ریڈ لائن منصوبہ سندھ حکومت کی نااہلی کی نذر، 79ارب کا منصوبہ 139ارب تک پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ایشیائی ترقیاتی بینک اور محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے تحت2021ء میںشروع کیے جانے والا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبہ ساڑھے 3 سال گزرنے کے باوجود تا حال نامکمل ہے، ملیر ہالٹ، ماڈل کالونی سے براستہ ائرپورٹ، صفورہ چورنگی، موسمیات، یونیورسٹی روڈ سے نمائش چورنگی تک بننے والے اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ79 ارب روپے تھا جو موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 139 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس منصوبے پرریڈ لائن میٹرو چلنی ہے، 26 کلو میٹر طویل بی آر ٹی میں24 بس اسٹیشنز بنانے اور213 بسیں چلانے کا دعوی کیا گیا ہے تاہم ریڈ لائن منصوبے کا اب تک40 فیصد کا م بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے، اس منصوبے کا کام کی سست روی کے باعث شہری منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور ہیں‘ یونیورسٹی روڈ پر کراچی کی3 سرکاری جامعات ہے، جس میں کراچی بھر سے بڑی تعداد میں طلبہ علم حاصل کرنے آتے ہیں، جبکہ گلشن اقبال، گلستان جوہر اور اسکیم33 میں کے مکینوں کا گزر بھی اسی سڑک سے ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں روزانہ سفر کرتے ہیں۔ کراچی کے انفر ا اسٹرکچر کو بہتر طور پر جاننے والے ڈیموگرافر اور اربن پلانر عارف حسن کا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کے بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ میں پلاننگ کا شدید فقدان نظر آتا ہے ان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ نہیں دے سکیں گی اس کی جگہ ہر روٹ پر بڑی بسوں کو لا کر شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکتی تھی، ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں بسیں ہونی چاہییں‘ بسوں کے بہت فوائد ہیں جو بی آر ٹی کے نہیں ہیں‘ بسیں ہر جگہ جا سکتی ہے بی آر ٹی کہ مخصوص لین ہے اور وہ وہیں چل سکتی ہے یہ منصوبہ ایک جا پانی ماسٹر پلان کا حصہ ہے جس کے تحت یہ بنائی گئی ہے اور یہ بہت مہنگا ماسٹر پلان ہے ہم کس طرح سے اس کے قرضے واپس کریں گے ہمیں نہیں پتا‘ بسیں سستی بھی ہوتی ہے بڑے اور لمبے روٹس پر بھی چل سکتی ہیں اور آسانی سے ان میں اضافہ بھی ہوتا جاتا ہے اس میں نئے روٹس کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، عارف حسن نے مزید کہاکہ سندھ حکومت کی ترجیح عوام نہیں ہے تبھی اس پروجیکٹ کو اب تک مکمل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ جو ریڈ لائن ہے یہ ساری کی ساری اپ گریڈ ہونی تھی مگر کچھ حصے اس کے اپ گریڈ نہیں ہیں یہ بھی غلط ہے جو کہا گیا تھا کہ اپ گریڈ ہوگی اس کا ایک پروپوزل بھی بنایا گیا تھا کہ اس میں27 اور لائنیں شامل کریں گے لیکن تاحال اب تک اس میں ایک لائن بھی شامل نہیں کی جاسکی ہے اور جو وعدہ کیا گیا تھا ان کو پورا بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔2001 سے 2005 تک شہری حکومت میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ رہنے والے قاضی صدر الدین نے کہا ہے کہ ریڈ لائن منصوبہ اس وقت شہریوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے ریڈ لائن منصوبے سے ارد گرد کے رہنے والوں کو نہ صرف شدید پریشانی ہے بلکہ یہ کراچی کی ایک مین سڑک جس پر تین سے چار یونیورسٹیاں واقعہ ہے جس میں بڑی تعداد میں طلبہ و طالباتسفر کرتے ہیں اور ان کی کیا حالت ہوتی ہے جب وہ اپنے تعلیمی ادارے میں جاتے ہیں یا جب وہاں سے وہ واپس گھر اتے ہیں تو اصل میں ویژن کی کمی ہے اور کوئی ایسی سوچ نہیں ہے کوئی ایسی پلاننگ نہیں ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کو سہولت دی جائے اس پروجیکٹ کی تعمیر کا بڑا حصہ گلشن اقبال میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک بی آر ٹی گرین لائن کا منصوبہ بھی نامکمل ہے اس ٹریک پر اب بھی ٹریفک کے مسائل موجود ہیں جبکہ اسی دوران خطیر رقم سے بی آر ٹی ریڈ لائن کی تعمیر شروع کر دی گئی اور لوگوں کو متبادل راستہ فراہم نہیں کیا گیا ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر یہ پروجیکٹ بنایا جا رہا ہے جو کہ کسی صورت کراچی کے شہریوں کو سفری سہولت فراہم نہیں کرسکے گا ہے۔ گلشن ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد کا کہنا ہے کہ ریڈ لائن منصوبے سے گلشن اقبال کی رہائشی بالخصوص اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مین یونیورسٹی روڈ اس وقت ایک پتلی گلی میں تبدیل ہوگئی ہے تعمیرات کے دوران کئی دفعہ پانی کی لائنیں بھی خراب ہوئی جس کے سبب رہائشی کئی دنوں تک پانی کی فراہمی سے محروم رہے جو بی آر ٹی ا ریڈ لائن جس کو ہم کہتے ہیں یونیورسٹی روڈ سے گزر رہی ہے یہ عوام کے لیے عملاً اذیت کا باعث بن چکی ہے اور خاص طور سے گلشن ٹاؤن کے رہنے والے تو مستقل ایک اذیت کا شکار ہیں کہ اس کی تعمیر کے دوران اب تو شاید گنتی بھی یاد نہیں ہوگی کہ کتنی بار سیوریج کی لائنیں ٹوٹی ہیں کتنی دفعہ پینے کے پانی کی لائنیں ٹوٹی ہیں یونیورسٹی روڈ پر کراچی یونیورسٹی این ای ڈی اردو یونیورسٹی سر سید یونیورسٹی ایک لائن ہے جامعات کی ہے اس سے گلشن ٹاؤن کے بچے متاثر ہورہے ہیں، اپنی یونیورسٹی میںان کلاسیں تاخیر ہو جاتی ہیں بچے امتحان میں لیٹ ہو جاتے ہیں گھر پہنچنے میں لوگوں کو تاخیر ہو رہی ہے پھر روڈ پر ٹریفک جام کی وجہ سے جو اذیت ہے وہ ایک الگ ہے اور اس کے علاوہ پھر جب یہ یوٹیلٹیز تباہ ہو رہی ہیں تو اس کے نتیجے میں جو پریشانی اور تکلیف سے عوام گزر رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریڈ لائن منصوبے یونیورسٹی روڈ بی ا ر ٹی کہنا ہے کا کہنا کیا گیا نہیں کی ہے اور
پڑھیں:
سندھ حکومت تعلیم میں عالمی معیار لانے کیلئے پُرعزم ہے: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت تعلیم میں عالمی معیار لانے کیلئے پُرعزم ہے۔کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیچنگ لائسنس کا اجرا ایک تاریخی سنگِ میل ہے، سندھ کا تعلیمی مستقبل علم، اخلاق اور عمدگی پر استوار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اصلاحات کا مرکز و محور استاد ہیں، بغیر استاد کے کوئی تعلیمی اصلاح ممکن نہیں، لائسنسنگ سے اساتذہ کا وقار اور کارکردگی میں اضافہ ہوگا، سندھ حکومت کا تعلیم میں بین الاقوامی معیار قائم کرنے کا عزم ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ یہ آغاز ہے ہم معیاری تعلیم کی جانب بڑھ رہے ہیں، معیاری تعلیم کا آغاز معیاری اساتذہ سے ہوتا ہے، سندھ میں پہلی بار ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ کی تکمیل پر فخر ہے، ٹیچنگ لائسنس پالیسی دور اندیش اور جرات مندانہ قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی لائسنسنگ نظامِ تعلیم میں انقلابی قدم ہے، اساتذہ کی قابلیت اور جوابدہی اب یقینی بنائی جائے گی، سکول سے زیادہ ٹیچرز کی ضرورت ہے، روشنی دکھا کر لوگوں کو بیچ میں نہیں چھوڑ سکتے۔مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ تعلیم سکول سے پہلے گھر سے شروع ہوتی ہے، سب کو سکول میں پہلا دن یاد ہوتا ہے، 16 فیصد اساتذہ ٹیچنگ لائسنس میں پاس ہوئے ہیں، ہمیں سب جلد سے جلد کرنا ہے، آج سے 50 سال پہلے بہت سکول تھے، یہ نظام 40 سے 50 سال قبل خراب ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے پڑھائی ہوا کرتی تھی، ہم نے میرٹ پر بھرتیاں کی ہیں، یہ اساتذہ اب بچوں کو تیار کریں گے، سیاست کوئی پروفیشن نہیں اس لئے لائسنس نہیں لینا پڑتا، ہمیں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ قیادت سے کبھی ڈانٹ پڑی تو اس بات پر کہ کسی نے شکایت کی کہ ان کے علاقے میں کوئی کام نہیں ہوا، میں اپنے اساتذہ کی آج بھی بے حد عزت کرتا ہوں جتنی والدین کی کرتا ہوں، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شاگردوں کو کامیاب دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔