صوبائی حکومت نے جس منظم اور بہتر انداز میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے منصوبوں کو آگے بڑھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حاجی گلبر خان کی زیر صدارت سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور سردیوں کی آمد سے قبل سیلاب متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیر کے حوالے سے جاری منصوبوں کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے جس منظم اور بہتر انداز میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے منصوبوں کو آگے بڑھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو سردیوں سے قبل شیلٹرز کی فراہمی ہماری ترجیح ہے جس پر ڈونرز اور این جی اوز کے تعاون سے کام جاری ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے صدر اسماعیلی نیشنل کونسل برائے پاکستان کو باور کرایا کہ ہزہائنس پرنس رحیم آغا خان کی جانب سے AKDN نے گلگت بلتستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کیلئے حکومت کی مشاورت سے دو ارب کے فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، اس وقت سب سے بڑا چیلنج متاثرین کو شیلٹرز کی فراہمی کا ہے، AKDN ان شیلٹرز کی فراہمی میں اپنا تعاون یقینی بنائے۔ غذر میں تالی داس کے مقام پر سیلاب سے جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان کو متبادل جگہ فراہم کیا گیا جہاں پر آباد کاری کا عمل جاری ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سڑک، پانی، بجلی اور آبپاشی چینلز کی تعمیر کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 1 ارب 80 کروڑ روپے کے منصوبوں منصوبوں کی ایمرجنسی کے تحت منظوری دی ہے جن پر کام کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور جی بی ڈی ایم اے کی جانب سے بحالی کے منصوبوں پر وزیر اعلیٰ کو بریفنگ دی۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر ایمرجنسی کے تحت جاری منصوبوں کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے اور سال 2022ء سے 2024ء تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کے تحت مکمل کئے جانے والے منصوبوں کے بقایا جات کی ادائیگی اور تباہ ہونے والے مکانات کے معاوضوں کی ادائیگی مساوی بنیاد پر کرنے کے احکامات دیئے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ انجینئر محمد اسماعیل، ممبر گلگت  بلتستان اسمبلی جمیل احمد، معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ محمد علی قائد، معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ حسین شاہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت  بلتستان، چیئرمین سی ایم آئی ٹی، ڈپٹی کمشنر غذر، صدر اسماعیلی نیشنل کونسل برائے پاکستان سمیت جی بی ڈی ایم اے، محکمہ داخلہ، محکمہ خزانہ، محکمہ مواصلات و تعمیرات عامہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کے منصوبوں کی فراہمی وزیر اعلی

پڑھیں:

گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں، حفیظ الرحمن

ایک انٹرویو میں سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ گلبر سرکار غیر فطری تھی، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے رکن اسمبلی کو وزارت اعلی کا منصب دیا گیا ہو، وزارتِ اسی رکن اسمبلی کو ملتی ہے جس کی پارٹی ہوتی ہے، بغیر پارٹی والے کو وزارت اعلی کا منصب دینے کی روایت ہمارے ہاں دیکھی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ گروپ ٹھیکوں اور نوکریوں کے حصول کیلئے بنایا گیا ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہو، یہ روایت ہم نے صرف گلگت بلتستان میں دیکھی ہے۔ مقامی روزنامے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں جماعتی الائنس کبھی کامیاب نہیں رہا ہے، ڈیلیوری کیلئے سنگل پارٹی کو اکثریت ملنی چاہیئے، مسلم لیگ نون اپنی بساط کے مطابق الیکشن میں حصہ لے گی کسی جماعت کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد ہو گا اور نہ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ، تاہم انتخابات کے بعد ضرورت محسوس ہوئی تو کسی ہم خیال جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے، ہماری پارٹی آئندہ الیکشن میں اکثریت لینے میں کامیاب ہو گی، ہماری تیاری مکمل ہے، تیاریاں ہم نے ڈھنڈورے پیٹ کر نہیں کیں ہم اپنی جماعت کے منشور کی بنیاد پر الیکشن میں جائیں گے۔

 ان کا کہنا تھا مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت ملے، مخلوط حکومت ڈیلور نہیں کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی تمام خرابیوں اور خامیوں کی ذمہ دار پیپلز پارٹی بھی ہے، گورنر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، وزیراعلی حاجی گلبرخان ہر فیصلے میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد ایڈووکیٹ اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے مشاورت بھی کرتے ہیں، حکومت کے ہر فیصلے میں پیپلز پارٹی شامل ہے، لہذا مسائل کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی ہے، حکومت کی خرابیوں، خامیوں اور ناکامیوں کا بوجھ پیپلز پارٹی کو اٹھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہو گی کہ خطے میں صاف ستھری نگراں حکومت قائم ہو کیونکہ اگر نگراں حکومت داغدار ہوئی تو پورے انتخابات متنازعہ ہونگے اور انتخابی عمل پر انگلیاں اٹھیں گی، ہم چاہتے ہیں کہ کسی سیاسی مذہبی جماعت کے بندے کو نگراں حکومت کا حصہ نہ بنایا جائے، حکومت میں ایسے لوگ شامل کئے جائیں جو سیاسی انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں، سیاسی لوگ ضرور شامل ہو مگر تعلق کسی جماعت سے نہ ہو۔

حفیظ الرحمن نے کہا کہ نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے نام وزیراعلی اور اپوزیشن لیڈر نے دینے ہیں، کچھ نام وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے دینے ہیں، وفاقی وزیر جب وہ نام ہم سے مانگیں گے تو ہم دیں گے، ہماری خواہش ہے کہ حکومت سب کیلئے قابل قبول ہو تاکہ انتخابی عمل صاف شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے نمٹایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ گروپ محض ٹھیکوں اور نوکریوں کے حصول کیلئے بنایا گیا ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے،  ہم چیلنج کرتے ہیں کہ گلبر خان 26 نومبر کے بعد اپنی جماعت بناکر دکھائیں، جماعت بنانا کوئی آسان کام تھوڑا ہے، اس کیلئے وسائل چاہیئں ہوتے ہیں قابلیت درکار ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والی منتخب حکومت موجودہ حکومت سے کئی گنا بہتر ہو گی، یہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ الیکشن میں 99 فیصد لوگ نئے منتخب ہو کر آتے ہیں جو اسمبلی میں رہے ہوں ان کا انتخاب کم سے کم کیا جاتا ہے، لوگوں میں نئے امیدواروں کے انتخاب کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، موجودہ حکومت میں شامل بہت سارے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں، ان میں سے بہت ساروں کو جواب ہی نہیں دیا تاہم کچھ کو انگیج رکھا ہوا ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ حکومت میں شامل بہت سارے لوگ الیکشن ہار جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گلبر سرکار غیر فطری تھی، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے رکن اسمبلی کو وزارت اعلی کا منصب دیا گیا ہو، وزارتِ اسی رکن اسمبلی کو ملتی ہے جس کی پارٹی ہوتی ہے، بغیر پارٹی والے کو وزارت اعلی کا منصب دینے کی روایت ہمارے ہاں دیکھی گئی ہے، یہ سب کچھ خالد خورشید کی ضد، آنا اور عمران خان سے بے جا عشق کی وجہ سے ہوا ہے، مگر ہمارے لوگوں کا حافظہ بہت کمزور ہے، وہ چیزیں جلدی بھول جاتے ہیں اور آج کے واقعے کو آج کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جاتے جاتے چودہ (14) نئی تحصیلوں کی منظوری دی ہے ہمارا سوال ہے کہ حکومت نے تحصیلیں پہلے کیوں نہیں بنائیں، ابھی اس لئے نئی تحصیلوں کی منظوری دے رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو مشکلات پیدا کی جائیں، اگر نیت ٹھیک ہوتی تو حکومت پہلے ہی تحصیلیں بنا لیتی، انہوں نے کہا کہ 7 اور 8 نومبر کو لندن میں ورلڈ ٹورزم کانفرنس ہو رہی ہے، اس میں وزیراعلی اور ان کے ساتھیوں شرکت کرنی ہے وہاں جانے کیلئے پانچ کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی ہے، بتاؤ پانچ کروڑ روپے خرچ کرکے وزیراعلی اور وزراء نے لندن جاکر کیا تیر مارنا ہے ؟ حکومت کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہمارے مسائل روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، وفاق اگر 100 روپے دیتا ہے تو حکومت یہاں 150 روپے اپنی عیاشیوں پر اڑاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی ہند وفد کا بریلی کے بلڈوزر متاثرہ علاقوں کا دورہ، زمینی حالات کا جائزہ لیا گیا
  • سیلاب متاثرین کے لیے اربوں کے فنڈز جاری
  • ایم این اے حمید حسین کا سنٹرل کرم آپریشن سے متاثرہ خاندانوں کے لیے قائم کیمپ کا دورہ
  • وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے دورہ لندن کیلئے 6 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز کی درخواست
  • معاشی طور پر کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنا اولین ترجیح ہے،بلال اظہر
  • گلگت، متاثرین دیامر ڈیم کی آبادکاری کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس
  • ہم کشمیری عوام کے ساتھ آخری دم تک کھڑے ہیں، وزیر اعلیٰ جی بی
  • پنجاب سوشل سیکیورٹی کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے 15 امدادی ٹرک روانہ
  • گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں، حفیظ الرحمن