UrduPoint:
2025-08-16@02:05:09 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) جب جرمن شہری ووٹ دینے کے لیے اپنے طے شدہ پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے ہیں، جو اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، تو انہیں پولنگ عملے کی طرف سے جو بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے اس پر انہوں دو ووٹ دینا ہوتے ہیں۔ ایک اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کے لیے اور دوسرا پارٹی کی ریاستی نمائندگی کے لیے، جس میں عام طور پر 10 سے 30 امیدواروں کی فہرست ہوتی ہے۔

اس نظام کو اکثر ذاتی متناسب نمائندگی یا 'پرسنل پروپورشنل ری پریزنٹیشن‘ کہا جاتا ہے۔ ووٹ دینے کے لیے دو خانے

پہلا ووٹ، متعلقہ انتخابی حلقے میں براہ راست امیدوار منتخب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ووٹ پارلیمنٹ کی کل ساخت کے نصف کا تعین کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارلیمان میں ہر ضلع کی نمائندگی ہو۔

(جاری ہے)

دوسرا ووٹ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا 'بنڈس ٹاگ‘ میں پارٹیوں کی طاقت کا تعین کرتا ہے۔

یہ ووٹ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس جماعت کی ریاست کی فہرست میں سے کتنے امیدواروں کو بنڈس ٹاگ میں نشستیں دی جائیں گی۔

2025 سے پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 630 نشستوں تک محدود کر دی جائے گی۔ 2024 میں انتخابی نظام میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں، جس میں ان شقوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جن کی وجہ سے پارٹیوں کے سائز میں کمی کے ساتھ قانون سازوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔

ان اصلاحات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جزوی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔

جرمنی کی کُل 83 ملین آبادی میں سے تقریباﹰ 61 ملین ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یعنی یہ ووٹر جرمن شہریت رکھتے ہیں اور 18 سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں۔ ایسے جرمن شہری، جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران کم از کم تین ماہ مسلسل جرمنی میں رہے ہوں۔

جرمنی کے فیڈرل ریٹرننگ آفیسر کی ویب سائٹ نے سفارت خانوں یا قونصل خانوں کو بیلٹ بکس رکھنے سے منع تو نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ اس کے لیے 'غیر متناسب کوششیں‘ درکار ہوں گی۔

ایک عدالت ان افراد کے لیے ووٹ کا حق منسوخ کر سکتی ہے، جنہوں نے کچھ سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے جاسوسی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنا۔ اس کے علاوہ کسی اور مجرم کے ووٹ کے حق کو منسوخ نہیں کیا جاتا، قتل اور بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم جیسے معاملات کی صورت میں بھی نہیں۔

یہی اصول ان امیدواروں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جنہیں ان کی متعلقہ جماعتوں نے شارٹ لسٹ کیا ہو۔

جرمنی میں نصف سے کچھ زیادہ رائے دہندگان خواتین ہیں، جن میں سے تقریباﹰ 40 فیصد 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور 14 فیصد 30 سال سے کم عمر کی ہیں۔

جرمنی میں ووٹر ٹرن آؤٹ کافی زیادہ رہتا ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں یہ شرح 76 فیصد سے کچھ اوپر ہی رہی۔

پانچ فیصد کی حد کیا ہے؟

جرمنی کے انتخابات سے متعلق قانون کے تحت، کسی بھی پارٹی کے لیے پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹیوں کی نمائندگی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا کم از کم پانچ فیصد حاصل کریں۔

یہ شق سب سے پہلے 1953 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس کا مقصد چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور جمہوری عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے روکنا تھا۔

تاہم، ان جماعتوں کو اس سے استثنیٰ مل جاتا ہے، جن کے امیدوار کم از کم تین انتخابی اضلاع میں کامیاب ہوئے ہوں۔ مثال کے طور پر، 2021 میں، اس کا اطلاق ’دی لِنکے‘ یعنی لیفٹ پارٹی پر ہوا، جس نے پارٹی ووٹوں کا صرف 4.

9 فیصد حاصل کیا، لیکن اس جماعت کے تین امیدواروں نے اپنے حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے اسے 733 ارکان پر مشتمل پارلیمان میں 4.9 فیصد نشستیں بھرنے کے لیے 28 قانون سازوں کو بھیجنے کی اجازت دی گئی۔

حکومت کی تشکیل اور چانسلر کا انتخاب

اگر کوئی پارٹی 50 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر ایسا امکان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے، جرمنی میں جماعتوں کو عام طور پر ایک یا ایک سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بنڈس ٹاگ میں ایک مؤثر اور مضبوط حکومت تشکیل پا سکے۔

روایتی طور پر، سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا امیدوار چانسلر بن جاتا ہے اور جونیئر اتحادی پارٹنر کے سرکردہ امیدوار کو اکثر وزیر خارجہ کی ذمہ داری ملتی ہے۔ چانسلر وزراء کے نام اور ان کے قلمدان صدر کو پیش کرتا ہے، جو حکومت کے ارکان کا تقرر کرتا ہے۔

کوئی بھی جرمن شہری، جس کی عمر کم از کم 18 سال ہو، وہ چانسلر بن سکتا ہے۔

اس کے لیے بنڈس ٹاگ میں نشست کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اسے قانون سازوں کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمن آئین کے مطابق نئی منتخب شدہ پارلیمان کا پہلا اجلاس انتخابات کے بعد 30 دن کے اندر ہونا ضروری ہے۔

صدر چانسلر کے امیدوار کے نام کی باضابطہ طور پر تجویز پیش کرتا ہے، جسے پھر ووٹوں کی مطلق اکثریت یعنی 50 فیصد سے زائد حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر امیدوار ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بنڈس ٹاگ کے ارکان کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اسے 15 دن کے اندر ووٹنگ کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پھر، مطلق اکثریت کی ضرورت ہے۔

اگر ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں بھی کوئی امیدوار مکمل اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو، فوری طور پر حتمی بیلٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جو بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ سادہ اکثریت سے منتخب ہوتا ہے۔

اگر چانسلر مکمل اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو صدر کو سات دن کے اندر اس کا تقرر کرنا ہو گا۔ اگر منتخب شخص تیسرے مرحلے میں صرف سادہ اکثریت حاصل کرتا ہے تو صدر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو سات دن کے اندر اسے چانسلر مقرر کر دے یا پھر بنڈس ٹاگ کو تحلیل کر دے، جس سے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔

انتخابی نتائج پر اعتراض

جرمنی کے الیکشن ریویو کے قانون کے مطابق، جرمنی میں ووٹ ڈالنے کا اہل کوئی بھی فرد انتخابات کی درستی پر سوال اٹھا سکتا ہے اور یہی کام ووٹ ڈالنے کے اہل افراد پر مشتمل گروپ بھی کر سکتے ہیں۔

ہر عام انتخابات کے بعد نتائج چیلنج کرنے کے سینکڑوں معاملات سامنے آتے ہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے دن کے دو ماہ کے اندر برلن میں بنڈس ٹاگ کے الیکشن ریویو کمیشن میں تحریری طور پر اعتراضات جمع کرائے جائیں۔

الیکشن ریویو کمیشن تمام درخواستوں پر کارروائی کرتا ہے۔ ہر انفرادی چیلنج پر ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہر اعتراض کنندہ کو بنڈس ٹاگ سے تحریری طور جواب دیا جاتا ہے۔

بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے، اٹھائے گئے اعتراض کو دو شرائط کو پورا اترنا چاہیے، پہلی یہ کہ ایسی انتخابی غلطی جو فیڈرل الیکشن ایکٹ، فیڈرل الیکشن کوڈ یا آئین کی خلاف ورزی کرتی ہو، اور دوسری یہ ہے کہ مبینہ انتخابی غلطی کا اثر بنڈس ٹاگ میں نشستوں کی تقسیم پر پڑے۔

کمیشن کو تمام اپیلوں پر کارروائی کرنے کے لیے تقریباﹰ ایک سال درکار ہوتا ہے۔ عام طور پر ان میں سے چار فیصد سے بھی کم مقدمات آئینی عدالت تک پہنچتے ہیں۔ جرمن میں قومی انتخابات کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے۔

عام حالات میں، انتخابات چار سال بعد دوبارہ ہوتے ہیں اور پھر سے یہ سارا عمل دہرایا جاتا ہے۔

ا ب ا/ا ا (ڈی ڈبلیو)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پارلیمان میں بنڈس ٹاگ میں انتخابات کے دن کے اندر اس کے لیے ضروری ہے سکتے ہیں ووٹ حاصل کی ضرورت سے زیادہ ہے کہ وہ ہوتا ہے جاتا ہے کرتا ہے ہیں اور اور اس

پڑھیں:

آزادی کا اعلان 15 اگست کو ہوا لیکن پاکستان میں یوم آزادی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟

اسلام آباد(ویب ڈیسک )پاکستان کی تاریخ میں ایک دلچسپ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ جب برصغیر کی آزادی کا سرکاری اعلان 15 اگست 1947 کو ہوا تھا تو پاکستان میں یومِ آزادی ایک دن پہلے، یعنی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟

سینئر صحافی حامد میر نے اس حوالے سے تاریخی ریکارڈ اور مستند شواہد کی بنیاد پر وضاحت دی ہے۔ ان کے مطابق *انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ 1947* میں صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایک ہی دن، یعنی 15 اگست کو وجود میں آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹ پر بھی “یومِ آزادی: 15 اگست” درج تھا۔

لیکن یہ تاریخ بعد میں تبدیل ہو گئی۔ جون 1948 میں وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منایا جائے گا۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1947 میں اقتدار کی منتقلی (Transfer of Power) کراچی میں 14 اگست کو ہو گئی تھی، جبکہ بھارت میں یہی عمل 15 اگست کو مکمل ہوا۔

مزید یہ کہ اس وقت پاکستان کا وقت بھارت سے آدھا گھنٹہ پیچھے تھا۔ اس لیے جب دہلی میں 15 اگست کی رات بارہ بجے آزادی کا اعلان ہوا، پاکستان میں گھڑیاں ساڑھے گیارہ بجا رہی تھیں — یعنی پاکستان میں اس وقت ابھی 14 اگست تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان عملی طور پر 14 اگست کو ہی آزاد ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں لکھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت کا یومِ آزادی 15 اگست اس لیے رکھا کیونکہ یہ دن جاپان کی دوسری جنگِ عظیم میں ہتھیار ڈالنے کی یاد سے جڑا تھا۔ جسونت سنگھ کے مطابق اس تاریخ کا بھارت کی آزادی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا، اور یہ فیصلہ خود ماؤنٹ بیٹن کے لیے زیادہ معنی رکھتا تھا۔

آج بھی بھارت اپنا یومِ آزادی 15 اگست کو مناتا ہے، لیکن پاکستان 14 اگست کو، کیونکہ ہماری تاریخ اور گھڑی دونوں اس دن کی گواہی دیتی ہیں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
  • کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر حاصل ملک کا نظام قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے: علامہ راغب نعیمی
  • جانیے کہ جوہری ٹیکنالوجی ماہی گیری کے فراڈ کو کیسے روک سکتی ہے
  • سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد دینے والے شہر قائد پر پیسہ نہیں لگایا جاتا، خالد مقبول
  • کراچی بورڈ کا دہم جماعت سائنس گروپ کے نتائج کا اعلان، پہلی 2 پوزیشنوں پر طالبات براجمان
  • کراچی: دہم جماعت سائنس گروپ کے نتائج کا اعلان، اپنا نتیجہ دیکھیے
  • راہول گاندھی کی ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ مہم، بھارت میں انتخابی شفافیت پر سنگین سوالات
  • راہول گاندھی کی ’ووٹ چور؛ گدی چھوڑ‘ مہم، بھارت کا انتخابی بحران بے نقاب
  • دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو پاکستان کی ’شعلے‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
  • آزادی کا اعلان 15 اگست کو ہوا لیکن پاکستان میں یوم آزادی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟