وقف ترمیمی بل معاملہ کو لیکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک اہم بیان جاری کر کے ریاست اتراکھنڈ کے یو سی سی قانون کو غیر جمہوری، غیر دستوری اور شہریوں کے بنیادی حقوق پر دست درازی قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر دینی و ملی تنطیموں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ وقف ترمیمی بل کی منظوری اور اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کو انتہائی افسوسناک اور ملک کے لئے بدبختانہ قرار دیا ہے۔ مسلم قائدین نے کہا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی پر تمام جمہوری و اخلاقی قدروں اور مسلمانوں کے دستوری حقوق کو پامال کرنے کا الزام عائد کیا۔ بورڈ نے کروڑوں کی تعداد میں دی گئی مسلمانوں کی آراء، ان کے جذبات و احساسات کو نظر انداز کرنے اور اپوزیشن ممبران کی تجاویز کو مسترد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری کی سفارش انتہائی نا معقول، غیر جمہوری اور مسلمانوں کے حقوق پر دست درازی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک اہم بیان جاری کر کے ریاست اتراکھنڈ کے یو سی سی قانون کو غیر جمہوری، غیر دستوری اور شہریوں کے بنیادی حقوق پر دست درازی قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ ہمارے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ بورڈ نے کہا کہ ملک کا دستور مسلمان سمیت تمام شہریوں کو اپنا مذہبی عقیدہ رکھنے اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ بورڈ کے مطابق مسلم پرسنل لاء دین اسلام کا جزو لا ینفک ہے، جسے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے ذریعہ تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ ملی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ کسی ریاست کو یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ہرگز بھی اختیار نہیں ہے، یہ ریاستی حدود سے مجرمانہ تجاوز ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال جولائی میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ، عیسائی، بودھ، دلت اور آدیباسی طبقات نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا تھا کہ انہیں کسی بھی قیمت پر یو سی سی منظور نہیں ہے۔ ہم اتراکھنڈ کے مسلمانوں اور دیگر شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان گیڈر بھبکیوں سے ہرگز بھی متاثر نہ ہوں، اپنے مذہبی و روایتی قانون پر کوئی مصالحت اختیار نہ کریں۔ جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے اس کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور تمام مسلم تنظیمیں نے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو وقف املاک سے کھلواڑ کی ہرگز بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وقف ترمیمی بل 2024 کو مسلمانان ہند پوری طرح مسترد کرچکے ہیں۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے پارلیمانی ضوابط اور حدود کا ہرگز بھی خیال نہیں رکھا اور تمام جمہوری اقدار و روایات کو بالائے طاق رکھ کر کاروائی چلائی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور تمام مسلم تنظیموں نے اس بل پر اپنا موقف جے پی سی کو تحریری طور بالمشافہ پیش کیا تھا نیز مسلمانوں نے کروڑوں کی تعداد میں ای میل بھیج کر اس کی مخالفت کی تھی۔ بورڈ کے اپنے انی شیٹیو پر تین کروڑ 66 لاکھ افراد نے ای میل بھیجے تھے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی دیگر تنظیموں کی کوششوں سے بھی کئی کروڑ ای میل بھیجے گئے، جس کا ریکارڈ بھی ان تنظیموں کے پاس محفوظ ہے۔ بورڈ کے بنگلور اجلاس میں تمام مسلم تنظیموں نے مشترکہ طور پر یہ واضح کردیا تھا کہ وہ ہرگز بھی کسی کو یہ اختیار نہیں دیں گے کہ ان کی عبادت گاہوں اور دیگر وقف املاک کو ہڑپنے یا تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔
بورڈ نے کہا کہ حکومت مسلمانوں کے صبر کا امتحان نہ لے اور ملک کو جمہوریت کے بجائے تاناشاہی کی طرف لے جائے۔ اقلیتوں کی جائیدادوں پر قبضہ جمانے کی کوشش سراسر ظلم ہے، جس کو کوئی بھی انصاف پسند گروہ قبول نہیں کر سکتا۔ ہمیں افسوس ہے کہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں نے اپنا کردار نہیں نبھایا اور بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کا ساتھ دیا۔ ہم حزب مخالف کی سیکولر پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو متحدہ طور پر اس کی پر زور مخالفت کریں۔ ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ترمیمی بل کو واپس لے اور سابقہ قانون کو برقرار رکھے۔ ورنہ مسلمانوں کے لئے عوامی جدوجہد کے علاوہ کو ئی اور راستہ نہیں بچے گا اور نتیجتا جو صورتحال پیدا ہوگی اس کے لئے حکومت ذمہ دار ہوگی۔ وقف کی املاک کو بچانے کے لئے ہم تمام جمہوری و دستوری ذرائع کا بھرپور استعمال کریں گے۔ جس میں کُل ہند احتجاجی تحریک بھی شامل ہے، اس کے لئے اگر ہمیں سڑکوں پر آنا پڑے یا جیل جانا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کے ہرگز بھی کے لئے کہا کہ
پڑھیں:
دھمکی نہیں دلیل
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی
امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔
یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔
سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔
وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔
"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔