معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ سے برآمد شیر کے بچے کو لاہور سفاری زو میں ہی رکھنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
لاہور کے معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ سے برآمد ہونے والا شیر کا بچہ اب مستقل طور پر لاہور سفاری زو میں ہی رہے گا جب کہ محکمہ وائلڈ لائف نے عدالت کے فیصلے کے مطابق اسے سفاری زو کے حوالے کر دیا ہے تاکہ اس کی مناسب دیکھ بھال ہو سکے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف لاہور ریجن ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق یہ شیر کا بچہ رجب بٹ کے قبضے سے برآمد کیا گیا تھا۔
رجب بٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ بچہ انہیں تحفے میں دیا گیا تھا، تاہم قانون کے مطابق کسی بھی غیر قانونی ملکیت پر کارروائی کی جاتی ہے، چونکہ یہ بچہ رجب بٹ کے گھر سے قبضے میں لیا گیا تھا، لہٰذا اسے کلیم کرنے کا حق صرف اسی شخص کو ہو سکتا ہے۔
عمر ڈولا جنہوں نے رجب بٹ کو یہ بچہ تحفے میں دیا تھا، کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں اور وہ جلد بچے کو واپس دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ عمر ڈولا کے پاس موجود پیپر ورک کسی کام کا نہیں کیونکہ قانونی طور پر یہ بچہ محکمہ وائلڈ لائف کی تحویل میں ہے۔
ڈائریکٹر لاہور چڑیا گھر شیخ محمد زاہد نے واضح کیا کہ نئی قانون سازی کے بعد شیر، ٹائیگر اور دیگر بگ کیٹس کو شہری آبادی میں رکھنے کی اجازت نہیں، ان جانوروں کے لیے عالمی معیار کے مطابق 500 مربع گز کا پنجرہ، سیکیورٹی اقدامات اور ویٹرنری سہولیات ضروری ہیں۔
مزید برآں، بگ کیٹس کے ساتھ ویڈیوز بنانے اور انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
چڑیا گھروں میں کئی سالوں کے تجربے کے باوجود نگرانی پر تعینات عملے کو بھی شیر کے پنجروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، لیکن گھروں اور بریڈنگ فارمز پر یہ لوگ انتہائی غیر ذمہ داری سے ان جانوروں کے ساتھ گھومتے ہیں، جو نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
عمر ڈولا کے بریڈنگ فارم پر پیش آنے والے ایک واقعے میں شیر کے حملے سے ایک نوجوان شدید زخمی ہوا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ وائلڈ لائف ایکٹ 1974 اور کیپٹو وائلڈ لائف مینجمنٹ رولز 2023 کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور مالک کے خلاف قانونی اقدامات جاری ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ شیر جیسے خطرناک جانوروں کو پالتو بنانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ جانور کسی بھی وقت غیر متوقع رویہ اختیار کر سکتے ہیں، جس سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائلڈ لائف
پڑھیں:
مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کی پریس کانفرنس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جولائی2025ء) گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال ہماری مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد رہی جو کہ حکومت اور سٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ہدف سے معمولی کم تھی۔ بدھ کو زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ترسیلات زر میں اضافے کے نتیجے میں ہی گزشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹس خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں 4.7 فیصد تھا، ہمارے اقدامات کے نتیجے میں 2023 میں یہ جی ڈی پی کے تقریباً ایک فیصد پر آگیا، 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں تقریباً نصف فیصد تھا اور گزشتہ مالی ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بجائے سرپلس پر ختم ہوا ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہاکہ کرنٹ اکاؤنٹ 14 سال بعد سرپلس آیا ہے جوکہ پچھلے 22 سال کا بلندترین سرپلس ہے، اسی کی وجہ سے ہمارے بیرونی کھاتوں میں استحکام آیا ہے اور سٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ میں سرگرمی کی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر آیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال ہم نے قرضوں کی تمام ادائیگیاں بروقت کیں اس کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پچھلے سال کے 9.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس 14.5 ارب ڈالر کے ہوگئے تھے اور اس میں ایک سال کے دوران تقریباً 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پچھلے سال ہم نے 26 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی تھیں جن میں سے خاصی موخر ہوئیں، پھر بھی ہم نے تقریباً 10 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ذخائر میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور اسی کا ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ پر مثبت اثر پڑا۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ مالی سال زرعی شعبے کی نمو 0.6 فیصد خاصی کم رہی، رواں مالی سال میں زرعی شعبہ بہتر ہونے سے نمو بڑھے گی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قومی پیداوار کے صفر سے ایک فیصد رہے گا، بارشوں اور پانی کی دستیابی بہتر ہونے سے زرعی شعبہ بہتر کارکردگی دکھائے گا۔انہوں نے کہاکہ قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بڑھا ہے، ہمارے زرمبادلہ ذخائر بڑھ رہے ہیں اور قرض برقرار ہے، ریٹنگ ایجنسیوں نے ہماری ریٹنگ بڑھائی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے بدھ کو اجلاس میں پالیسی کی شرح 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ جون 2025 ء میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر سال بسال 3.2 فیصد تک آ گئی، جس کی بنیادی وجہ غذائی قیمتوں میں کمی ہے، جبکہ مہنگائی میں بھی کچھ کمی آئی۔ تاہم، کمیٹی نے نوٹ کیا کہ توانائی کی قیمتوں، خاص طور پر گیس کے نرخوں میں توقع سے زیادہ ردوبدل سے مہنگائی کے منظرنامے میں کچھ بگاڑ آیا ہے۔ پھر بھی، توقع ہے کہ مستقبل میں مہنگائی ہدف کی حد میں آ کر مستحکم ہو جائے گی۔ مزید برآں، معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آ رہی ہے جبکہ پالیسی ریٹ میں سابقہ کمی کے اثرات اب بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ دریں اثنا ، کمیٹی نے توقع ظاہر کی کہ مالی سال 26ء میں تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا، جس کی وجہ معاشی سرگرمی میں اضافہ اور عالمی تجارت میں سست روی ہے۔ اس میکرو اکنامک منظرنامے اور ابھرتے ہوئے خطرات کے پیش نظرزری پالیسی کمیٹی نے آج کے فیصلے کو قیمتوں کا استحکام یقینی بنانے کے لئے ضروری سمجھا۔ کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس کے بعد سے اب تک کی جو پیش رفت نوٹ کی وہ درج ذیل ہیں۔ سب سے پہلے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر مالی رقوم کی بہتر آمد اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کی بدولت 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ دوسرا، پاکستان کی ریاستی کریڈٹ ریٹنگ میں حالیہ بہتری یوروبانڈ کی یافت میں کمی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں سی ڈی ایس اسپریڈ میں کمی کا سبب بنی ۔ تیسرا، حالیہ سروے میں صارفین نے مہنگائی بڑھنے کی توقعات میں معمولی سا اضافہ ظاہر کیا جبکہ کاروباری اداروں نے مہنگائی میں کمی کی توقع ظاہر کی ۔ چوتھا، مالی سال 25 ء میں ایف بی آر کے ٹیکس محاصل 11.7 ٹریلین روپے رہے ، جو کہ نظرثانی شدہ تخمینے سے تقریباً 200 ارب روپے کم ہیں۔ آخر میں، تیل کی عالمی قیمتیں متغیر رہیں، جبکہ دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران، عالمی تجارت کے ٹیرف کے اثرات غیر یقینی رہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینکوں نے محتاط زری پالیسی موقف برقرار رکھا۔ اس پیش رفت اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر کمیٹی نے تجزیہ کیا کہ مہنگائی کو 5 – 7 فیصد کے ہدف کے اندر مستحکم کرنے کے لیے حقیقی پالیسی ریٹ کو مناسب طور پر مثبت رہنا چاہیے۔ کمیٹی نے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط زری اور مالیاتی پالیسی کا امتزاج جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ نیز ، کمیٹی نے اپنی اس رائے کا اعادہ کیا کہ ساختی اصلاحات کے بغیر پائیدار بنیادوں پر بلند نمو حاصل کرنا مشکل ہوگا۔حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی کی بہتر دستیابی کے نتیجے میں اہم فصلوں کےامکانات سابقہ توقعات کے مقابلے میں کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اجناس پیدا کرنے والے شعبوں کے بہتر امکانات خدمات کے شعبے پر بھی مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ مالی حالات میں بہتری ، مثبت کاروباری احساسات اور بتدریج مضبوط ہوتے کلّی معاشی حالات کے بل بوتے پر حقیقی جی ڈی پی کی نمو اس سال بڑھ کر 3.25 تا 4.25فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جبکہ قبل ازیں مالی سال 25ء میں اس کے 2.7 فیصد تک رہنے کا عبوری تخمینہ لگایا گیا تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ جون میں328 ملین ڈالر سے سرپلس رہا ، جس سے مالی سال 25 ء میں مجموعی فاضل 2.1 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) تک پہنچ گیا۔ کارکنوں کی ترسیلات زر اہم رہیں ، کیونکہ انہوں نے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی بخوبی تلافی کر دی۔ فنانسنگ کے محاذ پر، تخمینہ شدہ سرکاری رقوم کی آمد کا ایک بڑا حصہ جون میں حاصل ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 14 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئے۔ مالی سال 26 ءمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے۔ فنانسنگ کے لحاظ سے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں حالیہ بہتری کے بعد نجی رقوم کی آمد میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد پر، اسٹیٹ بینک زرمبادلہ ذخائر دسمبر 2025 ء کے آخر تک بڑھ کر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔حکومت کے نظرثانی شدہ تخمینے مالی سال 25ء کی مالی صورتِ حال میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں بنیادی اور مجموعی مالیاتی توازن (بطور جی ڈی پی کا فیصد) اپنے متعلقہ اہداف سے بڑھ گئے ۔ اس بہتر کارکردگی کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس اور نان ٹیکس محاصل دونوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ تاہم، تقریباً 26 فیصد نمو حاصل ہونے کے باوجود، ایف بی آر محاصل کا نظرثانی شدہ ہدف تھوڑے سے فرق سے پورا نہ ہو سکا۔ مالی سال 26ء میں حکومت جی ڈی پی کے 2.4 فیصد بنیادی سرپلس کے ہدف کے ساتھ مزید مالیاتی یکجائی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کا انحصار محاصل جمع کرنے کی مربوط کوششوں اور اخراجات میں کمی پر ہوگا۔ کمیٹی نے مالیاتی یکجائی کا سلسلہ جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ گذشتہ دو برسوں میں حاصل کردہ کُلّی معاشی فوائد کو برقرار رکھا جا سکے۔7۔ 11 جولائی تک زرِ وسیع (ایم 2) کی نمو بڑھ کر سال بسال 14.0 فیصد تک پہنچ گئی، جو زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے وقت 12.6 فیصد تھی۔ اس کی بنیادی وجہ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں (این ایف اے) میں اضافہ تھا، جو زرمبادلہ کے ذخائر کے بڑھنے کے باعث ممکن ہوا۔ اسی دوران، نجی شعبے کے قرضے کی شرح نمو بھی سال بسال بڑھ کر 12.8 فیصد ہو گئی، جسے مالی حالات میں نرمی اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری سے تقویت ملی۔ بالخصوص، قرضوں میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، جس میں جاری سرمائے کے قرضوں، معینہ سرمایہ کاری قرضوں اور صارفین کے قرضوں میں اضافہ شامل تھا۔ اہم قرض گیر شعبوں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات، اور تھوک اور خردہ تجارت شامل تھے۔ دریں اثنا، کرنسی اور ڈپازٹ کی شرح، جو جون میں کم ہوگئی تھی، اس میں جولائی کے دوران دوبارہ بڑھ گئی۔ نتیجتاً، اسٹیٹ بینک کو بین البینک شبینہ ریپو ریٹ کو پالیسی ریٹ سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے سیالیت کا ادخال بڑھانا پڑا، جس کی وجہ سے زرِ محفوظ کی نمو میں اضافہ ہوگیا۔جون 2025ء میں مہنگائی سال بہ سال 3.2 فیصد درج کی گئی، جو مئی میں 3.5 فیصد تھی۔ اس کمی کی بڑی وجہ غذائی قیمتوں میں اعتدال اور قوزی مہنگائی میں معمولی سی کمی ہونا ہے، جو 7.6 فیصد رہ گئی۔ مزید برآں، موٹر ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باوجود توانائی کی قیمتیں سال بہ سال بنیاد پر پست رہیں۔ آگے چل کر، گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافے، بجلی کے نرخوں میں عارضی کمی کا سلسلہ ختم ہونے (مالی سال 2025ء کی چوتھی سہ ماہی سے)، اور موٹر ایندھن کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باعث توانائی کی مہنگائی موجودہ سطح سے بڑھنے کی توقع ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیاکہ مالی سال 26ء کے بیشتر حصے میں مہنگائی 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، تاہم بعض مہینوں میں یہ اپنی بالائی حد سے تجاوز کرسکتی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ منظرنامے کو متعدد خطرات درپیش ہیں، جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں اور تجارتی رجحانات کی غیر یقینی صورتِ حال، توانائی کے سرکاری نرخوں میں غیر متوقع ردّوبدل، اور وسیع پیمانے پر سیلاب کے امکانات شامل ہیں۔