منی پور میں نسلی فسادات شدت اختیار کر گئے، بھارتی حکومت نے کنٹرول سنبھال لیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری نسلی فسادات کے بعد بھارتی حکومت نے براہ راست کنٹرول سنبھال لیا۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ این برین سنگھ نے گزشتہ ہفتے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد بھارتی صدر دروپدی مرمو نے گورنر اجے کمار بھلا کی رپورٹ پر صدر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا۔
منی پور میں 2023 سے جاری تنازعے میں اکثریتی میٹی ور اقلیتی کُکی برادری کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایک عدالتی فیصلے میں کُکی برادری کو دی جانے والی معاشی سہولتیں اور نوکریوں میں کوٹہ میٹی برادری کو بھی دینے کا مشورہ دیا گیا۔ اس کے بعد دونوں گروہوں کے درمیان خونی تصادم شروع ہو گیا، جس میں اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔
منی پور کے سابق وزیر اعلیٰ این برین سنگھ جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اہم رہنما اور میٹی برادری کے نمائندہ تھے، اپوزیشن اور اپنی ہی پارٹی کے اتحادیوں کے دباؤ کے باعث مستعفی ہو گئے۔
ریاست میں بڑھتے ہوئے تشدد اور حکومت کی ناکامی پر نیشنل پیپلز پارٹی نے نومبر میں حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، تاہم مقامی میڈیا کے مطابق پارٹی نے حال ہی میں دوبارہ بی جے پی کے ساتھ الحاق کر لیا ہے۔
بھارتی حکومت نے منی پور میں صدر راج نافذ کر کے ریاست کا کنٹرول گورنر اجے کمار بھلا کو سونپ دیا ہے۔
بھارتی صدر دروپدی مرمو نے کہا، "ریاست میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں، جن میں آئینی طریقے سے حکومت چلانا ممکن نہیں رہا۔"
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ منی پور میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ میانمار کے مہاجرین کا ریاست میں داخلہ بھی ہے۔ بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کی آمد نے دونوں برادریوں کے درمیان اختلافات کو مزید بھڑکا دیا ہے۔
منی پور میں فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، اور بھارتی حکومت کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارتی حکومت منی پور میں
پڑھیں:
لائن آف کنٹرول پر ’دراندازی‘، بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب
23 اپریل 2025 کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں 2 مبینہ در اندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے۔ وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کی گئی تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جس واقعے میں 2 افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے، ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔ ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پرامن شہری تھے۔ مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔ ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔
بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہیں۔ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی پڑھیے پہلگام حملہ: پاکستان کیخلاف بھارتی میڈیا کا شیطانی پروپیگنڈا بے نقاب
مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں، اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوعہ پر کسی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ جبکہ دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں۔
اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا۔ ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ بھی پڑھیے بھارت میں امریکی صدور کے دوروں سے جڑے دہشتگردی کے واقعات
مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پرامن شہری تھے۔ ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی فوج سرجیور