پی ٹی آئی کی قیادت پر بانی چئیرمین کی رہائی کیلئےغیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ قیادت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے غیرسنجیدہ ہے اور کمیٹی کے اراکین اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوتے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی پارٹی قیادت بانی چئیرمین کی رہائی کے لیے غیر سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے نئی حکمت عملی بنانے کےلیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاہم سینئر اراکین نے شرکت نہیں کی۔
ذرائع نے بتایا کہ 12 رکنی کمیٹی پارٹی کی سینئیر قیادت پر مشتمل ہے اور کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہی سینئیر اراکین شریک نہیں ہوئے، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے 12 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کا اجلاس گزشتہ روز 4 بجے اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس کےلیے علی محمد خان، صاحبزادہ حامد رضا، رؤف حسن اور دیگر انتظار کرتے رہے جبکہ بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجا، عمر ایوب سمیت دیگر سینئر قیادت میں سے کوئی بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ عمر ایوب کی سربراہی میں 12 رکنی سیاسی کمیٹی بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی، ذیلی کمیٹی میں اسد قیصر، شبلی فراز، جنید اکبر، میاں اسلم اقبال، شاہ فرمان، صاحبزادہ حامد رضا، فردوس شمیم نقوی، علی محمد خان اور رؤف حسن شامل تھے۔
مزید بتایا گیا کہ 12رکنی سیاسی ذیلی کمیٹی بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے حکمت عملی اور تجاویز مرتب کرے گی اور اگلا اجلاس چند دن میں متوقع ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی
پڑھیں:
ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے آذربائیجان اور دیگر متعدد وسطی ایشیائی ممالک کو ابراہم ایکارڈ میں شامل کرنے کے لیے متحرک ہیں اور مذاکرات کر رہے ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق اس حوالے سے باخبر 5 ذرائع نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان کے ساتھ فعال انداز میں بات چیت کر رہی ہے اور انتظامیہ کو توقع ہے کہ ان کے سرائیل کے ساتھ تعلقات گہرے ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی تعلقات طویل عرصے سے تعلقات ہیں اور اس معاہدے میں شامل کرنے کا مقصد نمائشی ہے تاکہ تجارت اور عسکری تعاون سمیت تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے گی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ آذربائیجان کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ اس کا پڑوسی ملک آرمینیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن معاہدہ کروانے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس کے لیے ابراہم ایکارڈ میں شامل ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی ممالک کے نام لیے ہیں تاہم آذربائیجان کے ساتھ انتہائی منظم اور سنجیدہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دو ذرائع نے بتایا کہ ایک مہینے یا چند ہفتوں میں یہ معاہدہ ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے امن مشن کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے مارچ میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کا دورہ کیا تھا اور صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور اس کے بعد ویٹکوف کے قریبی ساتھی آریہ لائٹسٹون نے بھی صدر علیوف سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں ابراہم ایکارڈ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ مذاکرات کے حصے کے طور پر آذربائیجان کے عہدیداروں نے قازقستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ کیا تاکہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع کے لیے ان کو بھی شامل کیا جائے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں سے کس کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے جبکہ خطے میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغیزستان جیسے ممالک شامل ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار نے وسطی ایشیائی ممالک کے نام تو نہیں بتائے تاہم اتنا کہا کہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وسطی ایشیائی مملاک کے ساتھ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن آذربائیجان کے ساتھ بات چیت ان کے مقابلے میں کافی آگے بڑھ گئی ہے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ اس کے باوجود چیلنجز موجود ہیں اور معاہدہ حتمی شکل اختیار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں 2020 اور 2021 میں ابراہم ایکارڈ پر دستخط کیے گئے تھے اور اس معاہدے کے تحت 4 مسلم ممالک نے امریکی ثالثی میں سرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ کی اس کوشش کے نتیجے میں ان کی انتظامیہ کو امید ہے کہ سعودی عرب کو بھی قائل کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب سعودی عرب بارہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم نہیں اٹھائے گا جب تک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور حالیہ جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والی بربریت کے بعد سعودی عرب کے لیے اس طرح کا معاہدہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے بھوک ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں جبکہ اسرائیل نے امداد بھیجنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔
اسرائیل کی جنگی جنون میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں، شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔