UrduPoint:
2025-11-22@17:08:27 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) جب جرمن شہری ووٹ دینے کے لیے اپنے طے شدہ پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے ہیں، جو اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، تو انہیں پولنگ عملے کی طرف سے جو بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے اس پر انہوں دو ووٹ دینا ہوتے ہیں۔ ایک اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کے لیے اور دوسرا پارٹی کی ریاستی نمائندگی کے لیے، جس میں عام طور پر 10 سے 30 امیدواروں کی فہرست ہوتی ہے۔

اس نظام کو اکثر ذاتی متناسب نمائندگی یا 'پرسنل پروپورشنل ری پریزنٹیشن‘ کہا جاتا ہے۔ ووٹ دینے کے لیے دو خانے

پہلا ووٹ، متعلقہ انتخابی حلقے میں براہ راست امیدوار منتخب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ووٹ پارلیمنٹ کی کل ساخت کے نصف کا تعین کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارلیمان میں ہر ضلع کی نمائندگی ہو۔

(جاری ہے)

دوسرا ووٹ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا 'بنڈس ٹاگ‘ میں پارٹیوں کی طاقت کا تعین کرتا ہے۔

یہ ووٹ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس جماعت کی ریاست کی فہرست میں سے کتنے امیدواروں کو بنڈس ٹاگ میں نشستیں دی جائیں گی۔

2025 سے پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 630 نشستوں تک محدود کر دی جائے گی۔ 2024 میں انتخابی نظام میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں، جس میں ان شقوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جن کی وجہ سے پارٹیوں کے سائز میں کمی کے ساتھ قانون سازوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔

ان اصلاحات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جزوی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔

جرمنی کی کُل 83 ملین آبادی میں سے تقریباﹰ 61 ملین ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یعنی یہ ووٹر جرمن شہریت رکھتے ہیں اور 18 سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں۔ ایسے جرمن شہری، جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران کم از کم تین ماہ مسلسل جرمنی میں رہے ہوں۔

جرمنی کے فیڈرل ریٹرننگ آفیسر کی ویب سائٹ نے سفارت خانوں یا قونصل خانوں کو بیلٹ بکس رکھنے سے منع تو نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ اس کے لیے 'غیر متناسب کوششیں‘ درکار ہوں گی۔

ایک عدالت ان افراد کے لیے ووٹ کا حق منسوخ کر سکتی ہے، جنہوں نے کچھ سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے جاسوسی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنا۔ اس کے علاوہ کسی اور مجرم کے ووٹ کے حق کو منسوخ نہیں کیا جاتا، قتل اور بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم جیسے معاملات کی صورت میں بھی نہیں۔

یہی اصول ان امیدواروں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جنہیں ان کی متعلقہ جماعتوں نے شارٹ لسٹ کیا ہو۔

جرمنی میں نصف سے کچھ زیادہ رائے دہندگان خواتین ہیں، جن میں سے تقریباﹰ 40 فیصد 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور 14 فیصد 30 سال سے کم عمر کی ہیں۔

جرمنی میں ووٹر ٹرن آؤٹ کافی زیادہ رہتا ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں یہ شرح 76 فیصد سے کچھ اوپر ہی رہی۔

پانچ فیصد کی حد کیا ہے؟

جرمنی کے انتخابات سے متعلق قانون کے تحت، کسی بھی پارٹی کے لیے پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹیوں کی نمائندگی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا کم از کم پانچ فیصد حاصل کریں۔

یہ شق سب سے پہلے 1953 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس کا مقصد چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور جمہوری عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے روکنا تھا۔

تاہم، ان جماعتوں کو اس سے استثنیٰ مل جاتا ہے، جن کے امیدوار کم از کم تین انتخابی اضلاع میں کامیاب ہوئے ہوں۔ مثال کے طور پر، 2021 میں، اس کا اطلاق ’دی لِنکے‘ یعنی لیفٹ پارٹی پر ہوا، جس نے پارٹی ووٹوں کا صرف 4.

9 فیصد حاصل کیا، لیکن اس جماعت کے تین امیدواروں نے اپنے حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے اسے 733 ارکان پر مشتمل پارلیمان میں 4.9 فیصد نشستیں بھرنے کے لیے 28 قانون سازوں کو بھیجنے کی اجازت دی گئی۔

حکومت کی تشکیل اور چانسلر کا انتخاب

اگر کوئی پارٹی 50 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر ایسا امکان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے، جرمنی میں جماعتوں کو عام طور پر ایک یا ایک سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بنڈس ٹاگ میں ایک مؤثر اور مضبوط حکومت تشکیل پا سکے۔

روایتی طور پر، سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا امیدوار چانسلر بن جاتا ہے اور جونیئر اتحادی پارٹنر کے سرکردہ امیدوار کو اکثر وزیر خارجہ کی ذمہ داری ملتی ہے۔ چانسلر وزراء کے نام اور ان کے قلمدان صدر کو پیش کرتا ہے، جو حکومت کے ارکان کا تقرر کرتا ہے۔

کوئی بھی جرمن شہری، جس کی عمر کم از کم 18 سال ہو، وہ چانسلر بن سکتا ہے۔

اس کے لیے بنڈس ٹاگ میں نشست کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اسے قانون سازوں کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمن آئین کے مطابق نئی منتخب شدہ پارلیمان کا پہلا اجلاس انتخابات کے بعد 30 دن کے اندر ہونا ضروری ہے۔

صدر چانسلر کے امیدوار کے نام کی باضابطہ طور پر تجویز پیش کرتا ہے، جسے پھر ووٹوں کی مطلق اکثریت یعنی 50 فیصد سے زائد حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر امیدوار ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بنڈس ٹاگ کے ارکان کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اسے 15 دن کے اندر ووٹنگ کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پھر، مطلق اکثریت کی ضرورت ہے۔

اگر ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں بھی کوئی امیدوار مکمل اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو، فوری طور پر حتمی بیلٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جو بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ سادہ اکثریت سے منتخب ہوتا ہے۔

اگر چانسلر مکمل اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو صدر کو سات دن کے اندر اس کا تقرر کرنا ہو گا۔ اگر منتخب شخص تیسرے مرحلے میں صرف سادہ اکثریت حاصل کرتا ہے تو صدر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو سات دن کے اندر اسے چانسلر مقرر کر دے یا پھر بنڈس ٹاگ کو تحلیل کر دے، جس سے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔

انتخابی نتائج پر اعتراض

جرمنی کے الیکشن ریویو کے قانون کے مطابق، جرمنی میں ووٹ ڈالنے کا اہل کوئی بھی فرد انتخابات کی درستی پر سوال اٹھا سکتا ہے اور یہی کام ووٹ ڈالنے کے اہل افراد پر مشتمل گروپ بھی کر سکتے ہیں۔

ہر عام انتخابات کے بعد نتائج چیلنج کرنے کے سینکڑوں معاملات سامنے آتے ہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے دن کے دو ماہ کے اندر برلن میں بنڈس ٹاگ کے الیکشن ریویو کمیشن میں تحریری طور پر اعتراضات جمع کرائے جائیں۔

الیکشن ریویو کمیشن تمام درخواستوں پر کارروائی کرتا ہے۔ ہر انفرادی چیلنج پر ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہر اعتراض کنندہ کو بنڈس ٹاگ سے تحریری طور جواب دیا جاتا ہے۔

بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے، اٹھائے گئے اعتراض کو دو شرائط کو پورا اترنا چاہیے، پہلی یہ کہ ایسی انتخابی غلطی جو فیڈرل الیکشن ایکٹ، فیڈرل الیکشن کوڈ یا آئین کی خلاف ورزی کرتی ہو، اور دوسری یہ ہے کہ مبینہ انتخابی غلطی کا اثر بنڈس ٹاگ میں نشستوں کی تقسیم پر پڑے۔

کمیشن کو تمام اپیلوں پر کارروائی کرنے کے لیے تقریباﹰ ایک سال درکار ہوتا ہے۔ عام طور پر ان میں سے چار فیصد سے بھی کم مقدمات آئینی عدالت تک پہنچتے ہیں۔ جرمن میں قومی انتخابات کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے۔

عام حالات میں، انتخابات چار سال بعد دوبارہ ہوتے ہیں اور پھر سے یہ سارا عمل دہرایا جاتا ہے۔

ا ب ا/ا ا (ڈی ڈبلیو)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پارلیمان میں بنڈس ٹاگ میں انتخابات کے دن کے اندر اس کے لیے ضروری ہے سکتے ہیں ووٹ حاصل کی ضرورت سے زیادہ ہے کہ وہ ہوتا ہے جاتا ہے کرتا ہے ہیں اور اور اس

پڑھیں:

نیا لیبر لاء مزدوروں کے بنیادی مطالبات کو نظرانداز کرتا ہے، کانگریس

جے رام رمیش نے کانگریس پارٹی کے شرمک نیا پلیٹ فارم کا حوالہ دیا، جس میں کارکنوں کیلئے انصاف کی پانچ ضمانتیں دی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ نئے ضابطے ان وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ہفتہ کو نئے لاگو کردہ لیبر کوڈ کی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ محض 29 موجودہ قوانین کو دوبارہ متعارف کراتے ہیں اور مزدوروں کے بنیادی مطالبات کو پورا نہیں کرتے، جیسے کہ قومی کم از کم اجرت 400 روپئے یومیہ اور شہری علاقوں کے لئے روزگار کی ضمانت۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان کوڈز میں مکمل طور پر مطلع شدہ قواعد کی کمی ہے، جو ان کے مکمل نفاذ کو روکتے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ ایک بڑی اصلاحات کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے لیبر فریم ورک میں 21 نومبر کو آزادی کے بعد سب سے بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی، جب حکومت نے چار لیبر کوڈز کو نافذ کیا۔

اجرتوں، صنعتی تعلقات، سماجی تحفظ، اور پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کا احاطہ کرنے والے یہ کوڈز 29 فرسودہ قوانین کی جگہ لے کر ایک مضبوط قانون سازی کا ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں جس کا مقصد لیبر ریگولیشن کو جدید بنانا ہے، جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیا فریم ورک تعمیل کو آسان بناتا ہے اور کاروبار کو بہتر بناتا ہے، ٹریڈ یونینز کارکنوں کی حفاظت کے ممکنہ کمزور ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں جے رام رمیش نے کہا کہ 29 موجودہ اجرت کے قوانین کو چار ضابطوں میں دوبارہ پیک کیا گیا ہے۔ اسے ایک انقلابی اصلاحات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، حالانکہ قواعد ابھی تک مطلع نہیں کئے گئے ہیں لیکن کیا یہ ضابطے ہندوستان کے مزدوروں کے لئے انصاف کے لئے ان پانچ ضروری مطالبات کو صحیح معنوں میں پورا کریں گے۔

جے رام رمیش نے کانگریس پارٹی کے شرمک نیا پلیٹ فارم کا حوالہ دیا، جس میں کارکنوں کے لئے انصاف کی پانچ ضمانتیں دی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ نئے ضابطے ان وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے کانگریس کے زیر اقتدار کرناٹک میں 2025ء میں نافذ کئے گئے گیگ ورکر ویلفیئر قوانین اور 2023ء میں راجستھان میں متعارف کرائے گئے پہلے فریم ورک کو مزید آگے کی سوچ، ورکرز پر مبنی اصلاحات کی مثالوں کے طور پر اجاگر کیا جسے مرکزی حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت کو کرناٹک میں کانگریس حکومت اور راجستھان میں پچھلی حکومت کی مثالوں سے سبق سیکھنا چاہیئے، جس نے نئے ضابطوں سے پہلے اپنے مضبوط ٹمٹم ورکر قوانین کے ساتھ 21ویں صدی کے مزدور اصلاحات متعارف کروائے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • نیا لیبر لاء مزدوروں کے بنیادی مطالبات کو نظرانداز کرتا ہے، کانگریس
  • پاکستان اور جرمنی کا مختلف شعبوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق  
  • دنیا کے سرد ترین قصبے میں درجہ حرارت منفی 42 تک جا پہنچا
  • پاکستان اور جرمنی کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • پاکستان اور جرمنی کا مختلف شعبوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • اگر حسینہ کی سزا پر عمل در آمد ہو جاتا ہے تو…
  • پی ایس ایل میں نئی ٹیموں کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا، پی سی بی نے واضح کردیا
  • میرے آنے کے بعد ایک بھی سفارشی پوسٹنگ ثابت کرکے دکھائیں، چیئرمین ایف بی آر
  • کیا تنخواہ دار طبقہ مجموعی ٹیکس وصولیوں کا صرف 4 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے؟
  • خواتین کے موبائل فونز ہیک کر بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار