Jasarat News:
2025-04-26@19:38:27 GMT

عارضی جنگ بندی کا مستقبل!

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

عارضی جنگ بندی کا مستقبل!

گزشتہ ماہ قطر، امریکا اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ طے پایا تھا، جس کے نتیجے میں 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت تھم گئی تھی، حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ عارضی جنگ بندی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے، امریکا خود اس معاہدہ کو سبوتاژ کرنے پر تل گیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کے عوام ایک بار پھر نئی آزمائش سے دوچار ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی بار غزہ پر قبضے کا بیان دیا تو اس پراقوامِ متحدہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ سمیت پوری دنیا نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں اس غیر متوقع صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو وضاحت دینا پڑی کہ ٹرمپ نے محض غزہ میں تعمیر نو کی ذمے داری لینے کی پیشکش کی تھی، مگر کچھ ہی دنوں بعد ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کے بیانات دینا شروع کردیے، انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ امریکی ملکیت میں غزہ ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ ہوگی، حماس کو واپس نہیں آنے دیں گے، ریاست ہائے متحدہ امریکا غزہ کا مالک بننے جا رہا ہے، اگر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو ہفتے کے دن 12 بجے تک رہا نہ کیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی، اس جنگ بندی معاہدے کو منسوخ کرنے کا کہہ دوں گا اور پھر سب کچھ ختم ہوجائے گا، خود ٹرمپ کے بیان کی وضاحت کرنے والے مارکو روبیو بھی اب کہہ رہے ہیں کہ حماس کو غزہ پر حکمرانی اور اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب حماس نے اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر یرغمالیوں کی رہائی روک دی ہے، جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار ہے۔ حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 ہفتے کے دوران مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی متعدد خلاف ورزیوں کو نوٹ کیا جن میں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر کرنا اور ان پر بمباری کرنا بھی شامل تھا‘ متعدد علاقوں میں طے شدہ طریقے کے مطابق امداد بھی نہیں پہنچائی گئی جبکہ مزاحمتی گروہوں نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی۔ ان وجوہات کے باعث ہفتے کے روز یعنی 15 فروری کو اسرائیلی یرغمالیوں کی ہونے والی رہائی کو اگلے احکامات تک روک دیا گیا ہے۔ یہ رہائی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک اسرائیل معاہدے میں طے شدہ نکات پر عمل نہیں کرتا اور اس حوالے سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کرتا‘ جب تک اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل کرتا رہے گا تب تک وہ بھی معاہدے پر عمل درآمد کریں گے۔ اس صورتحال پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں، اس منصوبے پر بات چیت ناقابل قبول ہے، تباہ حال غزہ کے بارے میں امریکی صدر نے جو کچھ کہا ہے اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں ان کی زمین سے بیدخل کرسکے۔ بین الاقوامی امور پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تجویز ٹرمپ کی جنونی سوچ کی عکاس ہے، جس کا مقصد داخلی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، ان کی فطرت چھوٹے معاملات کے لیے بڑے اقدامات کرنے کی ہے اور وہ اپنے حامیوں کے لیے ڈرامائی اقدامات کرتے ہیں تاکہ میڈیا اور مخالفین کی توجہ ان کے حقیقی اقدامات سے ہٹ جائے۔ ان آراء کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کی دفاع اور سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، مغربی طاقتیں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اس کے وجود کو لاحق خطرات کو دور کرنے کے اقدامات بھی کرتی رہی ہیں اور مختلف ادوار میں اس کے لیے دنیا بھر میں جارحانہ سفارت کاری کو بھی بروئے کار لایا جاتا رہا ہے، کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسلم دنیا سے بھی اسے تسلیم کروایا جائے، اسی سلسلے میں انتہائی ہوشیاری اور چابک دستی سے 2020 میں ابراہام معاہدہ بھی کیا گیا، مگر 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے ذریعے حماس نے مغرب اور اسرائیل کے سارے منصوبے اور عزائم کو خاک میں ملا دیا، اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا نہیں ہے بلکہ کھلی مسلم دشمنی کا اظہار بھی ہے جو ان کے خمیر میں شامل ہے، خطے میں امریکی بالادستی کے لیے ناگزیر ہے کہ کسی بھی صورت اسرائیل کو لاحق خطرات کا قلع قمع کیا جائے، عرب ریاستیں پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کیے بیٹھی ہیں ایسے میں واحد حماس رہ جاتی ہے جو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سمیت ہر نوع کے عزائم کی راہ میں مزاحم ہے، اس لیے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح حماس کو بے دست و پا کرکے اپنے راہ کی ہر رکاوٹ کو دورکردیا جائے۔ ٹرمپ کبھی کہتے ہیں قیامت ڈھا دوں گا، کبھی کہتے ہیں معاہدہ منسوخ ہوا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا، یاللعجب! پندرہ ماہ تک غزہ میں امریکی اَشیرباد سے جو کچھ ہوا، کیا وہ قیامت سے کم تھا، اب غزہ میں بچا ہی کیا ہے جسے ختم کیا جائے؟ مہذب دنیا کو ٹرمپ سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ہوتے کون ہیں جو غزہ کے باشندوں کا فیصلہ کریں؟ غزہ کو مشرقی بحیرہ روم کی ایک نئی ریزورٹ میں تبدیل کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں، غزہ محض ایک قطعہ زمین نہیں، یہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے، یہ فلسطینیوں کی شناخت، امیدوں اور آروزوں کا مرکز ہے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں صدیوں سے وہ رہ رہے ہیں، فلسطینیوں کے غزہ سے نکلنے کا مطلب ان کی جدوجہد کا خاتمہ ہے، غزہ ان کا مادرِ وطن ہے، وہ یہاں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں مرنے کا عزم رکھتے ہیں، غزہ کو دس بار بھی تباہ کردیا جائے تو بھی یہاں کے باشندے اسے چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوچ نہیں سکتے، گزشتہ 75 سال کے تجربات اور اپنے اوپر باربار گرنے والی بجلی سیوہ کارِ آشیاں بندی کے فن سے آشنا ہو چکے ہیں، اور اس رزق پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے جس سے ان کی پرواز میں کوتاہی پیدا ہوتی ہو۔ فلسطینی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ غزہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں ہمارے لاشوں پر سے گزرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ تشبیہاً نہیں عملاً ہاتھی اور چیونٹی کی لڑائی تھی، دنیا بھر کی جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اسرائیل حماس کو شکست نہیں دے سکا اور بالآخر اسے مذاکرات کی میز پر آنا پڑا مگر تاریخ کے اس سبق کو یکسر فراموش کر کے وہ بلند و بانگ دعوے کیے جارہے ہیں جو ان کے لیے ایک پھر خفت اور شرمندگی کا باعث ہوں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کسی نشے میں ہیں، اور جنوں میں جو کچھ بک رہے ہیں اس کا انہیں اداراک تک نہیں، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جذبہ ایمان و حریت اور شوقِ شہادت سے سرشار کسی بھی قوم کو طاقت کے بل بوتے پر نہ آنکھیں دکھائی جا سکتی ہیں اور نہ انہیں زیر کیا جاسکتا ہے، ابھی حال ہی میں نہتے افغانیوں نے اپنی سرزمین پر امریکا اور اس کے چالیس اتحادیوں کے غرور کو خاک میں ملایا ہے، مسلم حکمرانوں کے یہاں اگر غیرت و حمیت کی ادنیٰ درجے بھی کوئی معنویت رہ گئی ہے تو اس صورتحال پر انہیں ہَرچِہ باد آباد کہتے ہوئے میدانِ عمل میں اترنا ہوگا، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور اپنی بقا و سلامتی کے لیے ناگزیر بھی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کی رہے ہیں حماس کو ہیں اور غزہ کے جو کچھ اور اس کے لیے

پڑھیں:

لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا

یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔

یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔

اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔

آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔

اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔

ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔

آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔

اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔

اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

 ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس 5 سالہ جنگ بندی کی شرط پر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے تیار
  • غزہ: حماس نے تمام قیدیوں کی رہائی، 5 سالہ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی
  • غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا حتمی معاہدہ تیار کیا جا رہا ہے، عرب میڈیا
  • غزہ: حماس نے تمام قیدیوں کی رہائی، 5 سالہ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی
  • یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے پانچ سالہ جنگ بندی، حماس کی پیشکش
  • سلامتی کونسل میں شام کی نئی قیادت اور مستقبل کے مسائل پر بحث
  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت پاکستانی شہریوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اگر ایسا ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وزیر دفاع
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا