اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیٹے نے باپ کو زمین پر گرا کر مارا پیٹا، گلا گھوٹنے کی کوشش کی ، کویتی اخبار کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیٹے نے باپ کو زمین پر گرا کر مارا پیٹا، گلا گھوٹنے کی کوشش کی ، کویتی اخبار کا دعویٰ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 January, 2025 سب نیوز
کویت سٹی (سب نیوز)اپنے والد وزیراعظم نیتن یاہو کو زمین پر گرا کر مار پیٹ کرنے اور ان کا گلا گھونٹنے پر یائر نیتن یاہو کو اسرائیل سے باہر بھیج دیا گیا تھا۔کویتی اخبار الجریدہ کے مطابق باپ بیٹے میں ہاتھا پائی کا یہ واقعہ حماس کے 7اکتوبر 2023کو اسرائیل پر حملے سے پیش آیا تھا۔
وزیراعظم کی حفاظت پر مامور ایک سینیئر سیکیورٹی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر الجریدہ کو بتایا کہ واقعے کے وقت خاتونِ اول سارہ نیتن یاہو بھی وہیں موجود تھیں۔ان کی چیخنے کی آواز سن کر سیکیورٹی اہلکار موقع پر پہنچے اور گتھم گتھا باپ بیٹے کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔بیٹے کی جانب سے گلا گھوٹے جانے کے باعث اسرائیلی وزیراعظم کی حالت غیر تھی اور انھیں درست طریقے سے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھا۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے وزیراعظم کو پانی پیش کیا لیکن مسلسل کھانسی کی وجہ سے نیتن یاہو نے الٹی کردی۔ ان کی طبیعت بحال ہونے میں کافی وقت لگا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کے جارح مزاج بیٹے یائر نیتن یاہو کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی بھیج دیا گیا تھا۔ اسرائیلی جنرل سکیورٹی سروس نے یائے نیتن یاہو کو اپنے والد کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بیٹے کو باپ کے ساتھ رہنے کے لیے واپس آنے سے روک دیا تھا۔
الجریدہ نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے اس واقعے کو چھپایا اور بیٹے یائر نیتن یاہو کو امریکا بھیج دیا تھا۔دوسری جانب نیتن یاہو کی اہلیہ سارہ نیتن یاہو اپنے بیٹے کی تلاش میں میامی گئیں جہاں وہ مبینہ طور پر یائر نیتن یاہو کے نفسیاتی علاج کے مکمل ہونے تک قیام کریں گی۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہوگی، سروے
یہ نتائج انتہائی دائیں بازو کے ووٹر بیس میں گہری ناراضگی اور مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں، جو جنگ بندی کے معاہدے کو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بین گویراور اسموٹریچ، جنہوں نے ہمیشہ حماس کے مکمل طور پر تباہ ہونے اور تمام قیدیوں کی واپسی تک فوجی آپریشن جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے، اب انہیں سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر ہٹائے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ فلسطین میں کیےگئےسروے سے حاصل ہونیوالے اعدادوشمار اور نتائج کے مطابق 48 فیصد جواب دہندگان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات چاہتے ہیں،اس سے موجودہ اسرائیلی کابینہ پر گہرے عدم اعتماد اور تبدیلی کی خواہش کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتائج سے قطع نظر غزہ جنگ بندی معاہدے نے مقبوضہ علاقوں میں ایک سیاسی زلزلہ برپا کر دیا ہے۔
تازہ ترین سروےسے پتہ چلتا ہے کہ معاہدے نے بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی کابینہ کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صہیونی اخبار معاریو میں شائع ہونے والے ایک سروے میں حکمران اتحاد کی نازک سیاسی حالت کی واضح تصویر پیش کی گئی ہے: حزب اختلاف نے 59 نشستوں کے ساتھ نیتن یاہو کے اتحاد (51 نشستوں) کو 8 نشستوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ خلا اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔
زیادہ حیران کن نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی کمزور حالت ہے۔ جیوش پاور پارٹی، جس کی قیادت موجودہ وزیر داخلہ اتمار بین گویر کے پاس ہے، اس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے ساتھ، صرف چھ نشستوں پر بچیں گئیں۔ دریں اثناء، مذہبی صہیونی جماعت، جس کی قیادت وزیر خزانہ، اسموٹریج کر رہے ہیں، اگر قبل از وقت انتخابات کرائے جاتے ہیں تو ایک بھی نشست نہیں جیت پائے گی۔
یہ نتائج انتہائی دائیں بازو کے ووٹر بیس میں گہری ناراضگی اور مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں، جو جنگ بندی کے معاہدے کو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بین گویراور اسموٹریچ، جنہوں نے ہمیشہ حماس کے مکمل طور پر تباہ ہونے اور تمام قیدیوں کی واپسی تک فوجی آپریشن جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے، اب انہیں سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر ہٹائے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس صورتحال نے نیتن یاہو کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔
ایک طرف، انتہائی دائیں بازو کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کا مطلب جنگ کے خاتمے اور استحکام کی طرف بڑھنے کے عوامی مطالبے کو نظر انداز کرنا ہے۔ دوسری طرف، اپوزیشن پر فتح حاصل کرنے اور وسیع تر اتحاد بنانے کی کوششیں بین گویراور اسموٹریچ کی کابینہ سے علیحدگی اور حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی نے نہ صرف وقتی طور پر جنگ کی آگ کو بجھا دیا ہے بلکہ نیتن یاہو کے اتحاد کی راکھ کے نیچے موجود چنگاری کا کام کرتے ہوئے ایک ایسی آگ بھی جلائی ہے جو کسی بھی لمحے بھڑک سکتی ہے اور اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہے۔
بن گویر اور اسموٹریج بھی مکمل طور پرایک مشکل تعطل میں پھنس گئے ہیں، ان کی کابینہ سے علیحدگی اور نیتن یاہو کے اتحاد کے خاتمے کا نتیجہ ان تمام افراد کی سیاسی زندگیوں کا خاتمہ ہو گا (نیتن یاہو، بین گویراور اسموٹریچ)، اور ان کے اتحاد کی طرف سے غزہ جنگ میں باضابطہ شکست بھی ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ شمار ہوگی۔غزہ کے ان جلادوں کے لیے کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔