پر وزیر خزانہ و محصولات نے وزارتوں اور ان کے وزراء کی جانب سے وفاقی حکومت کی تشکیلِ نو کے پہلے تین مراحل کی کامیاب تکمیل پر اپنائے گئے اجتماعی حکومتی رویے کو سراہا۔
اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ رائٹ سائزنگ کے ان تین مراحل کے عمل کے دوران 43 وزارتوں اور تقریباً 400 منسلکہ اداروں کا جائزہ لیا گیا تاکہ مالی سال کے اختتام سے قبل ان کی تشکیلِ نو کی جاسکے۔
اجلاس میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے کیے گئے جن فیصلوں کی فاقی کابینہ منظور ی دے چکی ہے ان پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی، جبکہ اہم مسائل کی صورت میں مرکزی کمیٹی معاملات کو دیکھے گی۔
وزیر خزانہ نے اجلاس میں اعلان کیا کہ چوتھے مرحلے میں پانچ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی جائے گی جن میں وزارت مواصلات، وزارت ریلوے، وزارت تخفیفِ غربت و سماجی تحفظ، محصولات ڈویژن، اور پٹرولیم ڈویژن شامل ہیں اور ان کے منسلکہ ادارے کمیٹی کے مینڈیٹ کے تحت تشکیلِ نو کے عمل سے گزارے جائیں گے۔
اجلاس کے دوران وزارت مواصلات کے حکام نے کمیٹی کو اپنی کارکردگی، تنظیمی ڈھانچے اور مختلف منصوبوں کو نیم نجکاری یا عوامی و نجی شراکت داری کے ماڈلز کے تحت چلانے کے امکانات پر تفصیلی بریفنگ دی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت مواصلات نے تشکیلِ نو کی روح کے مطابق تمام غیر ضروری عہدے ختم کر دیے ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے اجلاس میں وزارت کے بنیادی افعال اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کو منافع بخش ادارہ بنانے کے امکانات بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر این ایچ اے کے وسائل کو سکھر سے کراچی بندرگاہ تک کی ایم-6 موٹروے، جیسے ریونیو بیسڈ مالی طور پرمنافع بخش موٹرویز کی تعمیر کی جانب منتقل کیا جائے تو یہ ادارہ حکومت کے لیے بڑی آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اجلاس میں حکومت کی کی تشکیل کے تحت کے لیے
پڑھیں:
حکومت نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل اختیار سے متعلق قانون سازی مؤخر کر دی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار کو محدود کرنے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں ہو سکی اور حکومت نے قانون سازی مؤخر کردی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیاہ ے کہ حکومتی نمائندے اب تک اپنے اس ابتدائی موقف سے پیچھے ہٹ چکے ہیں جس میں چیف جسٹس کے وسیع اختیار کو ریگولیٹ کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا کوئی باضابطہ حق تاحال موجود نہیں، جس نے قانونی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل نے عدالتی کارروائی کے دوران نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 175(E)(4) کے مطابق صرف وہ انٹرا کورٹ اپیلیں سنی جا سکتی ہیں جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔ مستقبل میں آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف کوئی نئی اپیل دائر کرنے کا راستہ کھلا نہیں۔ یہ نقطہ عبادالرحمان لودھی ایڈووکیٹ نے بھی ایک علیحدہ مقدمے میں اٹھایا، جس سے اس معاملے کی پیچیدگی مزید نمایاں ہوگئی۔
ایک سرکاری اہلکار نے پس پردہ اعتراف کیا کہ عدالتی فیصلوں پر اپیل کا حق عملاً موجود نہیں، جب تک خود آئینی عدالت اپنے قواعد میں نئی گنجائش پیدا نہ کرے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یہ حق متعین نہ کیا جائے۔
اسی طرح یہ بھی ابہام برقرار ہے کہ حکومت خود اس سمت میں کوئی قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ ماضی میں خصوصاً سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں موجودہ حکومتی اتحاد بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
اسی پس منظر میں پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 متعارف کرایا تھا، جس کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اصول پہلی بار شامل کیا گیا۔
اسی قانون کی توثیق کرنے والے جج جسٹس امین الدین خان اب آئینی عدالت میں بطور ماسٹر آف روسٹر خود بینچ تشکیل دے رہے ہیں، جس پر عدالتی مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں۔
ادھر انتظامی معاملات میں بھی تبدیلیاں جاری ہیں۔ ایک سینئر سرکاری افسر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کو جی–10 سیکٹر کی سابقہ عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ جنوری کے لیے طے کیا جا چکا ہے، تاہم ہائی کورٹ بار نے اس منتقلی کو فروری تک مؤخر کرنے کی درخواست پیش کی ہے۔ اس پر حتمی فیصلہ آنے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں، جبکہ وکلا برادری اس اقدام سے متعلق اپنے خدشات پہلے ہی ظاہر کر چکی ہے۔