Jasarat News:
2025-09-26@20:17:37 GMT
بہاولپور،شب برأت کی مناسبت سے برقی قمقموں سے سجی مسجد کا خوبصورت منظر
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
بہاولپور،شب برأت کی مناسبت سے برقی قمقموں سے سجی مسجد کا خوبصورت منظر.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سابق بھارتی چیف جسٹس کا متنازع بیان، بابری مسجد کی تعمیر کو بے حرمتی قرار دے دیا
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2025ء)بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر بذات خود ایک بیحرمتی تھی۔عرب ٹی وی کے مطابق بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر خود ایک بڑی بیحرمتی تھی جو سپریم کورٹ کے 2019 کے ایودھیا فیصلے کے برعکس ہے۔ریٹائرڈ جسٹس چندرچوڑ اس پانچ رکنی بینچ میں شامل تھے جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کر رہے تھے، اس بینچ نے نومبر 2019 میں ایودھیا کی متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔تاہم عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی)کی رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بابری مسجد کسی پرانی عمارت کو گرا کر بنائی گئی تھی۔(جاری ہے)
سری نیواسن جین کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ آپ نے مزاحمت نہیں کی جب کہ ہندوئوں نے کی اور یہ بات مسلمانوں کے خلاف گئی۔جسٹس چندرچوڑ نے جواب میں کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہندوئوں نے اندرونی صحن کی بیحرمتی کی، تو اس بنیادی بیحرمتی کا کیا جس کا آغاز مسجد کی تعمیر سے ہی ہوا کیا آپ بھول گئے کہ تاریخ میں کیا ہوا تھا انہوں نے اے ایس آئی کے اس نتیجے کا حوالہ دیا کہ مسجد کے نیچے 12ویں صدی کا ایک ہندو طرز کا ڈھانچہ موجود تھا۔جسٹس چندرچوڑ نے اسے تاریخی شواہد قرار دیتے ہوئے ناقدین پر الزام لگایا کہ وہ تاریخ کو چن کر دیکھتے ہیں اور ناپسندیدہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ آنکھیں کیسے بند کر سکتے ہیں یہ جو تبصرہ نگار کرتے ہیں، وہ تاریخ کا انتخابی مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ شواہد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تاریخ 1992 میں مسجد کے انہدام کو جواز فراہم کرتی ہے تو چندرچوڑ نے اس خیال کو رد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے نے روایتی اصولوں کی بنیاد پر ملکیت کے تعین کا طریقہ اپنایا اور شواہد اور اصولوں کی روشنی میں ہی نتیجے پر پہنچا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تنقید کہ فیصلہ عقیدے پر ہے، شواہد پر نہیں، دراصل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے فیصلہ پڑھا ہی نہیں۔جسٹس چندرچوڑ کے نیو لانڈری کو دیے گئے بیان کے برعکس، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کہا تھا کہ صرف اے ایس آئی کی رپورٹ ملکیت ثابت نہیں کر سکتی، فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ 12ویں صدی کے ڈھانچے اور 16ویں صدی کی مسجد کے درمیان صدیوں کا خلا ہے اور کوئی شواہد موجود نہیں کہ پرانا ڈھانچہ مسجد کی تعمیر کے لیے گرایا گیا تھا۔انہوں نے ایک اور متنازع مقدمے گیانواپی مسجد کے معاملے پر بھی بات کی۔جسٹس چندرچوڑ نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت کیوں دی حالانکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تحت ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ان کے مطابق وہاں عبادت گاہ کا مذہبی کردار طے شدہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہندو صدیوں سے مسجد کے تہہ خانے میں عبادت کرتے رہے ہیں، یہ ایک غیر متنازع حقیقت ہے، حالانکہ مسلمان ہمیشہ سے اس دعوے کو چیلنج کرتے آئے ہیں۔جموں و کشمیر کے معاملے پر چندرچوڑ نے حکومت کے ریاستی ازسرنو ڈھانچے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر حکام کو قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔جب ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عہدے قبول کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس نظریے کے حامی نہیں کہ ریٹائرڈ ججز کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ہر ایک کو اپنی مرضی کا حق ہے۔