مریم نواز کی اے آئی تصاویر شیئر کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) کے ذریعے بنائی گئی تصاویر شیئر کرنے والے 10 افراد کے خلاف مقدمات درج کرلیے۔جیو نیوز کے مطابق لاہور میں ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے سائبر کرائم اور ڈپٹی ڈائریکٹرز نے پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے بتایاکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی اے آئی سے بنی تصاویر شیئر کرنے والے 10 افرادکیخلاف مقدمات درج کرلیا گیا جس میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر اب تک 18 افراد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے کا کہناتھاکہ ریاست اور معزز شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تصاویر بنانے، شیئر اور کمنٹس کرنے والے ایف آئی اے کے ملزم ہیں لہٰذا تصاویر بنانے والے، شیئر، لائک اور کمنٹ کرنے والو ں کو بھی پکڑا جائے گا، اس معاملے ملزمان کی 4 کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے کا کہنا تھاکہ ان ملزمان کو 5 سے 7 سال تک سزا ہوگی، سائبر کرائم قوانین کو مزید سخت بنارہے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ ملک سے باہر بیٹھ کر شر پسندی کرنے والوں کو پاکستان لائیں گے، شہباز گل اور عادل راجہ جیسے ملزمان کو پاکستان لانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کی پانامہ کینال واپس لینے کی دھمکی، اس نہر کی سالانہ آمدنی کتنی ہے، اگر یہ چھینی گئی تو ملک کا کیا حشر ہوگا؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: مقدمات درج کے خلاف آئی اے
پڑھیں:
کربلا اور کربلا والے!
اسلام ٹائمز: کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر انکے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، انکے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، انکا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ انکا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
کربلا ایک ایسا نام ہے، جس پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، حتیٰ ٰسب سے قیمتی چیز جان ہوتی ہے، ہم اس کو بھی کربلا پر قربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کربلا اور کربلا والوں نے ہمیں درس ہی ایسے دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز میں بقاء ہی نہیں نظر آتی۔ کربلا والوں نے میدان کربلا میں تپتے ریگزار پر تین دن کی بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے قلت تعداد میں ہو کر اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جانوں کو قربان کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنی جانوں کی پرواہ کرنے والے۔ میدان کربلا میں فقط چند گھنٹوں کی لڑائی نے تاریخ کا ایسا دھارا بدلا کہ رہتی دنیا تک دنیا کے باضمیر، باغیرت، باحمیت، شجاعت و بہادری کے دلدادہ، عز و شرف کے متوالے، غیرت و حمیت کے پروانے، دین و ایمان کے سرباز، اسلام کو آفاقی و الہیٰ دین تسلیم کرکے زندگی کرنے والے انسانوں کو یہ رہنمائی و راستہ دکھاتی رہے گی۔ کربلا زندہ ضمیروں پر دستک دیتی رہے گی، کربلا طاقتوروں کو ان کی طاقت و قوت کے زور پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف للکارتی رہے گی۔
جو جو بھی کربلا سے خود کو وابستہ کرے گا، اس کو نجات کا راستہ مل جائے گا، ہدایت کا راستہ مل جائے گا، بقاء کا راستہ مل جائے گا۔ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں اور ارب ہا انسان فقط چودہ صدیوں میں اپنی زندگی گزار کر جا چکے ہیں، آج ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں ہے، کوئی کسی کو جانتا بھی نہیں ہے، مگر میدان کربلا میں فقط بہتر شہداء کے ایثار و قربانی کے کردار نے ایسی ابدیت و ہمیشگی پائی ہے کہ ان کا ذکر مٹانے سے نہیں مٹتا۔ ہر سال ان کے ایام ہائے شہادت یعنی عاشورا میں دنیا کے ہر ملک و ملت میں ان کا ذکر ناصرف بلند ہوتا ہے بلکہ ہر سال کی بہ نسبت زیادہ قوت و طاقت اور زور و شور سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس ذکر کو بلند رکھنے کیلئے جہاں مال کی بہت بڑی قربانی دی جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر خرچ اخراجات کیے جاتے ہیں، وہیں اس ذکر کو بلند کرنے میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کیساتھ بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں جانوں کی قربانی بھی قبول کی جاتی رہی ہے اور ایسے خطرات و اندشوں کے ہوتے ہوئے یہ ذکر ہمیشہ بلند کیا جاتا ہے۔
گویا ایک عظیم قربانی کی یاد مناتے ہوئے بھی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کسی دنبے یا لیلے کی قربانی نہیں بلکہ جیسے میدان کربلا میں اصل قربانیاں پیش کی گئیں تھیں، ایسے ہی ان کی یاد میں بھی انسانوں کی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس وقت جمہوری اسلامی ایران واحد مملکت اسلامی ہے، جس میں مکمل طور پر اسوہ کربلا کے پیروکاران طاقت و اقتدار میں ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف دنیا بھر کے یزیدی اور ان کے ہمنوا ایک ساتھ ہیں۔ گذشتہ سینتالیس برس سے انقلاب اسلامی ایران یزیدان عصر نو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کو جھکانے والے جھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جھکتا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جاتے ہیں، مگر وہ نہیں مٹتا۔ اس کو نابود کرنے کی خواہش رکھنے والے نابود ہو جاتے ہیں، مگر وہ نابود نہیں ہوتا۔ یہ فقط اس راستے کی برکات ہیں، جو کربلا سے اور کربلا والوں سے متصل ہونے والوں کو ملتی ہیں۔
اس لیے کہ اٹھاون اسلامی ممالک نے اپنا سر دشمنان دین و ایمان، یزیدان عصر نو، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسرائیل کے سامنے جھکا رکھا ہے، جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے کبھی ان نام نہاد طاقتوروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کو یہ راہ کربلا والوں نے سکھائی و بتلائی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
اہل ایران نے فقط اس کائنات کے مالک اصلی و خالق حقیقی کے سامنے سر جھکایا ہوا ہے۔ اس لیے انہیں کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑتا، جبکہ دیگر مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں نے چھوٹے بڑے یزیدوں کے سامنے سر جھکانے میں اپنی بقا و سلامتی سمجھ رکھی ہے۔ لہذا وہ جھکتے ہیں اور جھکتے ہی چلے جاتے ہیں۔کربلا والوں کی منزل راہ شہادت سے ہو کر گزرتی ہے۔ لہذا اس راہ کے راہی کبھی بھی اس سے کتراتے نہیں بلکہ اپنی منزل کے حصول میں اس راہ پرخار سے گزرنے ہوئے ان کے اندر بے تابی اور اشتیاق زور و شور پر ہوتا ہے۔
ان کا اطمینان ہی اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں اذن شہادت ملتا ہے۔ عاشور کے دن بھی تو ایسا ہی تھا، ہر ایک بے قرار تھا کہ جان نثار کرے، ہر ایک اذن شہادت مانگتا تھا، ہر ایک ہزار ہزار بار قتل ہوکر بار بار فدا ہونا چاہتا تھا۔ دراصل یہ عشق کی کہانی ہے، یہ عشق اور جنون کے معاملے ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اس کی گتھیاں ہر ایک سلجھانے کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، بلکہ عاشقوں کے قبیلوں میں شامل ہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور اس موت و شہادت میں بقا کو پا سکتے ہیں۔ بقول حسرت موہانی:
تم پر مٹے تو زندہء جاوید ہوگئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
اور محمد علی جوہر بھی کہتے ہیں۔۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری، یہی انتہا کے بعد
کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر ان کے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، ان کے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، ان کا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ ان کا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔