آئی پی پیز مافیا سے بچت کا فائدہ عوام کو دیا جائے،پروفیسرمحبوب
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
فیصل آباد (وقائع نگارخصوصی)حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے اور آئی پی پیزکے دھندے کے خلاف حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر ملک گیراحتجاج کے سلسلہ میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے صوبائی نائب امیررانا عبدالوحید ، ضلعی امیرپروفیسرمحبوب الزماںبٹ، صدرکسان بورڈ سردارظفرحسین، یاسرکھارا ،افضال شاہین ،شیخ مشتاق ، راناعدنان کی قیادت میںضلع کونسل چوک میںمیں احتجاج اور کچہری چوک تک مارچ کیا۔ کارکنوں نے شدیدنعرہ بازی کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاکہ آئی پی پیز مافیا سے بچت کا فائدہ عوام کو دیا جائے اوربجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے محبوب الزماں بٹ نے کہاکہ جماعت اسلامی کے سوا کسی پارٹی نے آئی پی پیزکے خلاف آواز نہیں اٹھاتی،ہم نے آئی پی پیز مافیا کے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدوں کے خلاف راولپنڈی میں 14روزہ دھرنا دیا، حکمران کہتے تھے کہ آئی پی پیز کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوسکتی لیکن جماعت اسلامی کی جدوجہد کی بدولت حکومت مجبور ہوئی اور آج آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی سے ملک کو 1100روپے کی بچت ہو چکی ہے لیکن حکومت اس سے عوام کو ایک روپے کابھی فائدہ نہیں دے رہی۔انہوں نے کہاکہ حکومت فوری طور پر جاگیرداروں پر ٹیکس لگائے اور تنخواہ دار طبقے اور تاجروں کو ٹیکس میں ریلیف دے۔ حکمران اپنی عیاشیاں اور مراعات ختم کریں اور سود کی شرح کوسنگل ڈیجٹ پرلایاجائے۔ ان اقدامات سے ہونے والی اربوں روپے کی بچت کو بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وصوبائی حکومت اپنی شاہ خرچیاں ترک کرنے کے لیے تیار نہیں،ملک میں متوسط طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے جا پہنچا ہے اور حکمران اپنی تنخواہوں میں 140فیصد اضافہ کررہے ہیں اوراسسٹنٹ کمشنرز کو 2ارب کی گاڑی دلاناچاہتے ہیں،اس معاملے میں پیپلز پارٹی،ن لیگ،ایم کیوایم،پی ٹی آئی سب ایک ہیں،جو اپنی شاہ خرچیاں کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی پی پیز
پڑھیں:
گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-4
راجا ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں، یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ڈوگرہ فوج سے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا، گلگت بلتستان کے بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاصل کی، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیر بھی شامل ہے، کشمیر پر مسلط ڈوگرہ نے ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں، دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے، دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں، بیس کیمپ کی یہ حکومت قائد اعظم کے وژن کا نتیجہ ہے۔ لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی، پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا، اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کا نظام حکومت الگ کیا گیا۔ نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے، گورنر اور ویزرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیر آزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کافی حد تک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس حساس خطے پر دشمن کی نظریں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرما ہے اس لیے یہاںکے عوام نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو مل کر رہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس سوچ اور فکر کو پذیرائی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔ اس خطے میں سنی، اہل تشیع، نوربخشی، اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجود ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے، یہ پاکستان کا قدرتی حصار ہے، گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بھی دعائوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہ ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔